برہمن راج شاہی‘ بھارت اور جنوبی ایشیا

بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک راج شاہی سوچ کے تحت ہی نظامِ مملکت چلایا جا رہا ہے۔ یہ الفاظ بھارت کے ایک سابق سفیر کے ہیں جو زیادہ عرصہ مڈل ایسٹ ممالک میں تعینات رہے۔ انہوں نے یہ بات ایک بھارتی صحافی کرن تھاپر کو ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی۔آپ یو ٹیوب پر اس انٹرویوکو تفصیل میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ انٹرویو ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے موقع پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ انٹرویو میں سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ بھارت ایک Self-absorbed ملک ہے۔ اس لفظ کا قریب ترین اردو ترجمہ نرگسیت ہے یعنی بھارتی سفیر کے بقول بھارت ایک نرگسیت پسند ملک ہے۔ گزشتہ کالم میں‘ راج شاہی سوچ کے ماتحت بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی کی بات ہوئی تھی‘ جس میں خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے راج شاہی سلوک کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ اس بھارتی سلوک سے میانمار بھی محفوظ نہیں رہا۔ بھارت نے میانمار سے ملحقہ اپنا بارڈر باڑ لگا کر بند کر رکھا ہے۔ بھارت چین سمیت تمام پڑوسی ممالک کو خود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور گاہے گاہے اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے لیکن اصل میں ان تمام ممالک کو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے خطرہ ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا
دنیاکی تاریخ میں جن بڑے دھوکوں (Grand Deceptions)کا ذکر ملتا ہے‘ ان میں کچھ ایسے واقعات اور جنگیں بھی شامل ہیں جن میں کچھ طاقتوں یا شخصیات نے اپنا اتحاد مضبوط بنانے یا دشمن کا اتحاد توڑنے کے لیے دھوکا دیا یا دھوکا کھایا‘ جبکہ سب سے بڑا دھوکا تو مسلم دنیا نے امریکہ سے کچھ یوں کھایا ہے کہ اس نے امریکہ کو اپنا ہمدرد اور سوویت یونین کو اپنا دشمن سمجھا اور یہ حقیقت اُس وقت کھل کر سامنے آئی جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر ابھرا اور عالمی طاقت بنتے ہی اس نے پوری مسلم دنیا کو دَھر لیا۔ امریکہ‘ مسلم ممالک کے جن عوام کو کبھی آزادی کے ہیرو اور مقدس جنگجو کہا کرتا تھا‘ انہیں یک لخت نہ صرف اجنبی بلکہ متشدد اور دہشت گرد بھی قرار دے دیا۔ اس کو سادہ لفظوں میں مفادات کی جنگ کہا جاتا ہے اور اس طرح کے سخت گیر فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ غیر مقبول فیصلے کہا جاتا ہے یا پھر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہماری اطلاعات غلط تھیں۔ آپ صرف عراق کی مثال لے لیں جس پر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دو بڑے حملے کیے اور بعد میں اس ملک کو اندرونی خلفشار کا شکار کر دیا۔ یہ ملک ابھی تک اس کے نتائج بھگت رہا ہے جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ عراق کے پاس بڑی تباہی والے ہتھیار کبھی تھے ہی نہیں۔
اب اس ساری حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ بھارت کی سابقہ اور بالخصوص موجودہ حکمت عملی اور خودکش قسم کی حرکات کا جائزہ لیں۔ عالمی طاقتیں کس طرح ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو کر دیتی ہیں‘ اس کا اندازہ آپ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مثال سے ہی لگا لیں۔ گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد نریندر مودی کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی‘ اب اسی شخص کا امریکہ میں بڑا والہانہ انداز میں استقبال کیا جاتا ہے۔ اب یہاں بھارت کو مسلم دنیا کے علاوہ‘ مغرب کی مشرق یعنی ایشیا کے متعلق پالیسی کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن یہ ملک اَکھنڈ بھارت کی نرگسیت سے ایک لمحے کے لیے بھی باہر نہیں نکل رہا۔ بھارت سے متعلق بعض حقائق تو ایسے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ ملک کیا کر رہا ہے‘ جس کا نقصان صرف اس کے پڑوسی ممالک ہی نہیں بلکہ بھارت کے ایک ارب پینتالیس کروڑ سے زائد عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ یہاں اگر آپ کے ذہن میں بھارت کا چاند پر بھیجا جانے والا مشن یا بھارت میں عالمی برانڈ کی گاڑیوں کی تیاری جیسے عوامل آرہے ہیں تو بے شک یہ بھارت کی کامیابیاں ہیں لیکن یہ بھارت جیسے بڑی آبادی والے ملک کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہیں۔ اس وقت بھارت دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کا مسکن ہے جو کہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اوربقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آپ صرف بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی بات کریں تو بھارت کی ایک چوتھائی آبادی ہر وقت بجلی سے محروم رہتی ہے۔ آپ اس سلسلے میں بھارت کے نوبل انعام یافتہ لکھاری امرتیہ سین کی ایک کتاب An Uncertain Glory - India and its Contradictions کا ٹائٹل ہی پڑھ لیں تو پوری کتاب کی سمجھ آجاتی ہے۔ یہ ٹائٹل عیاں کرتا ہے کہ بھارت میں تضادات موجود ہیں اور اس کی شان غیر یقینی ہے۔ اس کتاب میں‘ جو کہ ایک تحقیقی کتاب ہے‘ بتایا گیا ہے کہ بھارت اپنے عوام بالخصوص غریب عوام کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت ایشیا کے ترقی کرنے والے ممالک جنوبی کوریا‘ جاپان اور چین کی پالیسیوں کے برخلاف چل رہا ہے۔ اسی کتاب میں بھارت کی ایک چوتھائی آبادی کے پاس بجلی نہ ہونے‘ نوزائیدہ بچوں کا وزن معیار سے کم ہونے اور لوگوں کے پاس ٹوائلٹ تک کی سہولت نہ ہونے کا بھی ذکر ہے۔ کتاب کے مصنف کا بھی یہ ماننا ہے کہ ان تضادات کے ساتھ بھارت کس طرح کسی اچھے مقام (Glory) تک پہنچنے کا سوچ سکتا ہے۔ اس کے بعد بہت ہی اہم بات‘ جو اس کتاب میں بتائی گئی ہے اور یہ خامی باقی دنیا میں بھی پائی جاتی ہے‘ وہ ہے وسائل پر چند لوگوں کا قابض ہونا۔ مطلب بھارت کے اندر جو خوشحالی ہے‘ وہ ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے۔ امرتیہ سین کی یہ کتاب 444صفحات پر مشتمل ہے جو 2015ء میں شائع ہوئی تھی ۔
مضبوط سے محفوظ کا تصور
بھارت کو یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا میں آج کل مضبوط ملک کی جگہ محفوظ ملک ہونے کا تصور زیادہ اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی‘ پانی کی دستیابی‘ وباؤں اور قدرتی آفات سے بچاؤ‘ خوارک کی قلت کا بحران‘ انرجی کے وسائل جیسے عوامل ایک چیلنج بن کر دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ نے انرجی اور خوراک کی قلت کے یکسر نئے تصورات کو جنم دیا ہے۔ دنیا میں صرف وہی ملک باقی دنیا پر حکمرانی کا سوچتے ہیں جن کے اپنے عوام خوشحال ہوں‘ جہاں قانون کی عملداری ہو‘ جہاں معاشرے میں یگانگت پائی جاتی ہو۔ لیکن اب تو ہر ملک کے اندرونی مسائل میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے‘ اور تو اور امریکہ جیسی عالمی طاقت بھی اندرونی مسائل کا شکار نظر آتی ہے۔ امریکہ دنیا کا وہ ملک ہے جس کے پاس دنیا کی کل سالانہ دولت کا ایک چوتھائی آتا ہے۔ بھارت کا سارا زور اس بات پر رہتا ہے کہ وہ مستقبل میں دنیا کی چوتھی یا تیسری طاقت بن جائے گا لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی آبادی بھی ہے‘ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کا تیسرا بڑا معاشی ملک ہونا بھی بے معنی ہوگا۔ مثال کے طور پر جاپان کی کل آبادی تیرہ کڑور سے بھی کم ہے جبکہ معاشی پیداوار بھارت سے زیادہ ہے۔ اب آپ فرض کریں کہ بھارت معاشی طور پر جاپان کے برابر آبھی جاتا ہے تو اسے یہ بات کون یاد دلائے گا کہ بھارت کی آبادی ایک ارب پینتالیس کروڑ سے زائد ہے۔ بھارت کی آبادی جاپان کے مقابلے میں گیارہ گنا زیادہ ہے۔ مطلب گیارہ جاپان ہوں تو ایک بھارت کی آبادی بنتی ہے۔ اس بنیاد پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بھارت جاپان کے برابر معاشی پیداوار حاصل کر لے گا تب بھی وہ جاپان کے مقابلے میں گیارہ گنا غریب ملک ہی ہوگا۔
دوسری جانب آپ بھارت کے اندر جاری فسادات اور علیحدگی کی تحریکوں کو ہی لے لیں تو شاید اس حوالے سے بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگا۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ صرف چین کے ہاتھوں ملنے والی مسلسل ذلت‘ جو کہ بہت آہستہ مگر معنی خیز ہے‘ کی وجہ سے بھارت اپنا علاقہ چین کے ہاتھوں کھو رہا ہے۔ صرف چین ہی نہیں‘ اب تو نیپال اور بھوٹان بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ میانمار نے بھی چین سے دوستی کر کے سی پیک جیسی ایک معاشی شاہراہ حاصل کر لی ہے جبکہ بھارت ابھی تک اپنے عوام کو کرکٹ اور فلم انڈسٹری کے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ بھارت کا میڈیا پاکستان کے معاشی حالات پر تبصرہ کرکے اپنے لوگوں کے اندر ایک جنونیت پھیلائے ہوئے ہے۔ بھارتی میڈیا ان سرجیکل سٹرائیکس کو بھی اپنے عوام میں اپنی جیت بنا کر پیش کرتا ہے جس میں ان کا اپنا پائلٹ گرفتار ہوا‘ جس پر بھارت کو دنیا بھر میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ چین کے محاذ سے کوئی بھی ایسی خبر جو بھارت مخالف ہو‘ بھارت کے مین سٹریم میڈیا میں اسے کوئی جگہ نہیں دی جاتی اور اکثر ایسی خبریں صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ملتی ہیں۔ باقی سب چھوڑیں‘ بھارتی میڈیا تو اپنے ملک کے اندر جاری فسادات سے بھی چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے اور ہر وقت بس فلموں کی ریٹنگ اور منافع کو موضوعِ بحث بنائے رکھتا ہے۔
نوٹ: بھارت اُس وقت تک امریکہ کے بڑے دھوکے (Grand Deception)میں مبتلا رہے گا جب تک چین اور امریکہ کے مابین جاری سرد جنگ میں کسی ایک فریق کو واضح برتری حاصل نہیں ہو جاتی۔ اس کالم کا بنیادی مدعا یہی ہے کہ بھارت کتنے بڑے دھوکے کا شکار ہو کر چین جیسی طاقت کے خلاف امریکہ کے ہاتھوں استعمال (Abuse) ہو رہاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں