مکمل خاتمے کے بجائے زندہ لاش

اس سیریز میں جدید طرز کی طویل جنگوں کا بیان چل رہا ہے اور یہ سلسلہ جدید جنگوں کی طرح طویل ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے نمایاں بات ہے وہ یہ ہے کہ جدید طرز کی جنگوں کا سلسلہ دوسر ی عالمی جنگ‘ جو اپنی طرز میں تیسری نسل کی جنگ تھی‘ کے فوری بعد شروع ہوا، اس کے بعد سرد جنگ کا دور شروع ہوا جو چوتھی نسل کی جنگ تھی۔ اگر دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے حالات کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سرخ اور سبز‘ یعنی نظریات کی جنگ اس وقت بھی جاری تھی لیکن جب دوسری عالمی جنگ‘ جو ایک گرم محاذ تھا‘ شروع ہوئی تو سرد جنگ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ اب یہاں جنگ کے دو پہلوئوں پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ہر جنگ کی نسل کی نیچر اور اس کے کریکٹر مختلف ہوتے ہیں۔ اگر نیچر کی بات کریں تو اس سے مراد جنگ کے حقیقی مقاصد ہیں۔ یعنی کسی دشمن کو تباہ کرنا، کسی کام سے روکنا یا راستے سے ہٹانا وغیرہ۔ مختصراً یہ کہ اس طرز کی جنگوں میں نقصان تو ہوتا ہے۔ اگر بات کریں کریکٹر کی تو پتا چلتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے، اور اس سے مراد جنگ کرنے کا طریقہ ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کیریکٹر یا خصوصیات کی بنیاد پر ہی جنگوں کی نسلوں یا قسموں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں جو جنگ امریکہ اور چین کے درمیان لڑی جا رہی ہے، اپنی خصوصیات کی وجہ سے وہ پانچویں نسل کی جنگ ہے جسے سادہ لفظوں میں نیو کولڈ وار یا نئی سرد جنگ کہا جا تا ہے۔
جنگی خاصیت‘ سر سے دماغ تک
گزشتہ کالم میں بات ہوئی تھی جنگ کی سب سے پہلی نسل کے ہتھیاروں کی‘ اس وقت لکڑی اور بانس کے ڈنڈے وغیرہ جنگی ہتھیار سمجھے جاتے تھے جو بنیادی طور پر زرعی آلات ہیں۔ بعد میں دھاتی اوزار جیسے کلہاڑی، درانتی اور ٹوکا وغیرہ بھی جنگی ہتھیاروں میں شامل ہو گئے۔ یہ بھی بنیادی طور پر زرعی اوزار ہی تھے، لیکن لڑائیوں اور جنگوں میں بھی کام آتے تھے۔ ان اوزاروں سے کسی کا سر زخمی کر دینا یعنی سر کی چوٹ کو ایک اہم اور خطرناک وار سمجھا جاتا تھا۔ اب اس کے بعد بارود کا زمانہ آگیا اور گولی ایک اہم ہتھیار بن گئی۔ گولی چلاتے وقت یہی کوشش کی جاتی کہ جسم کے ایسے حصے پر وار کیا جائے کہ دشمن کے بچ جانے کا امکان کم سے کم ہو، اس کے لیے بھی سر کو نشانہ بنانے کو ترجیح دی جاتی۔ ایسے نشانے کو Temple ٹارگٹ یا ہیڈ شاٹ کہا جاتا ہے۔ آج بھی فلموں میں ایسے سنائپرز کو دیکھتے ہوں گے جو انتہائی اعلیٰ درجے کے نشانہ باز ہوتے ہیں۔ وہ کوشش یہی کرتے ہیں کہ اگر مخالف کو مکمل ختم کرنا ہے تو وہ اس کے سر کا نشانہ لیں۔ یہاں ٹارگٹ حاصل کرنے کی نیچر تو پرانی ہی رہی، لیکن اس کا کریکٹر تبدیل ہو گیا۔ اس کو ہم گزشتہ کالموں میں ایک ایسی جنگ قرار دے چکے ہیں، جو سویٹ، سلو اور سائلنٹ (میٹھی، سست اور خاموش) ہوتی ہے۔ یہی جدید یعنی چوتھی اور پانچویں نسل کی جنگوں کی سب سے اہم خاصیت ہے‘ جو ان کو پرانی جنگوں سے ممتاز کرتی ہے۔
چونکہ یہ جنگیں خاموش طرز کی ہوتی ہیں اس لیے ان میں کوئی اعلانِ جنگ نہیں ہوتا، اسی طرح یہ جنگیں طویل عرصے پر محیط ہوتی ہیں، کیونکہ ان میں ایک پوری نسل‘ جو پروان چڑھ رہی ہوتی ہے‘ کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ عموماً اس قسم کی جنگوں کا دورانیہ پندرہ سے بیس سال تک ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ جنگیں میٹھے زہر کی طرح ہوتی ہیں اور زہر دیے جانے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگیں اس طرح کے ماحول میں لڑی جاتی ہیں کہ امن اور جنگ میں فرق کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ نشانہ فوج سے زیادہ سول آبادی ہوتی ہے لہٰذا حریف کی فوج اور سول آبادی کا فرق مٹا دیا جاتا ہے۔ اسی جنگ کی تفصیل کو آگے بڑھائیں تو علم ہوتا ہے کہ اس میں روایتی جنگوں کے بر عکس‘ جس میں صرف جوان مردوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا‘ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا بلکہ ان میں بچوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ مقصد اگلی پوری نسل کے دماغوں کو اپنے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہتھیاروں کے بجائے ٹولز سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ ٹولز میڈیا، موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں، جن کو انٹرنیٹ کے ایسے سلسلے سے جکڑا جاتا ہے جو نظر بھی نہیں آتا۔ انٹرنیٹ وائی فائی کسی کو کہاں نظر آتا ہے، اس کے سگنلز کو کس حد تک روکا جا سکتا ہے؟
بات دماغوں کو کنٹرول کرنے، ہیجان میں مبتلاکرنے یا پھر اپنے مطابق ڈھالنے کی ہو رہی ہے تو واضح کرتے چلیں کہ جو حکمت عملی اس ضمن میں اپنائی جاتی ہے اس کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے: Convince or Confuse and Conflict۔ پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی ٹارگٹ کردہ قوم یا معاشرے کے لوگوں کو اپنے خیالات اور سوچ کے مطابق قائل کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا جا سکتا ہو تو لوگوں کو ذہنی طور پر ایک مبہم قسم کی دھند کے حوالے کر دیا جائے، ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوئے جائیں۔ اگر ایسا کرنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو رہے ہوں تو ان میں جھگڑے اور فسادات شروع کرا دیے جائیں۔ اس کے لیے مختلف قسم کی جذباتی شناختوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے، نیشنل ازم کی جنگ میں جھونک کر، نسل و زبان کی برتری کی بنیاد پر‘ غرض جو بھی آسان ہدف ہو، اس کو بنیاد بنا کر فسادات کا سلسلہ شروع کرا دیا جاتا ہے۔ مختصراً یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ دماغوں میں‘ جتنا ہو سکے اور جتنی بھی اقسام کا ہوسکے‘ خلل ڈال کر کیا جاتا ہے، اسی لیے اس طرز کی جنگوں کو دماغوں کی جنگ کہا جاتا ہے۔
Explosion Vs Implosion
Explosionیعنی دھماکوں کا تو سب نے سن رکھا ہوگا لیکن یہاں Implosion سے کام لیا جاتا ہے۔ ایکسپلوژن کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن میں ایک ایسا غبارہ لائیں جس میں ہوا پوری طرح سے بھری ہو، اس کو اگر سوئی کی نوک ہلکی سی بھی چبھ جائے تو یہ غبارہ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا اور کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر بکھر جائے گا۔ یہ پرانی طرز کی جنگوں میں یا بارود سے لڑی جانے والی جنگوں میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن جدید طرزکی جنگوں میں Implosion کی تکنیک استعمال ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن میں ایک ایسا غبارہ لائیں جس میں ہوا پوری طرح نہ بھری ہو، اور اگر بھری ہوئی ہو تو اس ہوا کو بتدریج کم کرنا شروع کر دیں۔ غبارے کی ہوا کم کرنے میں کچھ وقت لگے گا، اسی طرح جدید جنگیں طویل عرصے پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہوا کم کرنے کے لیے غبارے کو اوپر بندھے دھاگے کو تھوڑا سا ڈھیلا کریں گے، اس کے بعد جب اس میں ہوا کا تنائو کم ہو جائے گا تو اس کو کسی ایک طرف سے تھوڑا سا دبائیں۔ اب یہ دب بھی جائے گا اور پھٹے گا بھی نہیں، لیکن اس دوران اس کی ہوا ضرور کم ہوتی جائے گی۔ اب اس غبارے کو دبانے والے عوامل ایک سے زیادہ ہو جائیں تو یہ کام شدت پکڑ جائے گا۔ اسی دوران اس کی بیرونی ساخت‘ مطلب ربڑ یا جس مواد سے یہ بنا ہے‘ وہ بھی کمزور ہونا شروع ہو جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ اس غبارے کی ساری ہوا ختم ہو جائے گی اور یہ محض ایک ربڑ کا ٹکڑا بن کر رہ جائے گا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ غبارہ تباہ تو ہوا نہیں‘ اس میں دوبارہ ہوا بھری جا سکتی ہے، یا پھر جہاں سے اس کی بیرونی سطح کمزور ہوئی ہے‘ وہاں پر پیچ یا کوئی مواد لگا کر اس کو مضبوط بھی کیا جا سکتا ہے۔ بھلے یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ اب یہ پہلے والا غبارہ نہیں رہا۔ اسی طرح جدید جنگوں میں ملکوں اور معاشروں کو اس غبارے کی طرح مکمل ختم کرنے کے بجائے کمزور اور لاغر کیا جاتا ہے۔ براہ راست حملہ کرنے کے بجائے معاشرے میں ایسے شگاف کیے جاتے ہیں کہ سارا رعب و دبدبہ یعنی ہوا آہستہ آہستہ اکھڑتی رہے۔ اسے ایک ایسا جسم بنا دیا جاتا ہے کہ جس کے زندہ یا مردہ ہونے میں زیادہ فرق نہیں رہتا یعنی اپنے دشمن کو مکمل ختم کرنے کے بجائے زندہ لاش بنانا ہی ان طویل المدت جنگوں کا مقصد ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں