پاکستان اس وقت دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے ایک جنگی کیفیت کا شکار ہے‘ سیاسی حالات اس کے بعد آتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو معاشی ابتری بھی سیاسی کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ صاحب نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف چاہے تو ڈالر چالیس سے پچاس روپے سستا ہو سکتا ہے۔ یہ ڈالر اور محض ڈالر ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا بازو مروڑ رکھا ہے۔ اس طرح کے حربے اکثر کسی ملک کو گھیرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح سے کسی ملک کو گھیرنا غیر روایتی ذارئع سے جنگ کہلاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ باضابطہ جنگ مسلط کرنے کے بجائے معاشی دلدل پیدا کر دی جائے۔ اب اس قسم کے بیانات بعض امریکی صحافیوں اور دانشوروں کے انٹرویوز میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ وہ پاکستان سے مطالبہ یا توقع کرتے ہیں کہ وہ چین (سی پیک)سے پیچھے ہٹے،روس کی یوکرین کے معاملے پر مخالفت کرے، اس کے علاوہ ایک تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ یہ تو وہ حالات ہیں جو پاکستان کو درپیش ہیں لیکن آج آپ کو ایک اور طرف لیے چلتے ہیں جہاں ایک بڑے ملک‘ مغرب کی آنکھوں کے تارے اور آبادی کے لحاظ سے نمبر ون‘ یعنی بھارت کو ایک عجیب مطالبے کا سامنا ہے۔ یہ مطالبہ بھارت سے کئی گنا چھوٹے ملک نیپال کی جانب سے کیا گیا ہے جس نے بھارت کو عارضی طور ہی سہی لیکن ہلا کر رکھ دیا ہے۔
چین نے نیپال کو بھارت کے سامنے کھڑا کر دیا
پہلے جنوبی ایشیا کی سیاست کے حوالے سے یہ کہا جاتا تھا کہ چین کی پاکستان کے ساتھ گہری دوستی اور بڑھتے تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ بھارت کے ذریعے چین کو تنگ کرے تو چین پاکستان کے ذریعے اس کو کائونٹر کر سکتا ہے۔ لیکن اب تو یہ معاملہ بہت عجیب ہو گیا ہے۔ صرف تین کروڑ آبادی اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر والے ملک نیپال کو بھارت کے سامنے ہی نہیں‘مخالف لا کھڑا کیا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دو سال پہلے نیپال نے بھارت کے کچھ علاقوں پر اپنا حق جتاتے ہوئے تقریباً تین سو مربع کلو میٹر علاقے کو اپنے نقشے میں شامل کر کے نیا نقشہ اپنی پارلیمنٹ سے منظور بھی کرا لیا تھا۔ اب نیپال نے بھارت سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر اس کے ساتھ سرحدی تنازع حل کرنا چاہتا ہے تو اس علاقے سے ایک شرط پر دستبردار ہو سکتا ہے‘ وہ یہ کہ بھارت ''چکن نیک‘‘ والا بیس کلومیٹر کاریڈور (سلی گلی) نیپال کو دیدے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس طرح اس کا زمینی رابطہ براہِ راست بنگلہ دیش کے ساتھ ہو جائے گا اور وہ بنگلہ دیش کے راستے سمندرتک رسائی حاصل کر لے گا۔ واضح رہے کہ نیپال ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے اور اسے تجارت کے لیے بھارت پر انحصار کرنا پڑتاہے۔ اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک دفعہ جنوبی ایشیا کا نقشہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ اب آتے ہیں اس بنیادی نکتے کی طرف کہ نیپال نے یہ جو مطالبہ کیا ہے‘ اس کا مقصد کیا ہے۔ یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ وہی بیس کلومیٹر کی پٹی یا کوریڈور ہے جس کے ذریعے بھات کا زمینی رابطہ اپنی شمال مشرقی سات ریاستوں سے ہو پاتا ہے۔ جی ہاں! یہ وہی سات ریاستیں ہیں جنہیں سات ناراض بہنیں بھی کہا جاتا ہے‘ جو نہ صرف بھارت کی ریاست سے ناخوش اور علیحدگی چاہتی ہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں فسادات کے حوالے سے ریاست منی پو ر سب سے اوپر ہے جبکہ ایک ریاست‘ ناگالینڈ‘ ایسی ہے جو اپنا یومِ آزادی بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ 14 اگست کو مناتی ہے اور اپنے ملک کا الگ جھنڈا بھی لہرا دیتی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں نیٹ فلیکس پر ایک بھارتی فلم ''انیک‘‘ ریلیز ہوئی ہے۔ اس فلم میں ان ریاستوں میں جاری کشیدگی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ نیپال کے مطالبے کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے جو مطالبہ کیا ہے‘ وہ عملاً ناممکن ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو شمال مشرقی ریاستیں مکمل طور پر بھارت سے کٹ جائیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ نیپال کے مطالبے کے مطابق وہ جو زمینی راستہ بنگلہ دیش کی طرف بنائے گا اس پر مکمل حق اور کنٹرول بھی نیپال ہی کا ہو گا۔ اس طرح بھارت واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے گا۔
یقینا یہ بات حیرت انگیز ہے کہ نیپال جیسا چھوٹا ملک ایسا مطالبہ مطلب اتنا بڑا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے‘ تو صاف بات ہے کہ اس کے پیچھے چین کھڑا ہے۔ نیپال کے حوالے سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ یہ چین اور بھارت میں گھرا ہوا ایک پٹی نما ملک ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہوا کرتا تھا جس کا سرکاری مذہب ''ہندو مت‘‘ تھااور جنوبی ایشیا کا اکلوتا ملک تھا جس میں بادشاہت تھی لیکن اب یہ بھی جمہوری اور سیکولر ملک بن چکا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اس ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے دو سیاسی جماعتیں کمیونسٹ نظریات کی حامل ہیں۔ اس وقت حکومت انہی دو جماعتوں کے اتحاد پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ انہی دو اشتراکی طرز کی جماعتوں کا ہے۔ اب بھارت کیلئے پاکستان اور چین کے علاوہ ایک بڑا محاذ پڑوسی ملک نیپال کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ یہ ملک کبھی بھارت کی ایک کالونی کی حیثیت رکھتا تھا لیکن بھارت کے علاقائی طاقت کے حصول اور راج شاہی مزاج نے اس کو اتنے مشکل مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ پہلے بھی متعدد بار ذکر ہو چکا ہے کہ تقریباً پانچ سال پہلے بھارت کے اُس وقت کے آرمی چیف بپن راوت نے ایک حقیقت پسندانہ اعترافیہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی آرمی ڈھائی محاذوں پر نہیں لڑ سکتی۔ ان ڈھائی محاذوں میں دو محاذ تو چین اور پاکستان تھے جبکہ آدھا محاذ اندرونِ ملک جاری علیحدگی پسند تحریکیں تھیں لیکن اگر آج کی بات کریں تو بھارت کے محاذ اب ڈھائی کے بجائے ساڑھے تین ہو چکے ہیں۔
سات ریاستوں میں کشیدگی برقرار
بھارت کا قومی سطح کا میڈیا تو تا حال منی پور میں جاری خانہ جنگی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا لیکن اگر آپ سماجی میڈیا پر جائیں تو آپ کو اس علاقے سے متعلق نہ ختم ہونے والی خبروں کی پوری سیریز ملے گی۔ اکثر وڈیوز میں پڑھے لکھے اور بھارت سرکار کے سابق اہم اہلکار‘جن میں آرمی کے سابق جنرل رینکس کے افسر بھی موجود ہیں‘ بڑے بڑے انکشافات کرتے نظر آئیں گے۔ ایک بات جو بہت اہم اور قابلِ ذکر ہے‘ وہ یہ کہ ان سبھی ریاستوں کی شرحِ خواندگی 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ اب یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ لوگ باشعور ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان ریاستوں کے اکثر علاقوں میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ ان ریاستوں کے لوگ قریبی دو ممالک‘ میانمار اور بنگلہ دیش‘ میں آسانی سے آ ‘جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ خطہ پوری دنیا میں منشیات کی سمگلنگ اور اسلحے کے کاروبار کیلئے مشہور ہے۔ اس حوالے سے ایک اصطلاح ''گولڈن ٹرائی اینگل‘‘ استعمال ہوتی ہے اور اس تکون کا ایک سر ا یعنی اینگل انہی ریاستوں پر مبنی ہے جبکہ اس کے علاوہ یہ ٹرائی اینگل لائوس،تھائی لینڈ اور میانمار جیسے ممالک کا احاطہ کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ چین کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لیے اس خطے کی سیاست میں سوشلزم کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ بیشتر سیاسی تنظیمیں حتیٰ کہ مسلح گروپ بھی سوشلزم کے ماننے والے ہیں۔یہاں گزشتہ کالموں میں بیان کردہ ایک نکتے کو دہرانا بہت ضروری ہے‘ وہ یہ کہ چین سرحدی ریاست اروناچل پردیش میں بدستور اپنا کنٹرول نہ صرف بڑھا رہا ہے بلکہ اس ریاست کے پندرہ مختلف مقامات کو اپنی زبان 'مینڈرین‘ میں نئے نام بھی دے چکا ہے۔ یہ بات بہت گہری اور سوچنے والی ہے کہ چین نے خالصتان اور کشمیر کے بجائے اب ان سات ریاستوں پر اپنا فوکس کر لیا ہے،جن پر بھارت کا کنٹرول بہت کمزور ہے۔ نیز اس علاقے کی ہندو آبادی بھی آزادی کی اس جنگ میں باقی ریاست والوں کے ساتھ کھڑی ہے۔