بات چل رہی ہے دنیا میں مجموعی طور پر بدلتے‘ ڈھلتے حتی کہ الٹ ہوتے نظریات و خیالات کی۔ اس ضمن میں ہم نے ابھی تک یہ جانا ہے کہ اب دنیا میں ان چیزوں کی قلت اور اُس قلت کی وجہ سے لڑائیاں ہو رہی ہیں جو کبھی اتنی وافر تھیں کہ مفت میں مل جاتی تھیں‘ جیسے صاف پانی اور ہوا لیکن اب ان دونوں چیزوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ انہی دو چیزوں کی بنیاد پر یہ طے ہو رہا ہے کہ دنیا کا کون سا ملک یا خطہ محفوظ ہے۔ اسی بنا پر یہ طے ہوا ہے کہ اب محفوظ ہونے کا مطلب ہی مضبوط ہونا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اب ذہین دماغ کی جگہ مضبوط دماغ کا تصور زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ پہلے ایک صحت مند شخص کے لیے اس کے معدے کا ٹھیک ہونا ضروری یا بنیادی ضرورت سمجھا جاتا تھا لیکن اب پیٹ یا معدے کی جگہ دماغ کا درست حالت یعنی کسی بھی ہیجان یا اضطراب سے پاک ہونا صحت مند ہونے کی علامت ہے۔ اب چلتے ہیں اسی تناظر کے دیگر امور کی طرف۔
کثرت‘ قلت اور ذلت
معاشیات کا ایک بہت ہی بنیادی اور اہم اصول یہ کہتا ہے کہ امیر اور غریب‘ دونوں طبقات کسی بھی معاشرے کے لیے خطرناک اور نقصان کا باعث ہوتے ہیں‘ جبکہ درمیانہ طبقہ یعنی مڈل کلاس آئیڈل ہوتی ہے۔ اسی بات کو کچھ یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کثرت اور قلت دونوں ذلت کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں آپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ قلت کی وجہ سے تو جرائم پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے لیکن کثرت کا ذکر اسی ضمن میں کیسے آ گیا؟ اس بابت غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ غربت کی بنیادی وجہ وسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ ان کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اب آپ کو یہ تو اندازہ ہوگا کہ دنیا کی 80فیصد دولت پر محض 20فیصد سے بھی کم لوگ قابض ہیں۔ اب اس تقسیم کے متعلق پہلے تو اشتراکی یہ کہا کرتے تھے کہ اس دولت کی مساوی تقسیم کی جائے لیکن اب وہ اس بات پر آگئے ہیں کہ یہ تقسیم مساوی نہ بھی سہی کم از کم منصفانہ تو ہو۔ اس منصفانہ تقسیم سے ان کی مراد یہ ہے کہ لوگوں کو کم از کم روٹی‘ کپڑا اور مکان تو ملنا چاہیے۔ ارے ! یاد رہے اب تو یہ معاملہ صاف پانی اور ہوا تک پہنچ چکا ہے۔ مطلب یہ کہ اب تو دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام صاف پانی کو بھی ترس رہے ہیں۔ جو لوگ محض پانی کے ساتھ روٹی کھا کر صبر شکر کر لیتے تھے‘ وہ بھی اب سراپا احتجاج ہیں اور یہ احتجاج پانی کے ساتھ روٹی کھانے پر نہیں کر رہے بلکہ اس بات پر کر رہے ہیں کہ یہ پانی تو کم از کم صاف ہونا چاہیے‘ یہی مطالبہ سانس لینے کے لیے صاف ہوا کا بھی ہے۔
اسی کثرت اور قلت کی وجہ سے ذلت کا ایک نیا پہلو سامنے آ رہا ہے جو کچھ یوں ہے کہ امیر لوگ اب صاف پانی بیرونِ ملک سے منگوا لیتے ہیں اور اپنے گھروں اور کام کرنے والی جگہ پر آکسیجن پیدا کرنے والی مشینیں لگا لیتے ہیں لیکن عام آدمی یہ نہیں کر سکتا۔اب اس ذلت کی وجہ انسان کی بڑھتی ہوئی جنگی طرز کی معاشی سرگرمیاں ہیں جس کی وجہ سے قدرتی ماحول آلودہ سے زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کی وضاحت کچھ یوں بھی کی جاری ہے کہ دنیا کی بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی نے قدرتی ماحول کو محفوظ اور انسان کو صحت مند رکھنے والی چیزوں مثلاً درخت اور ہریالی کی قلت پیدا کر دی ہے جبکہ ماحول کو خراب کرنے والی چیزوں مثلاً گاڑیوں اور کارخانوں کی بہتات یعنی کثرت نے بھی قدرتی ماحول کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے کہ بہت ساری جاندار چیزوں کی نسلیں اور قسمیں ایسی ہیں جو ختم ہو چکی ہیں یا پھر ان کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ آپ صرف لاہور جیسے بڑے شہروں کی مثال لے لیں جہاں اب صرف کوے اور چیلیں بچی ہیں جبکہ خوبصورت لگنے والے اور زندگی کی علامت سمجھے جانے والے دیگر پرندے صرف چڑیا گھروں میں ملتے ہیں۔
اب آپ کو ایک اور طرف لیے چلتے ہیں جہاں کچھ حقائق آپ کو چیخ و پکار کرتے ہوئے یہ بتائیں گے کہ کثرت اور قلت کا کھیل کس طرح ذلت کا باعث بن رہا ہے۔ یہ ہے خوراک کی دستیابی اور اسے کھائے جانے کا طریقہ اور مقدار۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دنیا میں روزانہ اور سالانہ بنیادوں پر خوراک کی کمیابی یعنی بھوک سے مرنے والوں کی تعداد کم ہے جبکہ ضرورت سے زیادہ مقدار میں کھانے سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کھانے کے حوالے سے کثرت اور قلت کا جھگڑا اس طرح چل رہا ہے کہ غریب آدمی کی کیلوریز اول تو پوری نہیں ہوتیں اور اگر ہو بھی جائیں تو وہ ایک ہی طرح کی خوراک مسلسل کھاتا ہے‘ اس کو Malnutrition کہا جاتا ہے جبکہ امیر آدمی کے پاس کثرتِ خوراک تو ہے لیکن وہ زیادہ کیلوریز والی خوراک کھا نہیں سکتا۔ مطلب اسے اس کے ڈاکٹر کی طرف سے منع کیا گیا ہے کہ وہ ایسی خوراک نہ کھائے۔ یہاں غریب آدمی روٹی کی تلاش میں اور امیر آدمی خوراک کو ہضم کرنے کے لیے دوڑ لگاتا نظر آتا ہے۔ اب یہ خوراک ہضم کرنے کا سلسلہ مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو چکا ہے۔ اس کام کے لیے پہلے تو صرف ادویات تجویز کی جاتی تھیں لیکن اب باقاعدہ سرجری تک کی جاتی ہے جو اچھاخاصا مہنگا کام ہے۔
دنیا میں خوراک کی کمی کے شکار لوگوں کی تعداد تقریباً ایک ارب ہے لیکن دنیا میں زیادہ کھانے کی وجہ سے بڑھے ہوئے وزن کا شکار لوگوں کی تعدا پونے دور ارب ہو چکی ہے۔ اسی طرح باقاعدہ موٹاپے کے شکار لوگوں کی تعداد بھی ایک ارب کے قریب ہے۔ صرف امریکہ میں روزانہ کی بنیا پر وزن اور موٹاپا کم کرنے پر 20کروڑ سے زیادہ ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ خوراک کی قلت کے شکار لوگوں کی حالتِ زار کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار افراد صرف خوراک کی قلت کی وجہ سے موت کا سامنا کرتے ہیں۔ اب امیر آدمی یعنی کثرتِ دولت والوں کی زندگی کے ایک اور پہلو کی طرف چلتے ہیں جس میں غریب بھی کسی حد تک شامل ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی ہے غیرقانونی طور پر فروخت ہونے والی نشہ آور اشیا کی جس پر رواں سال اڑھائی سو ارب ڈالر سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ اس میں غریب کا ذکر اس لیے آگیا کہ بے روز گاری اور معاشی حالات کے ہاتھوں تنگ لوگ بھی نشہ کرتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ نشہ کرنے والے بھی موت کا سامنا کرتے ہیں جس میں بڑی تعداد شراب نوشی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی ہے۔ رواں سال ابھی تک کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ جبکہ کثرتِ مے نوشی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ ہو چکی ہے اور یاد رہے رواں سال خود کشی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی اب تک ایک لاکھ ہو چکی ہے۔ یہاں قابلِ ذکر بات دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے حوالے سے ہے جہاں سالانہ 20ہزار افراد صرف اپنے اسلحے کی مدد سے خود کشی کرتے ہیں جبکہ اسی امیر ترین ملک میں فائرنگ سے مرنے والوں کی تعداد بھی سالانہ 20ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔
امن کو جنگوں سے خطرہ لیکن جنگیں ناگزیر
اب چلتے ہیں دنیا کے امن کی دشمن جنگوں کی طرف۔ یہاں بھی کچھ عجیب صورتحال ہے۔ دنیا میں امن نام کی کوئی چیز نہیں بچی‘ اگر ہے بھی تو اس امن کو اگلی جنگ کی تیاری کا نام دیا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں اسے منفی امن کہا جاتا ہے۔ اب امن کو جنگوں سے خطرہ ہے لیکن امن برقرا ر رکھنے کے لیے جنگیں ناگزیر ہو چکی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ بات ہے مگر یہی تلخ ترین حقیقت ہے۔ (جاری)