تصویر کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر سے وہ کچھ بیان کر دیا جاتا ہے، جو ایک ہزار الفاظ کے مضمون میں بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اب اگر تصویر کے ساتھ کارٹون، نقشے اور گراف بھی شامل کر لیں تو شاید یہ اہمیت دس ہزار الفاظ تک پہنچ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مطبوعہ صحافت میں ان چیزوں کی خاص اہمیت رہی ہے۔ آج یہ بات اس لیے یاد آ رہی ہے کہ جرمنی کے ایک اخبار نمامیگزین ''Der Spiegel‘‘ نے بھارت کے آبادی کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر آنے کے حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ کارٹون چھاپاہے مگر بھارت والوں نے اس کو اپنے اوپر شدید تنقید قرار دیتے ہوئے اسے نسل پرستانہ رویہ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا کے نقشے پر ایک ایسی تبدیلی آرہی ہے بلکہ آچکی ہے جس کی وجہ سے بھارت کو شدید ہزیمت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے، لیکن یہ نقشہ بھارتی میڈیا چھاپنے کے بجائے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے، مطلب اس کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا۔ یہ دونوں باتیں بھارت کی ساکھ اور اس کی حیثیت کو ایک آئینہ دکھا رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جرمنی کے اخبار Der Spiegel کا مطلب بھی آئینہ ہے۔ مگر بھارت کا میڈیا اس کو ایک دھندلا اور ٹوٹا ہوا آئینہ قرار دے رہا ہے۔
جرمن اخبار کا شائع کردہ کارٹون اگر اب تک آپ کی نظروں سے نہیں گزرا اور آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تو انٹر نیٹ پر تلاش کریں‘ یہ بہ آسانی مل جائے گا۔ اس کارٹون میں دو ٹرینیں دکھائی گئی ہیں جو ساتھ ساتھ دو مختلف پٹڑیوں پر چل رہی ہیں۔ اس میں سے ایک ٹرین‘ جس پر بھارت کا جھنڈا بنا ہے‘ دوسری ٹرین سے کچھ آگے نکل گئی ہے۔ دوسرے ٹریک پر موجود ٹرین پر چین کا جھنڈا بنا ہے۔ یعنی بھارت کی ٹرین چین سے آگے نکل گئی ہے۔ یہ کارٹون آبادی کے اعتبار سے بھارت کے چین سے آگے نکل جانے کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر جس چیز پر تنقید ہو رہی ہے وہ یہ کہ چین کی ٹرین ایک جدید بلٹ ٹرین ہے‘جس میں سوار دو ڈرائیور ہی نظر آ رہے ہیں جن کا لباس انتہائی عمدہ ہے اور وہ ایک جدید اور خوش حال ملک کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن بھارت والی عام سی ٹرین پر اتنے زیادہ لوگ سوار ہیں کہ وہ کھڑکیوں اور دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ بے شمار لوگ ٹرین کے ڈبوں کی چھتوں پر بھی سوار ہیں۔ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک فرد فخر سے ٹرین کی چھت پر کھڑا بھارت کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس ٹرین پر سوار لوگوں کے لباس کی حالت یہ بتا رہی ہے کہ یہ انتہائی پسماندہ اور غریب لوگ ہیں جبکہ ساتھ والی پٹری پر چین کی جو ٹرین جا رہی ہے اس میں سے ڈرائیور بھارت کی ٹرین اور اس پر ضرورت سے کہیں زیادہ سوار لوگوں کو دیکھ کر حیرت زدہ نظر آ رہے ہیں۔ جرمن اخبار نے اس کارٹون پر ''Bevölkerung: Indien überholt China‘‘ کی سرخی لگائی ہے جس کاترجمہ ہے: آبادی میں بھارت چین سے آگے نکل گیا۔
میں اپنے کالموں میں آبادی کے اعتبار سے بھارت کے دنیا کا نمبر ون ملک ہونے کا ذکر گزشتہ دو سالوں سے کر رہا ہوں۔ اب باضابطہ طور پر بھی یہ سنگِ میل عبور ہو چکا ہے، لیکن کارٹون میں جیسے بیان کیا گیا‘ یہ بات بھارت کے لیے ہرگز قابلِ فخر نہیں ہے، اسی لیے اس کا بھارت سرکار نے کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا۔ رہی بات بھارت کی کل آبادی کی تو یہ ایک ارب پینتالیس کروڑ ہو چکی ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے۔ یاد رہے 1830ء وہ سال مانا جاتا ہے جب پوری دنیا کی آبادی لگ بھگ ایک ارب تھی جو سو سال بعد یعنی 1930ء میں دو ارب ہو گئی تھی۔ اب صرف بھارت کی آبادی میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اب اس اعتبار سے اگلے تیس سالوں میں بھارت کی کل آبادی دو ارب ہو جائے گی۔ مزید اہم بلکہ خطرناک بات یہ ہے کہ چونکہ چین کے مقابل عالمی میڈیا بالخصوص مغربی ممالک کی حمایتیں بھارت کے ساتھ ہوتی ہیں لہٰذا دنیا کی مشہور ترین ویب سائٹس ابھی تک بھارت کے مقابل چین کی آبادی ہی کو نمبرون بتا رہی ہیں۔ اب اس سے صرف ایک ہی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کی پوری کوشش ہے کہ بھارت کی اس بوجھ بنتی آبادی کو نمایاں نہ کیا جائے۔ آبادی کو ایک دور میں‘ جب مشینوں کے بجائے انسانوں کی ضرورت ہوتی تھی‘ وسائل کے طور دیکھا جاتا تھا۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پانی، ہوا اور دیگر ایسے قدرتی عوامل (جنگلات اور صاف زمین) کو دیکھ لیں جو انسانی ترقی کے علاوہ انسان کی بقا کے لیے محض ضروری ہی نہیں بلکہ بنیادی لازمے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان وسائل میں جس تیزی سے کمی آ رہی ہے‘ اس کے پیش نظر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اب بتدریج پھٹنے والا بم مانا جاتا ہے۔
بھارت کا سکڑتا اور بدلتا نقشہ
اب بھارت اور چین کے سرحدی علاقے کی طرف چلتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا ملک ہے‘ جسے بھوٹان کہتے ہیں اور جو بھارت اور چین کے درمیان میں واقع ہے۔ بھارت، چین اور بھوٹان کی سرحد جس جگہ ملتی ہے اس کوٹرائی جنکشن کہا جاتا ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ نیپال کے بعد بھوٹان کا جھکائو بھی چین کی طرف ہونا شروع ہو گیا ہے۔ تینوں ملکوں کی سرحد جہاں ملتی ہے‘ وہاں پر ایک سرحدی تنازع موجود ہے، لیکن اب اس متنازع جگہ پر بھوٹان نے چین کے مؤقف کی حمایت کردی ہے۔ اس صورتِ حال میں بھارت کا مؤقف سفارتی طور پر نہایت کمزور ہو گیا ہے۔ اس سے قبل بھی بھارت کو یہاں پر مسلح بغاوت کا سامنا ہے۔یہاں پر ایک طرف بھوٹان ہے‘ درمیان میں تھوڑا سا علاقہ چھوڑ کر بھارت کی ریاست سکم آتی ہے۔ لیکن اس علاقے میں تعمیرات کی شکل میں بڑھتے چین کے اثر و رسوخ کے سبب اب چین کو بھارت پر نمایاں برتری حاصل ہو چکی ہے۔ چین نے بھارت کی سرحد کے اِس پار ایک پہاڑی نما علاقے پر اپنا کنٹرول بڑھا لیا ہے۔ چونکہ یہ جگہ بلندی پر ہے لہٰذا چین کے اس کنٹرول کے بعد بھارت کی ہر قسم کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے علاوہ کسی جنگی صورت حال میں بھی چین کو بھارت پر اب واضح برتری حاصل ہو چکی ہے۔ بھوٹان نے چین کی عالمی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور بھارت کے سخت گیر رویے سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں پر کئی سو کلو میٹر علاقے پر چین کے حق کو مان لیا ہے۔ اسی لیے چین نے یہاں دیہات نما آبادیاں قائم کرنے کے بعد ایک سڑک بھی تعمیر کر لی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے نیپال بھی اپنا جھکائو چین کی طرف کرتے ہوئے بھارت کے تقریباً چار سو کلومیٹر علاقے پر اپنا دعویٰ کر چکا ہے۔ اب بھوٹان کے تناظر میں ایک اور سبکی جو بھارت کو اٹھانا پڑی ہے‘ وہ بھارتی آرمی کی بھوٹان سے مستقل واپسی ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی فوج 1960ء کی دہائی سے سکیورٹی کے نام پر بھوٹان میں موجود ہے۔ بھارت چین کے ساتھ اپنی ساڑھے تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ لمبی سرحد پر بھوٹان اور نیپال کی بدلی ہوئی پالیسیوں کی وجہ سے تنہائی اور مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ بھوٹان محض آٹھ لاکھ آبادی اور 38ہزار مربع کلومیٹر رقبے والا ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر اب یہ بھارتی فوج کو نکل جانے کا کہہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مالدیپ میں بھی گزشتہ سال بھارت مخالف کئی مظاہرے ہو چکے ہیں کہ وہاں موجود بھارتی آرمی مالدیپ سے نکل جائے۔ اس تحریک کا نام'' بھارت آئوٹ‘‘ رکھا گیا تھا۔
اب ان دونوں حقائق کی بنیاد پر صاف نظر آرہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد چین بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرانے سے پہلے، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات 'ٹھیک‘ کرنے کے لیے سرگرداں ہے۔ اگرچہ بھارت چین مخالف کئی عالمی محاذوں کا حصہ ہے، لیکن پھر بھی چین نے بھارت کو شنگھائی تنظیم کے ممبر کے طور پر برقرار رکھا ہوا ہے؛ تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ بھارت کے نقشے کو جرمن اخبار کے کارٹون کی طرح درست کر کے اس کی جارحانہ طبیعت کی مرمت بھی کر رہا ہے۔