جسم ہی میدانِ جنگ ہیں … (3)

بات ہو رہی ہے نسلوں کی جنگ اور جنگوں کی نسل کی‘ یہ دو مختلف مگر آپس میں جڑے ہوئے معاملے ہیں۔ مطلب ان دونوں کی جڑیں ایک ہی جگہ سے نکلتی ہیں اور آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان دو میں فرق یہ ہے کہ جنگوں کی نسل سے مراد جنگیں لڑنے کے طریقے ہیں‘ جس کو Nature & Character کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد جنگ میں استعمال ہونے والا سامانِ حرب اور اس سے ہونے والا نقصان ہے۔ پہلے جنگوں میں چند سو یا ہزار فوجی آپس میں لڑتے تھے لیکن پھر ایک دور ایسا بھی آیا‘ جو ابھی تک جاری ہے کہ جنگوں میں مخالف فوجوں سے زیادہ عام عوام کو نشانہ بنایا جانے لگا۔اس لحاظ سے اب جنگوں کی پانچ نسلیں یا قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ اب دوسری بات‘ جو زیادہ اہم ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ جنگیں برسہا برس تک لڑی جاتی ہیں۔ اب آپ سرد جنگ ہی کی مثال لے لیں جو روس اور امریکہ کے درمیان 45 سال تک لڑی گئی۔ اس عرصے میں ایک نسل پیدا ہو کر‘ جوانی گزار کر بڑھاپے کی طرف گامزن ہو گئی تھی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ سرد جنگ پہلی جنگِ عظیم کے دوران ہی اس وقت شروع ہوگئی تھی جب روس میں اشتراکی انقلاب آنا شروع ہوا تھا۔ اس لحاظ سے یہ سرد جنگ ستر سال سے زیادہ عرصے تک لڑی گئی۔ یہ اس جنگ کا پہلا دور بنتا ہے کیونکہ اب یہ جنگ تقریباً پندرہ سال کے وقفے کے بعد دوبارہ چین اور امریکہ کی سرد جنگ کی شکل میں شروع ہو چکی ہے۔
جنگوں کی نسلیں اور نسلوں کی جنگ
کہا جاتا ہے کہ جنگیں سرد ہوتی ہیں اور نہ ختم ۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ دنیا جس دور کو امن کہتی ہے در اصل وہ اگلی جنگ کی تیاری کا دورانیہ ہوتا ہے۔ یہ بات کم از کم پہلی عالمی جنگ سے لے کر آج تک کے دور پر مکمل طور پر صادق آتی ہے۔ مطلب ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن دنیا میں عالمی جنگ کی طرز کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ بات اب نسلوں کی جنگ کی طرف زیادہ چلی گئی ہے۔ 108سال ہو گئے جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تھی لیکن اس وقت بھی چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے‘ جو اس سے پہلے روس اور امریکہ کے درمیان جاری تھی۔ اب بات اس بنیادی نکتے کی طرف‘ جس پر کالم کی اس سیریز کی بحث مرتکز ہے کہ انسانی جسم ہی میدانِ جنگ ہیں۔ انسانوں کو جنگوں میں شکار کیا جائے یا ان کی روٹی چھین لی جائے یا ان کو نفسیاتی طور پر مفلوج کیا جائے یا ان کو بتدریج تشدد کا نشانہ بنایا جائے‘ ہر صورت میں انسانی جسم ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔ انسانی جسموں کا نشانہ بنانے سے یاد رہے کہ پہلے جنگوں میں عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا لیکن اب یہ امتیاز یکسر ختم کر دیا گیا ہے یا پھر جنگی دوڑ میں یہ ختم ہو گیا ہے۔
ایک اور طریقے سے بھی نسلوں کی جنگ کی بات کی جاتی ہے۔ مطلب اس جدید دور کی سرد ‘ غیراعلانیہ اور غیرمحدود جنگوں میں ایک دشمن کی پوری نسل کو مخصوص منصوبہ بندی کے ذریعے نشانہ بنانا ہے۔ اب اس ایک یا ایک سے زائد نسلوں کی جنگ میں پہلے ایک نسل‘ بچے اور نوجوان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں ٹارگٹ سے مراد جان لینا نہیں بلکہ اس نسل کے نظریات‘ افکار‘ رول ماڈلز‘ نفسیات اور طرزِ زندگی کو نشانہ بنانا ہے۔ اب بات واضح ہو گئی کہ انسانی جسم مکمل طور پر میدانِ جنگ بن جاتا ہے۔ اس کی روٹی چھین کر اسے انتشار کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک تخریب شروع کرکے اسے ایک ہیجان میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذہن میں نئے ہی نہیں بلکہ اپنے کلچر سے متضاد نظریات بھر کر اسے اپنی سے پہلی نسل کے مخالف کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اگر فرد کسی مشرقی معاشرے کا حصہ ہے تو اسے مغربی افکار میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو نشے کی لعنت میں مبتلا کرکے اسے ایک معذور اکائی بنایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قوم میں جو عقائد‘ افکار اور تاریخی رول ماڈل شخصیات ہوتی ہیں‘ ان کے متعلق اس طرح سے منفی خیالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ وہ بندہ اپنی شناخت کے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے‘ اس کو Identity Crisisکا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسے فرقہ واریت کی بھینٹ بھی چڑھا دیا جاتا ہے۔ اب ان تمام ممکنہ حربوں میں نشانہ انسانی جسم ہی بنتا ہے جس میں سب سے خاص حصہ اس کا دماغ اور پھر اس کا پیٹ ہے یعنی اس کی روٹی کے مسائل پیدا کرکے اسے اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ اب یہاں ایک بہت ہی خاص بات‘ جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کے حملوں کے لیے اگر پہلے روٹی چھین لی جائے یا ایسے لوگ جن کو روٹی میسر نہ ہو‘ وہ سب سے پہلے اور آسانی کے ساتھ شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خاص اور انتہائی مہلک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کے افکار و خیالات کو پھیلانے یا روکنے کے لیے جب فنڈنگ شروع کر دی جائے تو پھر یہ جنگ ایک آگ کی شکل میں پھیلتی ہے۔ یہ سب حربے روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں استعمال کیے گئے تھے اور اس کا تاریخ کی کتابوں میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ انسانی جسم کس طرح میدانِ جنگ بن چکے ہیں‘ اس کی سب سے حالیہ اور بڑی مثال کورونا کی وباتھی۔اس وباسے متعلق ایک بات سب سے زیادہ وثوق سے یہ کہی جاتی ہے کہ یہ وائرس قدرتی نہیں بلکہ انسانوں ہی کا تیار کردہ تھا۔
نئی اور مرضی کی نسل
اب اس نسلوں کی جنگ میں بڑا اور واضح مقصد ایک نسل یا نئی نسل کو کچھ اس طرح سے تیار کرنا ہوتا ہے جو اپنے مقامی اور قدیم کلچر کو چھوڑ کر اس کلچر کو اختیار کر لے جو اس منصوبہ ساز عالمی یا مقامی قیادت نے تیار کیا تھا۔ اس کے لیے آپ کو زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا‘ آپ صرف بھارت کی فلم انڈسٹری کو ہی لے لیں جو مغربی کلچر کو پروان چڑھانے کا اس وقت ذریعہ بنی جب سوشل میڈیا کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے جب سونیا گاندھی نے یہ بیان دیا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی جنگ میں شکست دے دی ہے۔ لیکن اس کا جواب کچھ اس طرح سے دیا گیا تھا کہ انہوں نے جس ثقافتی جنگ کا ذکر کیا در اصل پہلے ان کا ملک خود اس کا نشانہ بنا۔ اب اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ مشرق کا کلچر بھارت کا اپنا کلچر بھی تھا۔ اس خطے کے لوگ مشرقی روایات کو صدیوں سے اپنائے ہوئے تھے۔ یہ سب روایات اس خطے کے تمام مذاہب‘ نسلوں اور علاقوں کے لوگوں کی تھیں۔ البتہ سونیا گاندھی ایک بات کے حوالے سے یہ کریڈٹ ضرور لے سکتی ہیں کہ چونکہ ان کا لگائو مغربی کلچر سے تھا تو بھارت کی فلم انڈسٹری نے ان کے علاقے یعنی مغرب کے کلچر کو پروان چڑھا کر ضرور ایک جنگ جیتی ہے۔ اب جسم بطور میدانِ جنگ کی اس قسط میں ہم نے یہ جانا ہے کہ مغرب نے ایک یلغار مشرقی کلچر پر کی اور کامیابی سے کی۔ اس جنگ کا نام ہی تہذیبوں کی جنگ تھا اور اب بھی ہے۔ ہاں اس جنگ میں انسانی جسم کا جو حصہ زیر حملہ آیا‘ وہ اس کی سوچ اور خیالات یعنی اس کا دماغ تھا۔ کسی بھی علاقے یا قوم کے پورے ڈھانچے کو تباہ کرکے اسے اپنی افکار کے مطابق ڈھالنے کے عمل کو Subversion کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں انسانی دماغ جہاں پرانے کلچر کو پوری طرح چھوڑ نہیں پاتا وہیں نئے کلچر کو پوری طرح اپنا نہیں پاتا‘ جس کے نتیجے میں ایک ذہنی کشمکش اور ہیجان کی نہ ختم ہونے والی جنگ کا شکار رہتا ہے۔ جس کو نفسیاتی موت کہا جاتا ہے جو انسانی جسم کی موت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں