دُگنی آبادی اور حساب کتاب

گزشتہ کالم میں بات ہوئی پاکستان کی آبادی میں ہونے والے سالانہ 61 لاکھ اضافے کی‘ اس حوالے سے فیڈ بیک میں کم از کم اس بات سے اتفاق کر لیا گیا کہ یہ بہت زیادہ اضافہ ہے۔ لیکن ابھی اس اضافے کے حوالے سے ایک اہم عمل کی نشان دہی باقی ہے۔ پاکستان کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24کروڑ اور 14لاکھ ہو چکی ہے۔ لیکن وضاحت طلب بات یہ ہے کہ اس میں گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر کی آبادی شامل نہیں ہے۔ ان دونوں علاقوں کی آبادی 65 لاکھ سے زائد ہے، اس طرح پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ سے صرف 21 لاکھ کم ہے۔ اس حساب سے پاکستا ن کی کل آبادی میں سالانہ اضافہ61 نہیں بلکہ 63 لاکھ سے بھی زیادہ بن جاتا ہے۔ اب 63 لاکھ سالانہ اضافے کو لیں تو اس میں 2.55 کی شرح سے مزید اضافہ ایک لاکھ 60 ہزار بنتا ہے۔ اب تھوڑا غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگلے سال پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً 65 لاکھ کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان تیزی سے سالانہ ایک کروڑ اضافے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
حساب کی کتاب کیا کہتی ہے
یہاں ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح تو کم ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود آبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے حساب کی کتاب بہت معنی خیز ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں 1981ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 3.1 فیصد تھی لیکن کل آبادی 8 کروڑ 40 لاکھ تھی جس کی وجہ سے سالانہ اضافہ تقریباً 25 لاکھ تھا۔ اس کے بعد 1998ء میں مردم شماری ہوئی تو کل آبادی 13 کروڑ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس کے بعد 2017ء میں مردم شماری ہوئی تو کل آبادی 21 کروڑ سے زائد ہوچکی تھی۔ آپ باقی باتوں کو چھوڑیں‘ صرف 1998ء کی مردم شماری کو بنیاد بنائیں تو پتا چلتا ہے کہ تیرہ کروڑ کے بجائے ہم تیزی سے 26 کروڑ یعنی دو گنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ہندسہ عبور کرنے میں لگ بھگ ڈیڑھ سال کا وقت درکار ہو گا یعنی 2024ء کے اختتام پر پاکستان کی آبادی 26 کروڑ ہو چکی ہو گی‘ 1998ء میں 13 کروڑ اور 26 سال میں ڈبل ہو کر 26 کروڑ۔ اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس خطرناک شرح سے اضافہ ہمیں کہاں لے کر جائے گا یا شاید پہلے ہی لے جا چکا ہے۔ یہ بات پچھلے کالم میں بتائی جا چکی ہے کہ سالانہ کل اضافے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔
اب ایک اور پہلو کی طرف لیے چلتے ہیں جو بہت اہم مگر تشویشناک بھی ہے۔ دنیا میں صرف دو ملک ایسے ہیں جہاں کل آبادی میں سالانہ ایک کروڑکا اضافہ ہوچکا ہے۔ ان میں سے ایک ملک تو چین ہے جس کی آبادی میں سالانہ اضافہ ایک کروڑ سے زائد کا ہوا کرتا تھا لیکن اس ملک نے 1979ء میں اپنے ملک میں دنیا کی سب سے سخت منصوبہ بندی پالیسی نہ صرف متعارف کرائی بلکہ اس حوالے سے یہ قانون بنا دیا کہ اگر کسی جوڑے کے ہاں دوسرا بچہ پیدا ہوگا تو اس کو بھاری جرمانہ اور سزا دی جائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر عمل بھی کر کے دکھایا اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ چین کی آبادی میں اضافے کی شرح صفر ہے۔ چین کے علاوہ دوسرا ملک بھارت ہے جہاں سالانہ اضافہ ایک کروڑ سے زائد چلا آرہا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اضافہ دو کروڑ تک نہ پہنچ جائے۔ اب بھارت کو بھی وہی معاملہ در پیش ہے کہ آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح تو کم ہو رہی ہے لیکن آبادی پہلے سے زیادہ تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ وجہ وہی ہے کہ اضافہ کل آبادی کے اعتبار سے ہوتا ہے جو مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسا کہ اس وقت بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب پینتالیس کروڑ ہو چکی ہے۔ بھارت کی نئی مردم شماری تاخیر کا شکار ہے جو 2021ء میں ہونا تھی اور کورونا کی وجہ سے نہ ہو سکی‘ ابھی تک اس کے انعقاد کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ بھارت‘ یعنی بھارتی حکومت اس اہم کام کے بجائے فی الوقت اگلے الیکشن کی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔ اگلے الیکشن کی تیاری کیلئے بھارتی حکومت کے پاس کارکردگی کے نام پر تو کچھ ہے نہیں، لہٰذا حکومت دوبارہ بھارت کے عوام کو ہندو اور غیر ہندو میں تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ منی پور میں مسیحیوں کے قتل ِعام اور تشدد کے بعد اب ریاست ہریانہ میں مسلمانوں پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ ان کی املاک کو جلایا یا مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل میں مسلح ہندو جتھوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس سارے بھیانک عمل کا مقصد عوام میں ہندو ازم اور نیشنل ازم کے جذبات کو ابھارنا ہے تاکہ اگلے سال ہونے والے الیکشن میں ہندو ووٹ کا رخ واضح طور پر بی جے پی کی طرف موڑا جا سکے۔ اب یہاں جو نکتہ ابھرتا ہے وہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ اپنی تیزی سے بڑھتی آبادی کی فکر کرنے کے بجائے بھارت سرکار اس آبادی کو ''جنونی‘‘ بنانے پر کام کر رہی ہے۔
ایک کروڑ کا قصہ
بنیادی مدعے کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں وہ وقت آرہا ہے جب کُل آبادی میں سالانہ اضافہ ایک کروڑ ہو جائے گا۔ اب بھلے اس میں مزید بیس یا تیس سال کا عرصہ لگے لیکن جو حالات ہیں‘ وہ یہی بتا رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کل آبادی آٹھ سال بعد تیس کروڑ ہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان دنیا کا آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے اور یہ تیزی سے دنیا کے چوتھے بڑے ملک انڈونیشیا سے آگے نکل رہا ہے۔ اس وقت انڈونیشیاء کی آبادی تقریباً اٹھائیس کروڑ ہے، لیکن ان کے ہاں سالانہ اضافہ صرف 18 لاکھ ہے۔ اس حساب سے ہم تقریباً چھ سال بعد دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چوتھا بڑا ملک بن جائیں گے۔ یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ آزادی کے وقت (مغربی) پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ سے کچھ زیادہ تھی اور کل آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا چودھواں بڑا ملک تھا۔
اب چلتے ہیں سب سے اہم مدعے کی طرف کہ آبادی میں یہ ہوشربا اضافہ کیسے ممکن ہوا۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کا آغاز ویسے تو ایوب خان دور کے آغاز‘ 1960ء کی دہائی کے اوائل ہی میں ہوگیا تھا اور اس منصوبے کے تحت دو بچوں کی پالیسی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ منصوبہ بھٹو دور میں بھی چلتا رہا اور اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں جو فلم کے اصل موضوع یا کہانی کے ساتھ زیادہ بچوں کے بجائے صرف دو بچوں کی پالیسی کی ترغیب دیتی تھیں۔ لیکن پھر ضیا دور کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان میں جہاں اور بہت سی منفی چیزوں کی بنیاد رکھی گئی‘ وہیں افغانستان میں روس کے حملے کی وجہ سے پاکستان میں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ایک عسکری کلچر کو فروغ دینا شروع کر دیا اور اس مقصد میں ضرورت سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ اس دوران ملکی قیادت کی نظر پتا نہیں کیسے منصوبہ بندی کی طرف پڑ گئی یا پھر شاید یہ بھی عالمی آرڈر ہی کا حصہ تھا کہ پاکستان میں آبادی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے چلنے والے تمام مراکز بند کر دیے گئے۔ اس منصوبے کو بند کرنا ایک تاریخی اور بھیانک غلطی تھی جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس دور میں آبادی میں اضافے کے لیے باقاعدہ تشہیر بھی کی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں ایک جماعت سڑکوں‘ بازاروں میں اشتہاری سٹیکر بھی لگایا کرتی تھی کہ بڑا خاندان‘ جہاد آسان۔ حکومت، امریکہ، یورپ اور بڑی طاقتوں کی منظوری اور اشیرباد سے یہاں پر ایسی مہمات چلائی گئیں۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں