بلائیں سب کچھ کھا جاتی ہیں

رواں ہفتے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے دو کالموں کو ملا کر پڑھنے سے سوچ کی ایک ایسی سمت بن رہی ہے جو سب کچھ کھول کر بیان کر دے گی۔ یہ کہانی اپنے خطے ہی کی ہے جہاں دو ارب لوگ بظاہر بستے ہیں لیکن درحقیقت وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بقا کی جنگ کچھ یوں ہے کہ بھوک کے مارے یہ لوگ روٹی‘ پانی اور سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ ایک ایسی بلا نے مسلط کر رکھی ہے جو کئی بلاؤں پر بھاری ہے اور اس کا ایک نام بھارت بھی ہے۔ کالم کے آغاز میں جن دو کالموں کا ذکر ہوا ہے ان میں پہلا کالم ڈاکٹر صوفیہ یوسف صاحبہ کا ہے جنہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ امریکی ادارے جینو سائڈ واچ کے بانی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن (Gregory Stanton) نے کہا تھا کہ بھارت نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہو چکا ہے مگر یہ دو سال قبل کی صورتحال کے تناظر میں کہا گیا تھا‘ اب یہ نسل کشی اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ دوسرا کالم آصف عفان صاحب کا ہے جس میں انہوں نے ایک فقرہ کچھ یوں لکھا ہے کہ صدقہ بلا کو کھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں کچھ ایسی بلائیں بھی ہیں جو صدقہ بھی کھا جاتی ہیں۔ اب اس ایک فقرے کے اندر اتنا کچھ ہے کہ اس کی تشریح لکھنا پڑے گی۔ بنیادی طور پر ان کا اشارہ کرپشن کی طرف ہے۔
بلاؤں کی بلا بھارت
اس بات کو مزید صراحت سے بیان کرتے ہیں‘ بس آپ کو تھوڑا غور کرنا پڑے گا۔ جنوبی ایشیا کی آبادی دو ارب سے زائد ہو چکی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ تیزی سے جاری ہے۔ اس خطے میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ بھارت میں ہوتا ہے لیکن یہاں اصل مدعا صرف آبادی نہیں‘ اگرچہ یہ پوری دنیا کے لیے بوجھ بن رہی ہے‘ بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ بھارت نام کی ''بلا‘‘ نے اس خطے میں غیرہندوؤں کی نسل کشی‘ جو اپنے قیام کی ساتھ ہی شروع کر دی تھی‘ اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ پروفیسر گریگوری اسٹینٹن کے مطابق بھارت نسل کشی کے دس میں آٹھویں مرحلے میں داخل ہو چکا ہے لیکن چونکہ انہوں نے یہ بیان دو برس قبل دیا تھا‘ اس لیے اگر بھارت میں گزشتہ دو برسوں کے دوران اقلیتوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو مد نظر رکھا جائے تو بھارت نسل کشی کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب نسل کشی کے ان مراحل کو سمجھنا بہت ضروری ہے جو کچھ اس طرح سے ہیں: پہلا مرحلہ Classificationکہلاتا ہے‘ سادہ الفاظ میں آپ اسے درجہ بندی کہہ سکتے ہیں۔ اس درجہ بندی کی بنیاد نسل‘ مذہب اورزبان میں سے کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ بھارت میں یہ درجہ بندی صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اب اس بات کو تھوڑا غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوؤں میں درجہ بندی کسی عقیدے سے کم نہیں‘ جس کے تحت برہمنوں کو دیگر تمام ذاتوں پر برتری حاصل ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بھارت کے آئین کے بانی شودر ذات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایمبیڈکر ہیں‘ جنہوں نے احتجاجاً ہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔ نسل کشی کا دوسرا مرحلہ Symbolization ہے۔ ممکنہ ٹارگٹ‘ کرنے اور ہونے والوں کو ایک مخصوص قسم کا نام اور رنگ دیا جاتا ہے۔ جیسے بھارت میں اَکھنڈ بھارت کے حامی ایک مخصوص رنگ کا لباس پہنتے ہیں۔ بھارت روزِ اول سے اَکھنڈ بھارت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ نسل کشی کا تیسرا مرحلہDiscrimination ہے۔ اس مرحلے میں کسی مخصوص نسل یا مذہب کے حامی افراد کے ساتھ امتیازی سلوک شروع کیا جاتا ہے۔ بھارت میں مسلمان اور سکھ سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کر تے ہیں۔ نسل کشی کا چوتھا مرحلہ Dehumanization ہے‘ اس مرحلے میں اپنے ہی ہم وطنوں سے غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی سب سے بڑی مثال ہٹلر ہے جس نے جرمنی میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا تھا اور اسے Jewish Vermin کا نام دیا گیا تھا۔ Verminایک ایسا جانور ہوتا ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اب بھارت میں گاؤ رکھشا کے نام پر ہونے والا مسلمانوں کا قتلِ عام‘ جرمنی میں یہودیوں کے قتلِ عام سے بھی بڑی مثال بنتا جا رہا ہے۔ نسل کشی کا پانچواں مرحلہ Organizationہے۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے کہ نسل کشی کے لیے باقاعدہ تنظیمیں بنائی جاتی ہیں یا پھر پہلے سے موجود تنظیموں کی اسلحہ اور پیسے کی صورت میں سرپرستی کی جاتی ہے۔ یہ سب کام بھارت سرکار نہ صرف اپنے ملک میں کرتی آرہی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام پڑوسی ممالک میں بھی کرتی ہے۔ اس کی مثال مکتی باہنی ہے یا موجودہ دور میں بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سر زمین کا استعمال ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے چھٹے مرحلے کی جسے Polarization کا نام دیا گیا ہے۔ اس مرحلے میں لوگوں کو انتہا پسند بنا کر ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اگلے یعنی ساتویں مرحلے کا نام Preparation ہے یعنی اس مرحلے میں نسل کشی کی مکمل تیاری کر لی جاتی ہے۔ اس سے اگلا یعنی آٹھواں مرحلہ Persecution ہے جس میں نسل کشی باقاعدہ شروع کر دی جاتی ہے۔Gregory Stantonکے مطابق بھارت اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے لیکن گریگوری اسٹینٹن نے یہ بات دو برس قبل کے حالات کے تناظر میں کی تھی۔ اب چلتے ہیں نسل کشی کے نویں مرحلے Exterminationکی طرف۔ یہ نسل کشی کا وہ مرحلہ ہے جس میں لوگوں کو انفرادی کے بجائے پورے گروپ کی شکل میں مارا جاتا ہے۔ بھارت کی ریاست منی پور میں تین مئی سے جاری فسادات میں مسیحیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے ریاست منی پور میں مئی سے اب تک تقریباً 450سے زائد چرچ جلائے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اب پتہ نہیں کہ جینو سائڈ واچ میں منی پور میں جاری فسادات کے بعد بھارت کی نسل کشی کے حوالے سے پھر سے کوئی درجہ بندی کی ہے یا نہیں لیکن منی پور کے حالات چیخ چیخ کر بھارت سرکار کے نسل کش پالیسیوں کے حامی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ نسل کشی کا آخری مرحلہ Denialہے‘ اس مرحلے میں نسل کشی کے جرائم سے انکار کیا جاتا ہے۔
یہودیوں نے ہٹلر کی نسل کشی کو ہولوکاسٹ کا نام دیا تھا اور وہ ہر سال ہولو کاسٹ کا دن مناتے ہیں اور ہولو کاسٹ کا انکار کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں۔ عالمی سطح‘ بالخصوص مقبوضہ کشمیر بلکہ اب تو پورے بھارت اور فلسطین میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں مقیم سکھ 1984ء میں گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے حملے اور اس کے نتیجے میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے قتلِ عام کا ذکر نہ صرف اپنی کتابوں‘ شاعری اور فلموں میں تسلسل سے کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اس کو ''دس گیارہ سے لے کر دس بارہ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔
برطانیہ‘ برہمن اور بربادی
ہندوستان سے گوروں یعنی برطانیہ کے چلے جانے کے بعد اس خطے پر برہمن سوچ غالب آگئی۔ یاد رہے بھارت میں 52سال تک وزرائے اعظم صرف اور صرف برہمن رہے ہیں۔ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اگر سونیا گاندھی مان جاتی اور منموہن سنگھ کی جگہ راہول گاندھی وزیراعظم بن جاتے تو یہ عرصہ 62سال ہو سکتا تھا۔ برہمن سوچ یا فلسفے کے حامی ابھی تک اس بات پر اٹکے ہوئے ہیں کہ افغانستان سے لے کر میانمار تک کا علاقہ اکھنڈ بھارت کا حصہ ہے۔ حال ہی میں اس کی عکاسی بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اَکھنڈ بھارت کا نقشہ کندہ کرکے کی گئی۔ موجودہ بھارتی حکومت صرف اگلے سال کا الیکشن جیتنے کے لیے اپنے عوام کو ہندو اور غیر ہندو کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے۔ اب ظاہر ہے‘ بھارت کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی ہندو ہونے کی وجہ سے یہ کارڈ مکمل کار گر ثابت ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کے بعد اس متشدد سوچ کو بھارت کیسے ختم کرے گا جبکہ دوسری طرف بھارت اپنے آپ کو ایک بلا سمجھتے ہوئے چین کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب چین وہ ملک ہے کہ جس کو نپولین نے کئی صدیاں پہلے ایک Giantکا نام دیا تھا‘ جس سے مراد جن بھی لی جا سکتی ہے۔ بھارت نام کی بلا کا خاتمہ چین نام کے جن کے ہاتھوں لکھا نظر آرہا ہے‘ جسے نوشتہ دیوار بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بلا کو یہ بات کون سمجھائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں