انسانی جسم ہی میدانِ جنگ ہیں

''ہمارے جسم تمہارے میدانِ جنگ نہیں‘‘۔ یہ الفاظ ایک نعرے کی شکل میں اُن خواتین کے ہیں جو بھارتی ریاست منی پور میں زیادتی کے بعد قتل کر دی جانے والی خواتین کے انصاف کے لیے احتجاج کر رہی تھیں۔ نئی دہلی میں '' جنتر منتر‘‘ نامی جگہ پر خواتین آج کل ہر روز مظاہرے کر رہی ہیں اور یہ نعرہ انہوں نے ہی لگایا ہے۔ یاد رہے کہ منی پور میں تین مئی سے سول وار جیسی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ڈھائی ماہ بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بالآخراس علاقے کا دورہ کر ہی لیا مگر ایک بھارتی صحافی نے کمال کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''اس دوران جو بیان مودی صاحب نے دیا‘ اس سے تو ان کی خاموشی بہتر تھی‘‘۔ بات اس نعرے کی جو منی پور کی عورتوں نے لٹتی عزتوں اور جان لیوا حملوں کے بعد لگایا۔ یاد رہے کہ اس ریاست میں عورتوں کو برہنہ کرکے گھمایا گیا جس کی وڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔ پرانے وقتوں کی جنگیں ہوں یا قبیلوں کی لڑائیاں‘ ان میں ایک غیر تحریر شدہ سمجھوتا تھا کہ عورتوں اور بچوں پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات فلموں میں دو مخالف گروہوں حتیٰ کہ انڈر ورلڈ مافیا اور پولیس کی لڑائی میں بھی ایک روایت کی طرح دیکھنے کو ملتی ہے۔ پتا نہیں کہ نفرت اور آگ کا یہ کھیل اس ریاست میں اس قدر گمبھیر اور سنگین کیوں ہو گیا ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ تک نہیں پتا کہ یہ سب کچھ کب اور کیسے ختم ہوگا۔ وزیراعظم مودی کے دورے اور احکامات کے بعد بھی فسادات اور جانوں کا ضیاع جاری ہے۔
جنگوں کے میدان
اب جو فلسفہ نما حقیقت زیرِ بحث آ رہی ہے وہ جنگوں کے میدان کی ہے۔ ماضی میں جو جنگیں ہوتی تھیں‘ ان میں لشکر رہائشی علاقوں سے دور ایک میدان میں اکٹھے ہوتے تھے۔ جنگ شروع ہو کر شام تک جاری رہتی، اگر تو ہار جیت کا فیصلہ ہو جاتا تو ٹھیک‘ نہیں تو اگلے دن دوبارہ جنگ شروع ہو جاتی جب تک ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ کسی محل یا قلعے کا محاصرہ کیا جاتا تھا۔ یہ بھی چند دن یا ہفتوں تک جاری رہتا۔ اس کے بعد یا تو روایتی طرز پر جنگ ہوتی یا قلعے کو فتح کر لیا جاتا تھا یا حملہ آور فوج پسپا ہو جاتی۔ جنگوں کی یہ اقسام تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ جاری رہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تک بارود ایجاد نہیں ہوا تھا‘ ہزاروں سال تک اسی طرز کی جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ آپ جنوبی ایشیا ہی کی مثال لے لیں‘ زیادہ تر جنگیں شہروں سے باہر لڑی جاتی تھیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کی شکست کے بعد جب نیا بادشاہ بر سرِ اقتدار آتا تو کئی ہفتے لگ جاتے تھے‘ تب جا کر متعلقہ ملک کے دیہی علاقوں میں یہ خبر پہنچتی تھی۔ تلواروں، نیزوں، بھالوں اور تیروں سے لڑی جانے والی ان جنگوں کو فرسٹ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں پہلی عالمی جنگ سے پہلے کی جنگوں کو پہلی نسل کی جنگیں تصور کیا جاتا ہے۔ان جنگوں میں عددی قوت پر زیادہ انحصار کیا جاتا تھا، یعنی جس لشکر میں زیادہ تجربہ کار اور مشاق افراد شامل ہوتے‘ عمومی طور پر وہی لشکر فتح یاب ہوتا۔
اس کے بعد بارود ایجاد ہوا، بندوق ہی نہیں‘ چھوٹی مشین گنیں بھی ایجاد ہو گئیں۔ اسی طرح توپ سے بھی گولے داغے جانے لگے۔ جنگوں میں انسانی جانوں کا ضیاع بڑھ گیا۔ اب عددی قوت سے برتری کا معیار ختم ہو گیا۔ اس دوران ملکوں میں شہروں کی تعداد اور آبادی بھی زیادہ ہو چکی تھی۔ صنعتوں کا قیام عمل میں آچکا تھا، اس لیے شہروں پر حملہ کرکے اہم تنصیبات کو نقصان پہچانا اہم عسکری ٹارگٹ ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنگوں کا میدان بنیادی طور پر سرحدی علاقے ہی رہے۔ زمین کے علاوہ سمندری راستوں سے بھی حملہ کیا جاتا تھا مگر اکثریتی نقصان بارڈر کے علاقے میں ہوتا تھا اور ہلاک ہونے والے زیادہ تر فوجی ہی ہوتے تھے یا جو شہر سرحد کے نزدیک ہوتے تھے‘ ان کی سویلین آبادی کا بھی کچھ نقصان ہوتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس طرز کی جنگوں کو دوسری نسل کی جنگیں یعنی سیکنڈ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اہم جنگی ترقی (جو دراصل تباہی تھی) جنگی ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد ہوئی۔ اس ایجاد سے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ فوجیوں کے ساتھ سول آبادی کا بھی جانی نقصان شروع ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ جو جہاز مخالف ملک میں گھس جاتے تھے وہ شہروں میں صنعتی، مواصلاتی اور دیگر اہم مراکز کو نشانہ بناتے تھے۔ اسی چکر میں سول آبادی کا بھی نقصان ہو نا شروع ہو گیا۔ واضح رہے کہ جنگ کے دوران سول آبادی کو نقصان پہنچانا جنگی ضوابط اور عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ اب شہروں کی تعداد اور ان کی آبادی پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ ہوچکی تھی حتیٰ کہ برطانیہ جیسے ممالک کی بیشتر آبادی شہروں میں آباد ہو چکی تھی‘ اس لیے شہروں پر فضائی حملوں کی وجہ سے سول آبادی کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہونا شروع ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں کچھ ممالک میں فوجیوں کے مقابلے میں سول آبادی کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ روس، چین، پولینڈ، جنوبی ایشیا اور انڈونیشیا اس فہرست میں نمایاں ہیں جہاں فوجیوں سے زیادہ سول آبادی کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دوسری عالمی جنگ کو تھرڈ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس جنگ میں کُل ہلاکتوں کا 58 فیصد عام شہریوں یعنی سول آبادی پر مشتمل تھا۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی بات تھی۔ اِس جنگ میں سول آبادی کی زیادہ ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں جنگ سے پھیلنے والی بیماریوں اور قحط بھی شامل ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ میں تقریباً سات سے آٹھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ ساڑھے تین فیصد تھے۔
چوتھی نسل کی سرد جنگ
دوسری عالمی جنگ ختم ہوتے ہی باقی بچ جانے والی دو عالمی طاقتوں‘ روس اور امریکہ میں سرد جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں اصل ٹارگٹ عام لوگ تھے۔ عام لوگوں سے مراد ان کے ذہن اور خیالات‘ جو اس جنگ کا مرکز تھے۔ یہ جنگ اشتراکیت کے نظریے کی مقبولیت اور پھیلائو کو روکنے کیلئے تھی جو تیسری دنیا میں تیزی سے مقبول ہو رہا تھا۔ نظریات کی اس جنگ کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اس جنگ نے مردو عورت کا فرق بالکل ختم کر دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس افکار و نظریات کی جنگ میں خواتین بھی برابر کی فریق تھیں۔ اگر بغور جائزہ لیاجائے تو اس نظریاتی جنگ میں خواتین کا جھکائو واضح طور پر اشتراکیت کی طرف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اشتراکیت نے تمام انسانوں کے لیے برابری کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ نعرہ سب سے پہلے 1917ء میں نہ صرف سوویت یونین میں لگایا گیا بلکہ اس پر عمل بھی ہوا۔دوسری طرف جمہوریت کو عقیدے کی طرح نافذ کرنیوالے مغربی ممالک میں اُس وقت تک عورت کو ابھی ووٹ کا حق بھی پوری طرح نہیں ملا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ سمیت اکثر مغربی ممالک میں عورتوں کو ووٹ کا حق 1920ء میں ملا تھا۔ آج حقوقِ نسواں کی تحریک چلانے والے اس معاملے میں علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشتراکیت کے اس اہم کردار کو جھٹلاتے ہیں کہ پہلی بار اس نے ہی عورت اور مرد کو مکمل برابری کا حق دیا تھا۔
واپس جنگی میدان کی طرف آتے ہیں‘ سرد جنگ میں سرخ اور سبز کی تقسیم نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ایک ہی گھر میں دو مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد نظریات یعنی اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے چاہنے اور مخالفت کرنے والے موجود ہوتے تھے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ یورپ کے کئی ممالک میں میاں اور بیوی میں بھی یہ تقسیم پائی جانے لگی حتیٰ کہ دونوں ایک دوسرے کی جاسوسی بھی کیا کرتے۔ یہ معاملہ مشرقی یورپ کے وارسا پیکٹ والے ممالک اور ان سے ملحقہ نیٹو کے ممبر ممالک میں بھی پایا جاتا تھا۔ اس سرد جنگ کو ایک تیسری عالمی جنگ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نظریات کی گونج‘ ان کی مخالفت یا حمایت کا چرچا پوری دنیا میں ہوتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس نے براہِ راست ایک دوسرے کے سامنے آنے سے گریز کیا مگر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس طرز کی جنگ کو فورتھ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 1990ء میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔ مگر جنگوں کی طرح یہ کہانی بھی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں