دو اہم شخصیات نے حالیہ دنوں میں کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ جن سے یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ دنیا میں صدیوں پرانی مشرق اور مغرب کی تقسیم ہی موجود نہیں بلکہ ان خطوں میں ایک جنگ کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ آپ اس کو ایشیا اور مشرق کی مغرب و یورپ سے خلش نما جنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ دنیا پر اپنا حکم چلانے کی طاقت کا حصول ہے جسے عرفِ عام میں ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے۔ ماضی بعید سے لے کر آج تک جتنے بھی ورلڈ آرڈر وجود میں آئے ہیں‘ جو Uni-Polar، Bi- Polarیا Multi- Polar تھے‘ ان میں طاقت کے محور اور مرکزی کردار ایشیا اور مغرب (یورپ و امریکہ)ہی کے علاقوں سے رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس کشمکش میں آج تک جنوبی ایشیا کا علاقہ سب سے زیادہ جبر و ظلم کا شکار بنا رہا ہے اور اسے اتفاق کہیں یا باقاعدہ پلاننگ‘ کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت ایشیائی بلکہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں ہی آباد ہے۔ بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں مسلمانوں کی کُل آبادی کا لگ بھگ ایک تہائی آباد ہے۔ اس پس منظر میں دو اہم شخصیات کی جانب سے کیا کہا گیا اور کس حد تک ماضی کو کریدا گیا‘ آئیے اس کا ذکر کرتے ہیں۔
برطانوی استعمار اور لوٹ مار
بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا ایک بیان اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ برطانوی دور کے دو سو سالوں کے ظلم و استبداد کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں تاجِ برطانیہ نے جنوبی ایشیا سے 45 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی دولت لوٹ کر برطانیہ منتقل کی۔ اس موضوع پر بہت ساری کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اگر آپ اس لوٹ مار کا ذکر مختصراً سننا چاہتے ہیں تو مشہور بھارتی مصنف اور سیاستدان ششی تھرور کا آٹھ منٹ کا ایک وڈیو کلپ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی ہفتے ایک کتاب ''نو آبادیات، ردِ نو آبادیات اور جدیدیت کا مطالعہ‘‘ از ڈاکٹر سومرو مارکیٹ میں آئی ہے۔ اس کتاب کا تعارف پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر شاہ زیب نے لکھا ہے جو خود یورپ سے انگلش زبان میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ موجودہ نسل کے لکھنے والوں کی جانب سے اس تلخ تاریخ کے پہلو پر لکھنا اس لیے ایک احسن اقدام ہے کہ ہمارے ہاں تاریخِ پاکستان کی کتابوں میں برطانوی راج کے اس سیاہ پہلو کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ حتیٰ کہ ملک کے سب سے اہم امتحان‘ سی ایس ایس کے نصاب میں شامل مطالعہ پاکستان میں بھی برطانوی راج کی لوٹ مار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اُس دور کو کلونیل ازم یعنی نوآبادیاتی دور کہا جاتا ہے جبکہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر سیاسی قبضے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر کسی غاصب کے قبضے کا مقصد معاشی استحصال اور لوٹ مار ہو تو اس کو Imperialismکہا جانا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک اہم حوالہ سوویت یونین کے بانی رہنما ولادیمیر لینن ہیں جن کی کتاب Imperialism, the Highest Stage of Capitalism کا معالعہ اس ضمن میں بہت ضروری ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تاریخی حقائق سے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے عروج پر پہنچ کر پوری دنیا کے لوگوں کو ایک معاشی ایکٹر بنا دیتا ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں کو صرف معاشی پیداوار کرنے والا اور پھر پیدا کردہ چیزوں کو استعما ل کرنے والی اکائی (صارف) میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس بات کا نچوڑ کچھ یہ ہے کہ '' سرمایہ دار کام کرنے والوں کو صرف اتنا دیتے ہیں کہ وہ زندہ رہ سکیں اور مزید پیدا کر سکیں‘‘۔ بات شروع ہوئی تھی جے شنکر کے بیان سے‘ جو تاریخ کے حوالے سے ہے لیکن تھوڑا سا غور کریں تو آج بھی جنوبی ایشیا اپنے سابقہ حکمرانوں کے زیرِ تسلط ہے۔فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب طاقت کا مرکز برطانیہ سے امریکہ منتقل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی عالمی حکمرانی اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے مقابل کوئی اور طاقت نہ آئے۔ مگر امریکہ کے مقابل اس وقت ایک طاقت سامنے آچکی ہے اور اس کا تعلق اسی خطے یعنی ایشیا ہی سے ہے، اس طاقت کا نام ہے چین۔ اس سے پہلے سوویت یونین امریکہ کے مقابل آیا تھا اور وہ بھی بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہی ہے۔ جو بات بھارتی وزیر کو اپنی حکومت سے کہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس وقت چین کے خلاف جو ملک سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے‘ وہ بھارت ہی ہے۔ دوسری طرف چین کی یہ مجبوری اور اس کی پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ ایشیائی ممالک کو ایک معاشی حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں چین کے سربراہ نے رواں سال ایک بیان بھی دیا تھا کہ ایشیا کو عالمی طاقتوں کی جنگوں کا میدان نہیں بننا چاہیے۔اس وقت دنیا میں جاری عالمی سرد جنگ‘ چین بمقابلہ امریکہ‘ میں بھارت ایک فریق کے طور پر ہر ممکن حد تک چین کے مخالف تو کھڑا ہے ہی‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان کے اندر معاشی و مسلح دہشت گردی میں بھی بھرپور استعمال ہو رہا ہے۔
ہم آپ کے برابر نہیں ہیں
عیسائی مذہب کے پیشوا پوپ فرانسس نے 2019ء میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا، اب ویٹی کن کے آرچ بشپ شونبرن نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اور رابطہ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ سے ملاقات کی۔ اپنے دورے میں آرچ بشپ نے ایک بیان میں تمام انسانوں کے برابر ہونے کی بات کی تو ڈاکٹر العیسیٰ نے کمال بہادری اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمان آپ کے برابر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر العیسیٰ نے مسلمانوں پر گزشتہ تین دہائیوں سے جاری مغربی مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات کی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ راقم نے اس موضوع پر روزنامہ دنیا کے انہی صفحات پر کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی۔ ان کالموں میں ایک سوال یہ اٹھا تھا کہ ہم برطانیہ کے طویل ترین ظلم کو آج تک کوئی نام تک نہیں دے سکے ہیں۔ جس طرح یہودی دوسری عالمی جنگ میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو ہولوکاسٹ کا محض نام ہی نہیں دیتے بلکہ ہر سال مرنے والوں کی یاد میں ایک دن بھی مناتے ہیں‘ ہم ایسا کچھ نہیں کر سکے۔ آپ کو علم ہوگا کہ مغربی ممالک اور عالمی فورمز پر ہولوکاسٹ کا انکار کرنا ایک جرم تصور ہوتا ہے۔ ہولوکاسٹ صرف یہودیوں پر ظلم سے موسوم ہے جبکہ کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ جرمنی کی معیشت پر یہودیوں کے کنٹرول سے جرمنی کی بقا کو کتنا خطرہ لاحق تھا اور ہٹلر نے یہ قتلِ عام کیوں کیا۔ بات واپس ڈاکٹر العیسیٰ کی جانب‘ جنہوں نے اپنے مؤقف کو نہایت بہادری سے واضح کیا کہ دنیا نے ہمارے (مسلمانوں کے) خون کو سستا سمجھا ہوا ہے۔ انسانیت اور برابری کی باتیں محض افسانوی اور قصہ کہانیاں ہیں۔ دنیا کے ہر خطے حتیٰ کہ یورپ اور کینیڈا میں بھی مسلمانوں کا خون آپ لوگوں کے خون سے سستا ہے۔ دنیا میں اسلام فوبیا ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے مگر مغربی میڈیا مسلمانوں کو محض جارح اور متشددکے طور پر ہی دکھاتا ہے۔ اپنی تقریر میں سب سے اہم اور پُر مغز جملہ جو ڈاکٹرالعیسیٰ نے کہا‘ کچھ اس طرح ہے کہ ''عالمی میڈیا میں مسلمانوں کی مثبت نمائندگی کی کمی کی قیمت ہم اپنے خون سے ادا کررہے ہیں‘‘۔ یہ ایک فقرہ یقینا ان تاریخی فقروں میں شمار ہو گا جنہیں ''یک سطری‘‘ یعنی ون لائنر کہا جاتا ہے‘ جو پوری کتاب اور پورے خطاب پر بھاری ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر العیسیٰ کی بات کی گہرائی جاننی ہو تو صرف ایک ترک ڈرامہ سیریز ''ارطغرل غازی‘‘ کو دیکھ لیں۔ پھر آپ مشرقی پنجاب کے سکھوں کی جانب سے اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو انتہائی مؤثر طریقے سے فلموں کے ذریعے اجاگر کرنے کی مثال لے لیں۔ واضح رہے کہ یہ فلمیں مکمل طور پر فیملی فلمیں ہوتی ہیں اور گھر کے تمام لوگ ان کو اکٹھا بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ سکھ برادری کے لوگوں کے نیوز چینل اپنی کل آبادی (دو کروڑ) اور مسلمانوں کی آبادی (دو ارب) کے تناسب سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر العیسیٰ کی بات سے یاد آیا‘ مسلمان سائنسدانوں کی چھ صدیوں سے زیادہ کی خدمات کا ذکر کہیں ہے ہی نہیں۔ دنیا کے ان عظیم محسنوں کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنا ضروری ہی نہیں اب ناگزیر ہو چکا ہے۔