گزشتہ کالم میں بات ہوئی تھی کہ چین کی آبادی میں اضافے کی شرح صفر ہے‘ جو گزشتہ کئی سالوں سے چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے اس امید کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ اگر چین غیر ملکیوں کو اپنے ہاں شہریت دینا شروع کر دے تو پاکستان جیسے ممالک کیلئے ایک نیا معاشی موقع ابھر کر سامنے آئے گا۔ اسی ضمن میں اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ چین نے اپنے ہاں آبادی بڑھانے کی ترغیب دینے کے طریقوں پر غور کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ چین نے بحیثیت قوم اپنی آبادی پر قابو پانے کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہوا جب جنوبی ایشیا کے ممالک کی بے بس پالیسیوں اور اپنے لوگوں کی بھوک کو مٹانے کے بجائے مصنوعی طریقوں سے بھوک کو بھلانے کے طریقے اپنانے میں شدت آرہی ہے۔ اگر جنوبی ایشیائی ممالک کی بھوک بھلانے والی بات سمجھ نہ آ رہی ہو تو تفصیل بیان کرنے سے پہلے آپ کو ایک اشارہ دے دیتے ہیں کہ اس وقت جیسے جیسے جنوبی ایشیا میں بھوک کا راج بڑھتا جا رہا ہے اور مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘ ساتھ ہی ساتھ کرکٹ کا راج بھی جاری ہے اور کرکٹ کی تواتر سے ہونی والی سیریز اور میچز سابقہ تمام ریکارڈز توڑ رہے ہیں۔
چین کی قوم کا قومی دھارا
چین نے 1980ء کی دہائی میں فیصلہ کیا تھا کہ اس کی آبادی جس حساب اور جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ یہ اس کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے اور اس شرح میں مزید اضافہ بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گا۔ اس خطرے کی نشاندہی ہوتے ہی چین نے انسانی تاریخ کی سب سے سخت پالیسی محض بنائی ہی نہیں بلکہ ایک سخت گیر قانون کے طور پر لاگو بھی کر دی۔ اس پالیسی کا نام ''ایک جوڑا‘ ایک بچہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ پالیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بچے کے بعد زبردستی ابارشن کر دیا جاتا تھا۔ اگر کسی بھی وجہ سے کسی جوڑے کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش رپورٹ ہو جاتی تو اس جوڑے کو سزا ملتی تھی۔ ان کو سرکاری مراعات سے محروم کر دیا جاتا تھا،بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ چین نے یہ پالیسی 2016ء تک برقرار رکھی۔ اس کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس دوران چین کی آبادی میں چالیس سے پینتالیس کروڑکے اضافے کو روکا گیا۔ چین کی اس پالیسی پر کسی بھی مغربی ملک نے کسی بھی قسم کی کوئی تنقید نہیں کی تھی۔ حالانکہ چین کے کمیونسٹ ملک ہونے کے باعث اس کی لگ بھگ سبھی پالیسیوں اور سبھی اقدامات کو مغرب کی جانب سے لازماً تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی اس آبادی کو ایک ایسا فیکٹر سمجھا جاتا ہے‘ جو نہ صرف معاشی وسائل بلکہ قدرتی ماحول کے لیے بھی انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے مغربی ممالک نے اس پالیسی پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اندازہ لگائیں کہ اگر چین کی آبادی میں 45 کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہوتا تو چین اس وقت دو ارب کی آبادی والا دنیا کا پہلا ملک بننے کے قریب ہوتا۔ واضح رہے 45 کروڑ کا مطلب ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا دو گنا۔ اگر چین کی آبادی دو ارب ہو جاتی تو یہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد ہوتی جتنی اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ہے۔ 2016ء میں سرکاری سطح پر دوسر ے بچے کی اجازت دینے کے باوجود چین کے عوام ایک جوڑا ایک بچہ پالیسی سے باہر نہیں نکلے۔ وہ شاید مغربی ممالک کی طرح اس بات سے آشنا ہو چکے ہیں کہ اچھی، مکمل اور صحت مند پرورش کرنی ہو تو ایک بچہ بہت ہوتا ہے۔ اس لیے دوبچوں کی اجازت ملنے کے باوجود چین کی آبادی میں اضافہ صفر ہی رہا۔ شرحِ آبادی میں صفر اضافے کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ چین میں جتنی اموات ہوتی ہیں‘ لگ بھگ اتنے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح شرحِ پیدائش اور شرحِ اموات برابر ہونے سے آبادی میں اضافہ صفر ہو جاتا ہے۔ اب چونکہ چھ سال سے چین کی آبادی میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ یہ شرح اب منفی میں ہے تو حکومت اس سلسلے میں ترغیبات دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس طرح کی پالیسیوں اور قوانین کوبحیثیت قوم اپنانے کو قومی دھارے کا نام دیا جاتا ہے۔ چین کی حکومت کو یہ تجویز دی جا سکتی ہے کہ وہ معاشی مشکلات کے شکار پڑوسی ممالک سے اگر لیبر منگوا لے تو اس کو یہ لیبر سستی لاگت میں مل سکتی ہے۔ اسی طرح اگر چین پاکستان جیسے ملکوں سے نوجوانوں کو اپنے ہاں بلا کر کوئی سکلز سکھا کر کام پر لگا دے تو وہ اپنے ملکوں میں 'چین کے سفیر‘ بن سکتے ہیں۔ بھلے چین ان لوگوں کو شہریت یا مستقل سکونت نہ دے‘ لیکن اس سے دونوں اطراف کا بھلا ہو گا۔ امریکہ اسی پالیسی کے تحت دنیا بھر کے لوگوں کو Americanized کرتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ سے واپس آنے کے بعد بھی وہ لوگ امریکہ اور امریکی نظام ہی کی بھاشا بولتے ہیں۔
Fictitious دوائی اور بھوک
اب آپ کو چین کے پڑوسی ممالک یعنی جنوبی ایشیا کی جانب لیے چلتے ہیں جہاں نہ صرف آبادی مسلسل اور خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی و مقامی حالات کی وجہ سے معاشی تنگ دستی اور مہنگائی کی شرح بھی خطرناک انداز سے بڑھ رہی ہے جس نے لوگوں کو گریبان سے ہی نہیں‘ شہ رگ سے بھی پکڑ رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حالت تو دنیا بھر میں ایک انوکھی مثال بنتی جا رہی ہے۔ صرف گیس کی قیمت میں یکلخت 113 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں پچھلے بیس دنوں میں 52 روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ حالانکہ اس وقت عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے۔ جتنا بھی حوصلہ بڑھا کر حالات کودیکھیں‘ صورتحال سمجھ سے ماورا ہی رہتی ہے اور اگر سمجھ میں آتی ہے تو عقل جواب دے جاتی ہے اور انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن ان حالات میں ایک بات ضرور عیاں ہو رہی ہے کہ قوم کو بے سدھ رکھنے کے لیے ایک مصنوعی دوا کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔آپ نے کسی مرض میں دوا کا استعمال تو سنا ہو گا اور سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مصنوعی دوائی کہاں سے آگئی‘ یہ کس طرح دی جاتی ہے اور کیا کام کرتی ہے۔ پرانے وقتوں میں جب حکیموں اور اطباء کے پاس کوئی ایسا مریض آ جاتا جس کی بیماری کا معالج کو علم نہیں ہو پاتا تھا تو اس کو ایک ایسی دوائی دیتے تھے جس کا براہِ راست کسی بھی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ اس قسم کی دوائی کو مصنوعی یا Fictitious میڈیسن کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسے مریضوں کو ہاضمہ درست کرنے کی کوئی پھکی دے دی جاتی اور یہ ہدایت کی جاتی کہ لمبی سیر کرنی ہے‘ دودھ اور دہی کا استعمال زیادہ کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے مریض کا دھیان بٹ جاتا اور اس کو ایک ذہنی سکون مل جاتا۔ بسا اوقات مریض کو اس طریقۂ علاج سے افاقہ بھی ہو جاتا۔ اب جنوبی ایشیا کے ممالک اپنے لوگوں کو کرکٹ کی صورت میں ایک مصنوعی خوراک کھلا رہے ہیں۔ سری لنکا جو اس وقت اعلانیہ ڈیفالٹ کر چکا ہے‘ اس نے بھی عالمی سطح کے کھلاڑیوں کو بلا کر اپنے ملک میں ایک ٹی ٹونٹی کرکٹ سیریز کا انعقاد کرایا ہے۔ اس سیریز کو دیکھنے کیلئے لوگ جوق در جوق آئے اور سارا غم بھلا کر اس مصنوعی خوشی کی خوراک سے اپنے آپ کو لبھاتے رہے۔ اس کے فوری بعد معاشی مشکلات کے شکار بنگلہ دیش میں اسی طرز کی ایک سیریز کا انعقاد کرایا گیا۔ابھی یہ سیریز مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان میں سپرلیگ کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد بھارت میں ٹی ٹونٹی لیگ شروع ہو جائے گی۔ بھارت میں ایک اضافہ خواتین کی سیریز کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ دو انٹرنیشنل ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا جبکہ بھارت میں بھی دو سیریز ہو چکی ہیں۔ آئی پی ایل کی ٹیموں کو جنوبی افریقہ کی لیگ ٹیموں میں ضم کر کے بھی ایک ٹی ٹونٹی سیریز کا انعقاد کرایا گیا۔ ہمارے یہاں لیگ کرکٹ کے ابتدائی میچز میں لوگوں کی دلچسپی دیکھ کر اندازہ ہو گیا ہے کہ اس سیریز کے دوران ملک میں کوئی سیاسی ہلچل نہیں ہو گی۔ اس مصنوعی دوائی کی وجہ سے مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا مزید اضافہ بھی دب کر رہ جائے گا۔