ہجرت، جیب اور جیل

ذکر چل رہا تھا ہجرت کا! ترقی پذیر ممالک کے لوگ اس کے ہمیشہ خواہاں نظر آتے ہیں۔ معاشی تنگ دستی کے علاوہ دنیا میں ہجرت کی ایک وجہ زبردستی کی ہجرت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کو Diaspora کہا جاتاہے۔ اس قسم کی ہجرت کی دو بڑی مثالیں، کشمیری اور سکھ Diaspora ہیں۔ آپ کوامریکہ کے افغانستان سے انخلا کا منظر یاد ہوگا جب ایک بڑے طیارے کے اندر‘ جتنے مسافر بیٹھ کر جاسکتے تھے‘ بیٹھ گئے تھے‘ یہ طیارہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ لوگ اس طیارے میں سوار ہونے کے چکر میں اپنی جان بھی گنوا بیٹھے تھے۔ اسی طرح آئے روز غیر قانونی طریقوں سے مغربی ممالک کی سرحد پار کرنے والوں کی گرفتاریوں یا ہلاکتوں کی خبریں بھی آئے روز سنتے رہتے ہوں گے۔ ہجرت کرنے والے چاہے جتنے بھی خوش حال ملک میں چلے جائیں‘ ان کو ایک بات کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔ وہ احساس ایک ''اجنبیت‘‘ کا ہوتا ہے۔ دیارِ غیر میں مقامی زبان سیکھنا، رسم ورواج، قوانین، مختلف قسم کی آب و ہوا، اور دیگر امورِ زندگی میں کوئی شخص چاہ کر بھی مکمل اپنائیت پیدا نہیں کر پاتا۔ لیکن ایک بات جو ان تمام امور کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے‘ اس کا نام معاشی خوشحالی‘ (روٹی) اور تحفظ کا احساس ہے۔
جبر ی ہجرت اور بر صغیر
'روزنامہ دنیا‘ کے انہی صفحات میں گزشتہ سال جنوبی ایشیا کے حالات پر کئی کالم لکھے گئے تھے جن میں یہ تذکرہ تفصیل سے کیا گیا تھا کہ برصغیر کے عوام کو‘ آنے والے پانچ‘ دس سالوں میں اس خطے سے ہجرت کی ایک ناگہانی وجہ کا سامنا ہوگا۔ اس وجہ کا نام ''ماحولیاتی آلودگی‘‘ ہے جو پانی کی کمیابی و کمی، سانس لینے والی ہوا کی آلودگی، بڑھتی ہوئی گرمی اور اس سے منسلک دیگر مشکلات کا سبب ہے۔ واضح رہے کہ عالمی درجہ بندی میں پچاس آلودہ ترین شہروں میں سے چالیس صرف بھارت میں ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی بارہا بیان کی گئی ہے کہ جو خطہ آبادی کے تناسب سے دنیا کا سب سے بڑا خطہ ہو اور اس کی آبادی میں کئی گنا تیزی سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہو‘ وہاں اس طرح کے مسائل کا جنم لینا فطری ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں دنیا کی آبادی میں کل اضافے کا تیس سے تینتیس فیصد حصہ ہے۔ یعنی دنیا میں آنے والا ہر تیسرا بچہ اس خطے میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو خطرناک تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش والی بات یہ ہے کہ انتہائی تیزی سے بڑھتی آبادی کو روکنے کا کوئی بھی خاص بندوبست عملی طور پر تو کجا‘ بیانات کی حد تک بھی نظر نہیں آتا۔ اب اس خطے کے لوگوں کے لیے ہجرت کرنے کے مواقع بھی آسان نہیں رہے ہیں۔ اگر بھارت کو دیکھیں تو اس کی سب سے بڑی سرحد چین کو لگتی ہے لیکن چین کے ساتھ ایک تو اس کے تعلقات جنگی حد تک کشیدہ ہیں، دوسری بات یہ کہ چین والے غیر ملکیوں کو شہریت نہیں دیتے۔ اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو اس کے مسائل بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی سرحد بھارت کے ساتھ ہے جس کے ساتھ تعلقات واضح ہیں۔ دوسری طرف تباہ حال افغانستان ہے۔ افغانستان کے تو اپنے لوگ ہجرت کر کے پاکستان کا رخ کرتے ہیں؛ البتہ پاکستان سے ڈالرز سمگل ہو کر افغانستان ضرور جا رہے ہیں جس سے اس کو معاشی فائدہ ہو رہا ہے اور اس کی کرنسی مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی سرحد ایران سے ملتی ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرح تیل و گیس کے وسیع ذخائر رکھتا ہے لیکن اس پر عائد سخت گیر قسم کی عالمی پابندیوں نے اس کا معاشی بازو قابو کر رکھا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پاکستان جیسا ہمسایہ ملک چاہنے کے باوجود اتنا بھی نہیں کر سکتا کہ ایران سے سستے داموں تیل ہی خرید سکے۔ اب پاکستانیوں کے لیے بھی چین ہی بچتا ہے جو غیر ملکیوں کو مستقل شہریت نہیں دیتا۔ پاکستان سے انتہائی دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر کئی طبقے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ چین نے جس طرح دیگر ممالک کے لیے خصوصی معاشی زونز بنائے تھے‘ اسی طرح جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستانیوں کے لیے بھی ایک معاشی زون ضرور بنائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ جو سرمایہ کار پاکستان سے دیگر ممالک جا رہے ہیں‘ وہ چین جانا شروع ہو جائیں گے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوگی کہ ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان سے لوگ بہ آسانی چین میں روز گار کا سلسلہ شروع کر سکیں گے۔ اس طرح سرمایہ کاروں کی جو بڑی تعداد مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے‘ وہ چین کا رخ کر سکے گی۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ چین کی آبادی میں اضافہ تقریباً صفر ہو چکا ہے بلکہ اس وقت یہ منفی میں ہے یعنی گزشتہ برس کی نسبت چین کی آبادی میں کمی ہوئی ہے، اگر یہ رجحان جاری رہا‘ جس کا واضح امکان ہے‘ تو مستقبل میں اسے نوجوان آبادی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ بیشتر مغربی ممالک آبادی میں اضافے کے معاملے میں صفر شرح کے حامل ہیں اور وہ اسی وجہ سے دنیا بھر کے ہنر مند لوگوں کو اپنے ہاں شہریت دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ چین اس حوالے سے کیا پالیسی اپناتا ہے۔
جیل بھرو تحریک اور روٹی
آج کل پاکستان میں گرفتاریوں اور جیل بھرو تحریک کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کہ جیل میں رہنا بہت مشکل ہے‘ کا حوالہ یہاں بہت اہم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بیان عمران خان کے اس اعلان کے بعد دیا جس میں خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ سب سے پہلے خود گرفتاری دیں گے۔ اس بیان سے یہ ایک تو یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ جیل میں رہنے کے لیے جگہ تنگ ہے، بستر اور ٹوائلٹ وغیرہ کی مشکلات کا حوالہ بھی ملتا ہے لیکن ایک پہلو کو وزیر داخلہ صاحب نے فراموش کر دیا ہے۔ اگر وہ پہلو درست طریقے سے اجاگر ہو گیا تو جیلیں خود بخود بھر جائیں گی۔آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ وہ کون سا پہلو ہے جس سے جیلیں خود بخود بھر جائیں گی۔ شاید آپ کے ذہن میں کپتان کی مقبولیت کا ریکارڈآ رہا ہو کہ حالیہ جائزوں میں پاکستان بننے کے بعد‘ انہیں ملکی سیاست کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسرا خیال یہ ہو سکتا ہے کہ جب سے پی ڈی ایم اتحاد برسراقتدار آیا ہے‘ پاکستان کی تاریخ کے مہنگائی کے لگ بھگ سبھی ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں، محض ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں سو روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کئی کئی گنا بڑھ چکی ہیں‘ آئے روز بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ممکن ہے کہ لوگ تنگ آکر جیلیں بھرنا شروع کر دیں۔ نہیں صاحب !ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دراصل معاملہ کچھ اور ہے اور کچھ عجیب و غریب ہے۔ اس حوالے سے ''عجیب اورغریب‘‘ یہ دونوں الفاظ حقیقی معنوں میں عملی شکل اختیا کرتے نظر آتے ہیں۔ عجیب اس طرح کہ لوگ بخوشی جیل جائیں گے اور غریب اس لیے کہ اس تحریک میں غریب کے لیے زیادہ کشش ہے۔ چلیں‘ اب اس معاملے کو مکمل کر دیتے ہیں۔ مسئلہ در اصل یہ ہے کہ جیل میں بند قیدیوں کو کھانا(روٹی) دینا جیل کی انتظامیہ یعنی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لمبی مدت کے قیدیوں سے جیل میں کوئی نہ کوئی مشقت لی جاتی ہے یعنی مزدوری کرائی جاتی ہے۔ اس وقت بیروزگاری ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں تو یہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک مزدور کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ہی مشکل ہے‘ جبکہ رہائش کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز اس کے علاوہ ہے۔ اب اگر جیل میں روٹی ملے گی، رہائش مفت ملے گی، بجلی وغیرہ کا کوئی بل بھی نہیں دینا پڑے گا تو اس طرح جیل کا قدرے مختلف تصور ابھر کر سامنے آئے گا۔ بہرحال‘ اربابِ اختیار سے بس یہی گزارش ہے کہ اب حکومتیں بنانے اور گرانے سے آگے کا سوچیں کیونکہ غربت نے لوگوں کو حتیٰ کہ مڈل کلاس کو بھی اتنی مشکل میں ڈال دیا ہے کہ وہ اجنبی محسوس کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس لیے ہر وہ شخص‘ جو جیب خالی ہونے کی وجہ سے بیرونِ ملک نہیں جاسکتا‘ وہ جیل جانے کا ضرور سوچ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں