تبدیلی، ترقی اور جنگیں…(2)

آج کل امریکہ اور چین کے درمیان ایک سرد جنگ‘جو بنیادی طور پر معاشی ہے‘ نہ صرف شروع ہو چکی ہے بلکہ اپنے عروج پر ہے اور پانچویں نسل کی جنگ کی طرز پر لڑی جارہی ہے۔ اس سرد جنگ کے کئی محاذوں پر چین کو برتری حاصل ہے۔ ان محاذوں میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔روس اور چین کے ایک ہونے اور بہت سارے ممالک کا چین کی طرف جھکائو‘ اس جنگ کو واضح طور پر مشرق اور مغرب کی جنگ بنا چکا ہے۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے دوران پہلا میدان یورپ تھا‘ دوسرا ایشیا اور اس کے بعد باقی دنیا کی باری آتی تھی لیکن اس بار یورپ سے زیادہ یہ جنگ ایشیا میں‘جبکہ کسی حد تک جنوبی امریکہ اور افریقہ کے میدانوں میں بھی لڑی جا رہی ہے۔اس سرد جنگ کے ساتھ ہی عالمی سطح پر ایک گرم جنگ بھی جاری ہے جو کہ یوکرین پر روس کے حملے سے شروع ہوئی اور تا حال جاری ہے۔اس جنگ کا واضح فیصلہ ہو سکتا تھا‘مطلب روس اس کو اپنے حق میں کر سکتا تھا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ روس کو یوکرین پر ہر طرح کی عسکری برتری ہے لیکن اس کے برعکس اس جنگ سے روس کا مقصد امریکہ کو یوکرین میں نیٹو کی شکل میں پیش قدمی سے روکنا اور اس کی عالمی حاکمیت کو چیلنج کرنا نظر آتا ہے اور یہ مقصد بہت حد تک پورا ہو چکا ہے۔
ایشیا کے گرم و سرد محاذ
ایشیا ایک ایسا براعظم ہے جس میں آپ ایک ملک سے دوسرے میں داخل ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ بالکل نئی دنیا میں آگئے ہیں۔ اس براعظم میں بادشاہت‘آمریت‘جمہوریت‘ہائبرڈ حکومتوں اورخاندانی جمہوری آمریتوں کے نظام ایک ہی وقت میں چل رہے ہیں۔اس کے برعکس مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے علاوہ کسی دوسری چیز کا تصور بھی نہیں ہے۔اسی طرح مکمل شخصی آزادی‘آزادانہ میل جول و دیگر سماجی آزادیاں بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ہاں زبان کا فرق ہر ملک میں ضرورپایا جاتا ہے۔ایک طرف ایشیا کے بعض ممالک میں اشتراکی حکومتیں موجود ہیں تو دوسری طرف ایشیا ہی میں شامل شمالی کوریا میں ایک ہی خاندان سخت گیر قسم کی حکومت کے ساتھ بر سر اقتدار ہے۔یہ ملک ایٹمی طاقت کی حیثیت سے بھی خود کو منواچکا ہے۔پھر اس ملک کی اپنے جڑواں ملک جنوبی کوریا کے ساتھ ایک سخت گیر قسم کی عداوت بھی چلی آرہی ہے۔ جنوبی کوریا کی حفاظت کا ذمہ بھی امریکہ ہی نے اٹھا رکھا ہے اور اس مقصد کے لیے وہاں امریکہ کا ایک فوجی یونٹ قائم ہے۔ شمالی کوریا کی سرحد جنوبی کوریا کے علاوہ صرف چین سے ملتی ہے۔یہ بات چین کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ چین اپنے بڑھتے اثر و رسوخ کو شمالی کوریا کی طرف کس طرح بڑھاتا ہے۔اگر چین اس ملک کو اپنے اتحادی ملکوں کی صف میں شامل کر لیتا ہے تو یہ اس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی اور اس کی طاقت میں اضافے کا اس لیے باعث ہو گی کہ شمالی کوریا مکمل طور پر امریکہ مخالف رحجان رکھتا ہے۔چین جس بات پر شمالی کوریا کو ساتھ ملانے کی کوشش کر سکتا ہے‘ وہ شمالی کوریا کی معاشی کمزوری اور ابتر صورتحال ہے۔اس کے بعد جو چیز دونوں میں قدرِمشترک ہے‘ وہ ان دونوں ملکوں کا اشتراکی ہونا اور ایک ہی نسل سے تعلق رکھنا ہے۔اسی تناظر میں ایک اور اہم پہلو شمالی کوریا کا روس کی طرف جھکائو ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد ہونے والی کوریا جنگ میں شمالی کوریا کے بچائو میں کلیدی کردار روس کا تھا اور اس کے بعد چین وہ ملک تھا جس نے اپنی فوج بھیج کر شمالی کوریا کو شکست سے بچایا تھا ۔
اسی علاقے میں ایک اہم معاشی طاقت جاپان کی شکل میں موجود ہے۔جاپان ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر گردانا جاتا ہے۔اپنے معاشی حجم کے اعتبار سے یہ دنیا کی پہلی پانچ معاشی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے لیکن جاپان کا سیاسی و عسکری جھکائو امریکہ کی طرف ہوناچین و روس کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔جاپان کا کچھ جزائر کی تقسیم پر چین اور روس سے اختلاف بھی موجود ہے۔یہ جزائر بہت چھوٹے اور غیر اہم ہیں لیکن ان کی تقسیم پر اختلاف کی ایک علامتی اہمیت ضرور ہے۔دنیا میں جاری سرد جنگ میں ایک اہم محاذ عالمی تجارتی کرنسی کی تبدیلی بھی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اگست کے تک ایک نئی عالمی کرنسی کا اجرا ہونے جا رہا ہے۔یہ امکان بھی کافی واضح ہے کہ کافی ممالک آپس میں تجارت ڈالر کے بجائے باہمی کرنسیوں میں کرنا شروع کر دیں گے۔اِن حالات میں جاپان جیسا اہم ترین ایشیائی ملک کیا فیصلہ کرتا ہے‘امریکہ کی عالمی حاکمیت پر اس کا اثرضرور پڑے گا۔اس ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھرپور اور دوستانہ کرنا بھی چین کے لیے ایک محاذ سر کرنے سے کم نہیں۔یہاں ایک جغرافیائی حقیقت‘ جو کافی اہمیت کی حامل ہے‘ وہ چین اور روس کی جاپان کے قریب ترین ہمسایوں کی صورت میں موجودگی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی عالمی برتری کم ہونے پر جاپان بھی اپنے تعلقات کو ضرورتبدیل کرے گا اور یہ تبدیلی چین کی عالمی حیثیت کے لیے ایک بہت اہم عنصر کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
اب تک کی چینی کارکردگی
چین نے اگرچہ ایک بہت بڑی کامیابی مشرقِ وسطیٰ میں دو بڑے ملکوں کی سفارتی صلح سے حاصل کر لی ہے جس کا براہِ راست بارہ سے پندرہ ممالک پر اثر پڑے گا۔ یہ اثر ابھی سے پڑتا نظر بھی آ رہا ہے اوربلا شبہ قابلِ ستائش ہے۔واضح رہے کہ اس سفارتی کامیابی کا براہِ راست فائدہ مسلم ممالک ہی کو ہوا ہے۔اس کے بعد چین کی ایک کامیابی افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اس ملک کو انتشار اور جنگی صورتحال سے بچانا ہے۔سفارتی و سیاسی محرکات واضح طور پر یہ اشارے دے رہی ہیں کہ افغانستان کے اب چین کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہیں اور افغانستان بھی بدستور چین کے معاشی پراجیکٹس کاحصہ بنے گا ۔ایران سعودیہ سفارتی تعلقات کی بحالی کا اثر افغانستان پر بھی پڑے گا۔افغانستان سے امریکی انخلا کے بعدپاک افغان سرحد بھی پُرامن ہے۔اس کی اصل اور بڑی وجہ امریکی انخلاکے ساتھ ہی افغانستان سے بھارتی انخلا بھی ہے جو افغان سرزمین کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کیلئے استعمال کر رہا تھا ۔اس سارے منظر نامے میں ایک بات بہت اہم ہے وہ مشرقی سرحد کے علاوہ پاکستان کی دیگر سرحدوں پر مکمل سکون ہو نا ہے۔یاد رہے کہ بھارت نے ایران میں چاہ بہار بندر گاہ کا منصوبہ صرف پاکستان کے اندر اپنی مداخلت بڑھانے کے لیے شروع کیا تھا۔اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بیرونی مداخلتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ اس وقت پاکستان اُس دوراہے پر کھڑا ہے کہ اسے امریکی یا چینی بلاک میں سے کسی ایک کا حصہ بننا ہوگا۔مغربی لابیاں پاکستان میں جاری چینی سرمایہ کاری اور گیم چینجر معاشی منصوبوں کو سبوتاژ کر نا چاہتی ہیں اور بھارت ان مغربی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس کا اظہار پاکستان کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ کے لب و لہجہ سے بھی ہواہے۔ اس کے علاوہ اب امریکہ کی پاکستان کو ایک جنگی الجھائو کا شکاررکھنے والی پالیسی کے برعکس یہ کوشش ہے کہ پاکستان کرپشن سے آزادی پا کر معاشی دستور پر چلے۔دو یا زیادہ طاقتوں کی جانب سے اس طرح کی پالیسیوں کے ٹکرائو کو Countercoup کہا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال مشرقِ وسطیٰ میں چین کا Diplomatic coup بھی ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں