آپ کو کالم کی سرخی شاید عجیب لگ رہی ہو کہ آخر وہ کون سی مصنوعی چیز ہے‘ جو اصل سے بھی بہتر ہے۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ سال اِنہی دنوں میں 'روزنامہ دنیا‘ کی وساطت سے آپ کو 'اندر کی خبریں‘ بھی ملتی رہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں مصنوعی بارش کی۔ پتا نہیں اس کا نام کیوں اور کس نے مصنوعی رکھا حالانکہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا پانی بالکل اصلی بارش جیسا ہوتا ہے۔ شاید اس کو مصنوعی اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے طور پر اس بارش یعنی بادلوں کو برسانے کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن ایک بات اس حوالے سے بہت اہم ہے‘ وہ یہ کہ بارش کو انسانی طریقے سے برسانے میں سب سے اہم سہولت یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی مرضی کے علاقے اور مرضی کے دِنوں میں برسا سکتے ہیں۔ اسی طرح اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ضرورت کے وقت‘ آج کل کی موسمی کیفیت کے دنوں میں‘ مصنوعی طریقے سے برسائی جانے والی بارش برستی مائع چاندی سے کم کا درجہ نہیں رکھتی۔ وجہ بہت سادہ ہے۔ پاکستان میں رواں سیزن یعنی اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں لاہور سمیت پنجاب کے زیادہ تر علاقوں میں کوئی بڑی بارش نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر کا مہینہ شروع ہو جانے کے باوجود تا حال ڈینگی مچھر سے نجات نہیں مل سکی۔ اگر نومبر کے مہینے میں صوبائی سطح پر ایک بھرپور مصنوعی بارش برسا لی جاتی تو موسم کے سرد ہونے میں بہت زیادہ مدد مل سکتی تھی لیکن تا حال سرکاری ادارے اس منصوبے کو ''ایک مہنگا ذریعہ‘‘ کہہ کر ٹال رہے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا اور ملحقہ علاقوں میں برپا ماحولیاتی جنگ کے سبب مصنوعی بارش کو حقیقت میں ڈھالنے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ اکتوبر کے مہینے کے آخر میں سموگ نام کی زہریلی دھند‘ جو اس سال اکتوبر کے وسط میں ہی شروع ہوگئی تھی‘کا راج ہمارے تمام بڑے شہروں اور میدانی علاقوں میں شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ نفسیاتی دبائو کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اس زہریلی دھند سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ا س کی وجہ سے سانس لینے میں دِقت ہوتی ہے۔ دمہ اور دل کے مریضوں کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ لوگ ورزش تو درکنار‘ سیر کرنے کے لیے بھی کھلی جگہوں، پارکس اور گرائونڈز کا رخ نہیں کر سکتے۔ سموگ کے دنوں میں سورج کی روشنی زمین تک پوری طرح نہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے زیرِ کاشت فصلوں اور دیگر نباتات کو اپنی خوراک پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ تمام قسم کی نباتات یعنی پودے اور فصلیں سورج کی روشنی کے مرہونِ منت ہیں اور اسی سے اپنی غذا پیدا کر پاتے ہیں مگر اس زہریلی دھند کی وجہ سے سورج کی روشنی کے زمین تک پہنچنے میں نہ صرف خلل پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ قدرے آلودہ بھی ہو جاتی ہے جو ہر جاندار کے لیے پُر خطر بن جاتی ہے۔ اس سموگ نامی آفت سے بچنے کے لیے ہم بہت کم اقدامات کرتے ہیں۔ زیادہ تر زور نمائشی قسم کے اقدامات پر ہوتا ہے؛ مثلاً اینٹیں بنانے والے بھٹے بند کرا دینا، چاول کی فصل کی باقیات کو نہ جلانے کی ہدایات جاری کرنا اور لوگوں کو حفاظتی تدابیراور گھر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایات جاری کرنا وغیرہ۔ حد تو یہ ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں تک بند نہیں کی جاتیں جو سب سے زیادہ کاربن پیدا کرتی ہیں۔ اس زہریلی دھند کے چھٹنے کے لیے ہم صرف ایک چیز کا انتظار کرتے رہتے ہیں‘ اور وہ ہے بارش۔ بارش کی وجہ سے فضا میں پھیلے ہوئے آلودہ ذرات زمین پر واپس آجاتے ہیں اور اس آفت سے جان چھوٹ جاتی ہے لیکن نومبر کے مہینے میں اوسطاً بمشکل ایک ہی بارش ہوتی ہے اور وہ بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے اب لازم ہو چکا ہے کہ ملک گیر سطح پر بالخصوص میدانی علاقوں اور آلودہ ترین شہروں کی لسٹ میں سرفہرست گردانے جانے والے شہروں میں مصنوعی طریقے سے بارش برسانے کا انتظام کیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام پورے جنوبی ایشیا میں ہونا چاہیے‘ خاص طور پر بھارت میں‘ جو اس زہریلی دھند کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔
ایک بار پھر یاد کراتے چلیں کہ مصنوعی بارش کو برسانے کا سلسلہ مشرقِ وسطیٰ میں نہ صرف بھرپور کامیابی سے آزمایا اور اپنایا جا چکا ہے بلکہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی علاقے اسی کے سہارے اپنی پانی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مصنوعی بارش کا انحصار ہوا میں موجود آبی بخارات پر ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہوا کسی بھی طرح ٹھنڈی ہو جائے تاکہ اس میں بخارات کو اٹھانے کی سکت ختم ہو جائے اور اس طرح بادل برسنے لگتے ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بادل آتے ہیں‘ بارش کا امکان پیدا ہوتا ہے حتیٰ کہ ہلکی بوندا باندی بھی شروع ہو جاتی ہے مگر جلد ہی یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایسی موسمی کیفیت میں بارش برسانے کا انسانی طریقہ سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لیے جہاز یا چھوٹے راکٹوں کی مدد سے بادلوں کے اوپر نمک یا خشک برف کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بادلوں کو بارش برسانے پر مجبور کر دیتی ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ بارش ہو جاتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس قدر مؤثر ہے کہ اگر آپ کسی خاص دن یا تقریب کوبارش سے بچانا چاہتے ہیں تو آپ قدرتی طور پر بننے والے بادلوں کو وقت سے پہلے برسنے پر مجبور کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ ان کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں۔ چین نے 2008ء میں بیجنگ میں ہونے والی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں یہ طریقہ کامیابی سے آزمایا تھا کیونکہ اولمپکس کی اوپننگ تقریب والے دن سو فیصد بارش کی موسمیاتی پیش گوئی کی گئی تھی مگر بادلوں کو مقررہ دن سے پہلے ہی برسنے پر مجبور کر کے افتتاحی تقریب کی رونقوں کو ماند پڑنے سے بچا لیا گیا۔ ہم نہ تو بادلوں کا رخ موڑنے کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور چاہتے ہیں‘ مگر کم از کم اس زہریلی دھند سے چھٹکارے کے لیے تو اس طریقہ کار سے استفادہ کیا ہی جانا چاہیے اور یہی ہماری استدعا ہے۔ اگر اس سلسلے میں انتظامات مستقل بنیادوں پر کر لیے جائیں اور ایک ایسا شعبہ قائم کر دیا جائے جو مصنوعی بارش برسائے تو اس طرح کی بارش کی مدد سے سردیوں میں دھند کی وجہ سے ٹریفک کی روانی اور فضائی رابطوں میں پیش آنے والی مشکلات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی‘ اگر ہم اپنے شمالی علاقوں کے پہاڑی سلسلوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ وہاں تقریباً پورا سال بادل موجود رہتے ہیں جن کو کنٹرولڈ طریقے سے برسنے پر مجبور کر کے ہم پانی کی کمی پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس کام کے لیے اپنے ہاں پہاڑوں میں ایک ایسا ڈیم بنا رکھا ہے جس کو وہ مصنوعی بارش کے ذریعے بھر لیتے ہیں اور اپنا پانی کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ دبئی یا متحدہ عرب امارات میں بادل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کو مصنوعی بارش برسانے کے لیے دُگنی سے بھی زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس طریقے میں وہ بارش کے لیے پہلے بادل پیدا کرتے ہیں اور پھر ان بادلوں کو مخصوص جگہ پر برسنے پر مجبور کرتے ہیں۔
آخر میں ذکر سرکار کے ان انتظامات کا‘ جن کی وجہ سے ایک بے مزہ سا شور ڈالا جا رہا ہے۔ آپ نے بھی یہ خبر سنی ہو گی کہ لاہور سمیت کئی شہروں میں جگہ جگہ ایسے آلات لگائے گئے ہیں جن کی مدد سے فضا میں موجود آلودگی کا ہر لمحے پتا لگایا جا سکتا ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو بخار ہو جائے اور وہ شدید قسم کی اذیت میں مبتلا کراہ رہا ہو، مریض کے تیمارداروں سے پوچھا جائے کہ آپ علاج کے لیے کیا تدابیر کر رہے ہیں تو وہ جواب دیں کہ ہم نے مریض کے جسم کے ساتھ ایسے آلات لگا دیے ہیں جو ہر لمحے مریض کو ہونے والے بخار کی شدت یا حدت بتا دیتے ہیں۔ اس پر آپ کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو گا کہ جناب! بخار کا اندازہ تو مریض کی حالت دیکھ کر اور اس کو چھونے ہی سے ہو رہا ہے‘ آپ اس کا علاج کیوں نہیں کرتے۔ اس کو دوائی دیں‘ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کریں تاکہ بخار اتر سکے، بار بار چیک کرنے سے بخار کو کیا فرق پڑنا ہے؟ حکومتی اقدامات بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ ہمیں محض آلودگی کے میٹر لگانے کی نہیں‘ بلکہ دوا دارو کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟