نئی عالمی سرد جنگ

آج کی دنیا میں چین اور امریکہ کے درمیان جاری سرد جنگ اب سرد سے قدرے نیم گرم جنگ کا روپ دھار چکی ہے۔ اس جنگ کے سبھی بڑے محاذ‘ سوائے یوکرین کے‘ ایشیا کے اندر ہی ہیں۔ ان محاذوں میں سب سے بڑا تائیوان ہے‘ جسے چین اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے جس سے متعلق چین کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اس کے ملک کا ایک حصہ ہے۔ اس دعوے میں دَم اس لیے زیادہ ہے کہ اس کو ابھی تک اقوام متحدہ کی ممبرشپ نہیں مل سکی اور تاریخی طور پر یہ کسی نہ کسی شکل میں چین ہی کا حصہ تھا۔ اس محاذ کے علاوہ ایک محاذ بحیرۂ جنوبی چین (South China Sea)میں ہے جبکہ چین اور بھارت کی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سے زائد طویل سرحد‘ تقریباً ساری کی ساری متنازع شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کے بعد کواڈ نامی ایک عسکری اتحاد بھی چین کا مقابلہ کرنے کیلئے تشکیل دیا جا چکا ہے جس کا ممبر آسٹریلیا بھی ہے۔ ایک محاذ اب کسی نہ کسی شکل میں افغانستان اور اس سے ملحقہ چین کے سرحدی علاقوں میں کھولنے کی تیاری ہے۔ الغرض برا عظم ایشیا میں کئی گرم محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ اس سرد و نیم گرم جنگ کی بنیادی وجہ چین کا عالمی سطح پر امریکہ کی برتری کو چیلنج کرنا اور اپنے آپ کو امریکہ کے ہم پلہ طاقت کے طور پر منوانا ہے۔ اس سے پہلے دوسری عالمی جنگ کے بعد چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک لڑی جانے والی سرد جنگ میں امریکہ کا مقابلہ روس سے تھا۔ اس وقت کی دنیا کو بائی پولر (دو قطبی)کہا جاتا تھا مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے واحد سپر طاقت کے طور پر دنیا پر حکمرانی کی اور دنیا یونی پولر (یک قطبی) بن گئی۔ اب پھر امریکہ کو وہی معاملہ چین کی شکل میں درپیش ہے۔ امریکہ کو چیلنج کرنے والا ایک ملک روس بھی ہے، جس نے گزشتہ سال فروری سے یوکرین پر حملہ کر رکھا ہے۔ اس حملے کی وجہ سے یورپ نے خاصی معاشی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ یورپ کو زیادہ تر گیس روس فراہم کرتا تھا مگر اب روس نے گیس کی فراہمی بند کر رکھی ہے جس کی وجہ سے یورپ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سرد جنگ کے اثرات اب یورپ بھی جھیل رہا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے ایک عالمی معاشی بحران دنیا کے افق پر چھایا ہوا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات بھی کم نہیں۔
البتہ امریکی اتحاد کو ایک برتری چین اور اس کے ہمنوا ممالک پر کچھ اس طرح حاصل ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک دنیا بھر میں مضبوط معاشی و عسکری طاقت مانے جاتے ہیں۔ برطانیہ مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد فرانس، جرمنی، جاپان اور آسٹریلیا کا نام آتا ہے، جو ہر طرح سے امریکہ کے ہم خیال ہیں۔ جاپان کا امریکہ کا اتحادی ہونانہ صرف چین بلکہ روس کیلئے بھی ایک کمزروی کا پہلو ہے۔ واضح رہے کہ چین اور جاپان کے درمیان کچھ جزیروں کو لے کر تنازع پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور روس کے درمیان تعلقات محض ہم خیال ہونے کی حد تک ہیں نہ کہ کسی قریبی اتحادی کی طرح۔ اس کے بعد امریکی برتری کا ایک بڑا پہلو نیٹو جیسے عسکری اتحادکاہونا ہے، جبکہ چین کی سربراہی میں قائم شنگھائی تعاون تنظیم نہ تو نیٹو کی طرز پر مضبوط معاشی و عسکری اتحاد ہے اور نہ ہی اس میں شامل ممالک اتنے زیادہ طاقتور اور ہم خیال ہیں۔ اس اتحاد کی کمزوری یا اس کے کم مؤثر ہونے کا ایک بڑا اظہار بھارت ہے، جو ویسے تو اس تنظیم کا ممبر ہے لیکن عملی طور پر چین کا حریفِ اول سمجھا جاتا ہے۔
چین کی حکمت عملی اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی طاقت کا سارا انحصار ''سافٹ پاور‘‘ پر ہے۔ چین براہ راست کسی گرم محاذ کا حصہ بننے کے بجائے نرم طاقت کے بل بوتے پر اپنی معاشی طاقت کو بڑھانے، اپنے ہمسایہ ممالک کی اندرونی سیاست میں مداخلت کے بجائے ان کو بھی معاشی میدان میں آگے بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ اس کے معاشی منصوبے ایشیا ہی نہیں بلکہ یورپ اور افریقہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی پالیسی پر مبنی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ چین بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات اور گاہے گاہے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے باوجود اربوں ڈالرز کی دو طرفہ تجارت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ چین کی پالیسیوں میں اپنے ملک کو اندرونی طور پر اور لمبے عرصے کے لیے مضبوط کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو اس کا موسمیاتی تبدیلیوں اور تباہیوں سے نمٹنا ہے۔ چین نے موسم کنٹرول کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے بھارت کے کل رقبے سے زیادہ رقبے پر مصنوعی بارش سمیت دیگر منصوبوں کے ذریعے موسم کی شدت پر قابو پانے کا کام لیا جائے گا۔ چین تا حال آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے حوالے سے پانی کی قلت اور انرجی بحران کا ممکنہ شکار ملک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین کا سب سے بڑا دریا پانی کی قلت کا شکار ہو کر اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے کچھ حصے خشک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی بارشوں سے مدد لی جا رہی ہے۔ یہاں ماحولیاتی مسائل کے ذکر کا ایک مقصد یہ ہے کہ یہ مسائل ایک عالمگیر بحران بن چکے ہیں اور اس وقت ان کا سامنا تقریباً پوری دنیا کو ہے۔
امریکہ و چین کی سرد جنگ کا اگلا محاذ مشرقِ وسطیٰ ہے، جہاں چین اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ چین کی پالیسی مشرقِ وسطیٰ میں بھی عسکری سے زیادہ معاشی نوعیت کی ہے۔ چین کے ہاں تیل کی پیداوار اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ اپنی کھپت کو پورا کرسکے۔ اس لیے تیل کی در آمد کیلئے اسے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر معاشی شعبہ جات میں بھی چین مشرقِ وسطیٰ سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب‘ اس حوالے سے دو نمایاں نام ہیں۔ ایران کے ساتھ تو پہلے ہی چین لمبی مدت کا ایک معاہدہ کر چکا ہے۔ اب سعودی عرب سے بھرپور تعلقات اس کی سافٹ اور معاشی تعلقات کے فروغ پر مبنی خارجہ پالیسی کا انتہائی مؤثر اقدام ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے چین اپنے خارجہ تعلقات کو بدستور بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی و عسکری معاملات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے آگے بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر چین عسکری نوعیت کے تعلقات بڑھائے تو وہ انتہائی تیزی سے پوری دنیامیں اپنا اثر بڑھا سکتا ہے لیکن وہ اس پہلو کو اب تک نظر انداز کر رہا ہے۔ یہاں سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کو یاد کیا جائے تو وہ چین کی پالیسی کے بالکل برعکس تھی۔ روس اپنے معاشی نظریا ت کو بنیاد بنا کر پوری دنیا میں ان کے فروغ کے مشن پر مامور تھا اور اس کے لیے صرف سرد ہی نہیں بلکہ گرم جنگوں کا سہارا بھی لیتا تھا اور کافی بھاری قیمت چکاتا تھا۔ اپنی پسند کی حکومتیں بنا نا اور منتخب حکومتوں کو گرانا اس کی پالیسیوں کا بنیادی حصہ تھا۔ اس طرز کی خارجہ پالیسی نے روس کا معاشی بوجھ بہت بڑھا دیا تھا۔ دوسری طرف روس کی مشکل بھی چین جیسی تھی کہ کوئی بھی بڑی عسکری و معاشی طاقت اس کی اتحادی نہیں تھی۔ مشرقی یورپ کے جو ممالک وارسا پیکٹ کے تحت اس کے اتحادی بنے تھے‘ وہ معاشی و عسکری طور پر زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ نتیجہ نہ صرف سوویت یونین کی شکست کی صورت میں نکلا بلکہ اپنے وقت کی یہ سپر پاور چودہ حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
محسوس ہوتا ہے کہ سوویت یونین نے عالمی طاقت کی حیثیت سے جتنی بھی غلطیاں کی تھیں‘ ان سے چین نے نہ صرف سبق سیکھا ہے بلکہ انہیں مشعلِ راہ بھی بنایا ہے۔ چین کا جغرافیہ اس طرح کا ہے کہ اس کی سرحد چودہ ملکوں سے ملتی ہے۔ اس وجہ سے چین کافی حد تک ان ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اگر ان ممالک میں خوشحالی آتی ہے اور ان کے تعلقات چین سے اچھے ہوتے ہیں تو چین کو ایک قوت حاصل ہو گی اور معاشی طور پر بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اس کو تجارتی فوائد بھی مل سکتے ہیں لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے تو یہ چین کیلئے اپنی بقا کی جنگ بن جائے گی جو اس کو ہر حال میں جیتنا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں