کسی بات پر اگر یقین نہ ہو رہا ہو تو اس کے لیے سیدھا اس کو ''جھوٹ‘‘ کہنا ایک سخت گیر لفظ یا طریقہ مانا جاتا ہے۔ اب اس کے لیے انگلش زبان میں Too Good To Believe کا فقرہ بولا جاتا ہے۔ آج ہم یہاں یہ فقرہ اس تناظر میں استعمال کر رہے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ آج کی دنیا وقت گزرنے کے ساتھ تیزی سے ترقی کر رہی ہے یا پھر دنیا مزید بہتری کی طرف جا رہی ہے تو یہ بات جھوٹ ہے۔ مطلب اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ اب اگر آپ کا دھیان سائنس کی دنیا میں‘ جو نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان کی طرف جا رہا ہے تو یہ سب چیزیں اس وقت کام کی ہوتی ہیں جب زندگی مجموعی طور پر نارمل یا پھر پُر امن ہو۔ امن کی بات کی جائے تو ماہرین آج کی دنیا کو ایک منفی امن کی دنیا کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ امن تو امن ہوتا ہے‘ یہ منفی امن کہاں سے آگیا۔ اس کی وضاحت اگرچہ پہلے بھی کی گئی ہے لیکن دوبارہ کیے دیتے ہیں کہ اگر امن کے دور میں بھی جنگیں ہونے کے امکانات‘ خدشات اور سب سے بڑھ کر وجوہات موجود ہوں تو اس امن کے دور کو منفی امن کہا جاتا ہے۔ منفی امن کے بعد اب ایک اور پہلو کی طرف چلتے ہیں‘ جو انسان کی ترقی اور بہتری کے لیے ہی نہیں بلکہ بقا کے لیے بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس بلا کا نام قدرتی ماحول ہے۔ آج کل اس کو موسمیاتی تبدیلیاں کہا جاتا ہے لیکن دراصل اس کو ''موسمیاتی تباہیاں‘‘ کہنا چاہیے۔ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 99فیصد لوگ کسی نہ کسی درجے کی آلودگی کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔ باقی ایک فیصد لوگ یقینا وہی ہوں گے جو آج بھی جنگلوں یا پہاڑی علاقوں میں بستے ہوں گے۔
تنہا اور منفی دنیا
پرانے دور میں حکیم لوگ ایک نسخۂ کیمیا کچھ اس طرح بیان کیا کرتے تھے کہ اگر آپ کا پیٹ یعنی ہاضمہ کا نظام درست ہے تو آپ آدھی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک فقرہ ایک دانا حکیم کے نام سے کچھ یوں مشہور ہے کہ امیر آدمی کو کھانا اسی وقت کھانا چاہیے کہ جب اسے شدید بھوک لگی ہو اور جو چیز چاہے وہ کھا لے لیکن غریب آدمی کو جو مل جائے اور جب مل جائے اسے کھا لینا چاہیے۔ اس کے بعد یورپ کے ایک معالج نے ایک ایسی کتاب لکھی جس کے سب ورق خالی تھے اور سب سے آخری ورق پر صرف اتنا لکھا تھا کہ ''اپنا دماغ ٹھنڈا‘ معدہ خالی اور پائوں گرم رکھیں‘‘ تو آپ کبھی بیمار نہیں ہوں گے۔ اب پہلے ان دونوں حکما کی باتوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ ویسے یہ دونوں باتیں ایک ہی طرز کی ہیں۔ ان باتوں کا بنیادی مدعا یہ ہے کہ پیٹ بھر کر کبھی نہیں کھانا چاہیے۔ ایک مذہبی شخصیت نے تو بسیار خوری کو گناہ بھی قرار دیا ہے۔ اب جو حکیم صاحب نے فرمایا کہ اپنا معدہ خالی رکھو‘ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ زیادہ نہیں کھانا چاہیے۔ اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنے کا مطلب زیادہ باتیں نہ سوچنا ہے۔ زیادہ سوچیں انسان میں مایوسی پھیلانے کا موجب بھی بنتی ہیں۔ اب باری آتی ہے پائوں گرم رکھنے کی تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو جسمانی مشقت کرنی چاہیے‘ آپ اس کو ورزش کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
آج کے دور میں ہماری خوراک کا ایک بنیادی عنصر پانی ہے۔ پانی کا ذکر کرتے یہ بات ہر حال میں یاد رکھنی چاہیے کہ جو غذا بھی ہم کھاتے ہیں‘ اس کی کاشت میں مٹی کے بعد دوسرا اہم عنصر پانی ہوتا ہے۔ آپ چاول‘ گندم‘ دال‘ سبزی یا کسی بھی پھل کو کھاتے ہیں تو یاد رکھیں ان کے غذائی معیار کا ایک جزو وہ پانی ہوتا ہے جس سے وہ کاشت کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب پسماندہ ممالک کی تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ وہاں کھارا پانی‘ جوہڑوں کا پانی حتیٰ کہ سیوریج کا پانی بھی فصلوں کو لگایا جاتا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو غذا ہم کھا رہے ہیں‘ دراصل وہ بھی منفی خوراک بن چکی ہے۔ باقی آپ مردہ اور بیمار جانوروں کے گوشت کی خبروں کو یاد کرکے مزید واضح کر سکتے ہیں کہ ہماری خوراک‘ چاہے وہ صرف پیٹ بھرنے کے لیے کھائی جائے یا پھر کھانے کی لذت لینے کیلئے‘ دونوں ہی منفی ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد باری آتی ہے پائوں گرم رکھنے یا مشقت والا کام کرنے کی تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں موٹاپے کا شکار ہونے والوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ وجہ لوگوں کا جنگی طرز پر مصروف ہو جانا اور زندگی میں سہولیات سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تعیشات کی بھرمار کر لینا ہے، ان سہولیات اور تعیشات نے بھی ایک منفی پن لوگوں کی زندگیوں میں بھر دیا ہے۔
اب چلتے ہیں ایک اور منفی امر کی طرف جو کچھ یوں ہے کہ دنیا تیز طرزِ زندگی اور آزادی کے نام پر تنہائی میں قید ہو رہی ہے۔ اب یہ قیدِ تنہائی شہروں کے طرزِ زندگی کا تحفہ ہے۔ لوگ پہلے تعلیم اور پھر روز گار کے حصول کے لیے اپنے خاندانوں سے دور ہو گئے۔ اس کے بعد میاں بیوں اور بچوں والے چھوٹے خاندان کا شیرازہ کچھ اس طرح بکھرا ہے کہ میاں کے ساتھ بیوی بھی جاب کرنے لگ گئی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا آگیا‘ ہر کمرے میں ٹی وی علیحدہ ہو گیا۔ اس معاملے میں یورپ میں تو بچوں کے بالغ ہوتے ہی گھر اور ماں باپ سے آزاد اور علیحدہ ہونے کے اصولوں نے تو سب کچھ بدل کر ہی نہیں بلکہ تباہ کر کے رکھ دیا۔ خاندان کی اکائی کے خاتمے نے ذہنی ہیجان کے رحجان کو عروج پر پہنچا دیا۔ اسی طرح جنسی بے راہروی اور منشیات کے استعمال نے رشتوں کی جگہ لے لی۔ اس طرزِ زندگی نے خود کشی کی شرح بھی بڑھا دی ہے۔ ان سب باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ آج کا انسان اب صرف پیٹ کی بھوک ہی نہیں بلکہ دماغ کی بھوک کا بھی شکار ہو چکا ہے۔ دماغ کی بھوک سے مراد وہ حقیقی خوشی‘ مسرت اور سکون ہے جس سے انسان محروم ہوتا جا رہا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لیے ماہرین کے مطابق اشیا یا سہولیات نہیں بلکہ پُر خلوص رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن لوگ مصروف اتنے ہو چکے ہیں کہ بغیر غرض کے کسی سے ملنے کا وقت ہی نہیں بچا۔
کثرت‘ قلت اور ذلت
ایک پرانا مقولہ ہے کہ کثرت اور قلت دونوں ذلت کو جنم دیتے ہیں۔ قلت والا ہر قیمت پر چھینا جھپٹی اور جرم کی طرف راغب ہوتا ہے جبکہ کثرت والا عیاشی کی ترغیب پکڑتا ہے۔ یہ کثرت صرف اشیا کی نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں چلنے والے خیالات کی بھی ہو سکتی ہے جس کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ کا حصول ہے۔ اسی طرح قلت کی ایک شکل تنہائی ہے۔ اسے دور کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کے پاس جانا ضروری ہے جس سے کوئی فائدہ درکار نہ ہو یا پھر بوڑھے ماں باپ کے ساتھ رہنا ضروری ہے مگر یہ رحجان تو اب ترقی پذیر ممالک میں بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بات ہوئی تھی خوراک کی تو آپ کو ششدر کر دینے والے اعداد و شمار بتائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دنیا میں اتنے لوگ بھوک کی وجہ سے نہیں مرتے جتنے زیادہ کھانے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اب یہاں بچت کا رستہ مڈل کلاس کا طرزِ زندگی ہے لیکن اب یہ طبقہ بھی ہر صورت اپر کلاس میں جانا چاہتا ہے اور نچلا طبقہ تو براہِ راست اپر کلاس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو اس تحریر میں کچھ باتیں عجیب اور بے ربط لگی ہوں گی‘ یہ باضابطہ طور پر لکھی گئی ہیں۔ مگر یاد رکھیں آج کی دنیا کی زندگی اس سے بھی زیادہ بے ربط ہو چکی ہے‘ یقین کرنے کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔