ماحولیاتی کانفرنس اور ہم

جون 1992ء میں مَیں نے 'دنیا میں جنگلات کی اہمیت‘ کے عنوان سے ایک تحریر لکھی تھی۔ اُن دنوں برازیل میں ماحولیات کے حوالے سے ارتھ سمٹ کے نام سے عالمی یومِ ماحولیات کے موقع پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں 117ممالک کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کا سلوگن ''Only One Earth, Care and Share‘‘ تھا۔ اس سلوگن کا جو مفہوم واضح ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ زمین صرف ایک ہے‘ احتیاط کریں اور اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔ تب ''احتیاط کریں‘‘ کی تو سمجھ آ گئی تھی لیکن ''اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں‘‘ کی زیادہ سمجھ نہیں آئی تھی۔ یہ بات اب اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب متحدہ عرب امارات میں کوپ 28 کی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں پتہ چل رہا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کاربن بڑے اور ترقی یافتہ ممالک پیدا کرتے ہیں جو ہر سال فضا میں شامل ہوتا ہے اور زمین کی حدت بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ چین کا ہے جو دنیا کا تیس فیصد بنتا ہے۔ اب ''اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں‘‘ کا مطلب واضح ہوتا ہے کہ کچھ اس طرح زندگی بسر کریں کہ قدرتی ماحول خراب نہ ہو اور دوسرے انسان بھی زندہ رہ سکیں۔ متحدہ عرب امارات میں جاری اس ماحولیاتی کانفرنس میں 198ممالک کے سربرہان اور نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے الارمنگ تک
Only One Earth, Care and Share کا سلوگن جاری ہوئے تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن قدرتی ماحول بدستور خرابی کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2023ء انسانی تاریخ کا گرم ترین سال ہے۔ گرمی بڑھنے کو عام الفاظ میں گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے لیکن اب یہ گرمی اتنی زیاد اور تسلسل سے بڑھ رہی ہے کہ اب اسے الارمنگ کہا جانا چاہیے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ کاربن کے اخراج کا گرمی بڑھنے سے کیا تعلق ہے تو یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اُن گیسوں میں پہلا نمبر ہے جو اس وقت زمین کی حدت بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ گیس جب فضا میں شامل ہوتی ہے تو روزانہ کی بنیاد پر جو گرمی یا سورج کی تمازت دن کو زمین پر پہنچتی ہے اور رات کو واپس چلی جاتی ہے‘ کے سرکل کو توڑ دیتی ہے۔ یہ گیس سورج کی تمازت کو زمین پر آنے تو دیتی ہے لیکن واپس جانے میں رکاوٹ اس طرح سے پیدا کرتی ہے کہ اس تمازت کی کچھ مقدار زمین پر ہی رہ جاتی ہے۔ اس عمل کی وجہ سے زمین کا اوسط درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو چکا ہے۔ فضا میں کاربن کے اخراج میں اضافے سے ایک طرف تو زمین کی حدت بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف یہ ماحول کو بھی آلودہ کر رہی ہے۔ زمین کا اوسط درجہ حرارت بڑھنے سے کرۂ ارض کا سارا موسمیاتی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز فصلوں کے پکنے کا عمل اور دورانیہ ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے گرمیوں کے موسم میں زمین سے بخارات کی صورت میں آسمان پر جانے والے پانی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے بارشوں کا عمل اور دورانیہ بھی متاثر ہو کر غیر یقینی صورت اختیار کر چکا ہے۔ سادہ لفظوں میں اس سے سارا موسمیاتی نظام متاثر ہو رہا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پیدا ہونے والا ایک بہت بڑا خطرہ سالہا سال سے جمے ہوئے گلیشیرز کا پگھلنا ہے۔ جب یہ گلیشیر زیادہ پگھلتے ہیں تو اس سے سطح سمندر میں اضافہ ہونے کا امکان تو پیدا ہوتا ہی ہے‘ ساتھ ہی گرمی میں اضافے اور سیلاب کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب سورج کی شعاعیں زمین پر آتی ہیں تو ان گلیشیرز سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں لیکن اگر گلیشیرز پگھل جائیں تو پھر سورج کی وہ شعاعیں جو ان گلیشیرز سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں‘ وہ زمین سے ٹکرانے اور اس کو گرم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس سارے عمل سے زمین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان گلیشیرز کے پگھلنے سے زمین پر زندگی مکمل طور پر خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ جو گلیشیرز شمالی اور جنوبی قطب پر واقع ہیں‘ اگر وہ پگھل گئے تو انسانی آبادی کو ان کے نیچے دبی ہوئی خطرناک گیسوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یورپ کے کچھ علاقوں میں واقع گلیشیرز کو تو پگھلنے سے بچانے کے لیے گرمیوں کے موسم میں باقاعدہ ڈھانپ بھی دیا جاتا ہے۔ ان گلیشیرز کے پگھلنے سے دریاؤں کی روانی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ آپ نے یہ بھی سنا ہی ہوگا کہ گرمیوں میں دریاؤں میں پانی کی روانی بڑھ جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ گلیشرز کا پگھلنا ہی ہے۔ ان گلیشیرز کے پگھلاؤ کا عمل اگر مستقل جاری رہا تو دریائوں میں پانی کے بہاؤ کو بھی خرابی ہی نہیں بلکہ پانی کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
بنیادی وجوہات پر جائیں
ان تمام تر خرابیوں کی سب سے بڑی وجہ ڈھونڈیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسانوں آبادی اور انسان کی قدرتی ماحول کا نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کا بوجھ بڑھنا ہے۔ اس بوجھ بڑھنے والی بات کی وضاحت کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کی جانب سے زمین پر ڈالے جانے والے بوجھ میں اضافہ ہے۔ آپ تصور کریں کہ جب تک دنیا میں موبائل‘ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ نہیں تھے تو دنیا کا ایک بندہ جو روزانہ کی بنیاد پر بجلی خرچ کرتا تھا‘ وہ یقینا کم تھی۔ اب زیادہ وضاحت کے لیے آپ اس فہرست میں ذرا ایئر کنڈیشنر کو بھی شامل کر لیں اور یہ حساب لگائیں کہ اگر گرمیوں میں یہ مشین استعمال نہ ہو رہی ہو تو بجلی کے لوڈ یا استعمال میں کتنی زیادہ کمی ہو گی۔ اب سوال صرف بجلی کے استعمال میں اضافے کا نہیں ہے بلکہ اس بات کا ہے کہ یہ بجلی پیدا کس طرح کی جا رہی ہے۔ اگر تو یہ بجلی پانی سے پیدا ہو رہی ہے یا پھر سورج کی شعاعوں اور ہوا کے ذریعے چلنے والے ٹربائنوں سے تو ماحول کو کچھ نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر یہ بجلی پٹرول جلا کر یا پھر بالخصوص کوئلے کو جلا کر حاصل کی جائے گی تو مسائل ہی مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی طرح جو گاڑیاں پٹرول اور ڈیزل پر چلتی ہیں‘ وہ ان گاڑیوں سے کئی گنا زیادہ ماحول آلودہ کرتی ہیں جو بجلی پر چلتی ہیں۔
کالم کے شروع میں جون 1992ء میں برازیل میں منعقد ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کا ذکر ہوا تھا جو قدرتی ماحول سے متعلق تھی‘ تو اس وقت پوری دنیا کی آبادی ساڑھے پانچ ارب کے قریب تھی لیکن گزشتہ سال یہ آبادی آٹھ ارب کا ہندسہ عمور کر چکی ہے اور اس میں ہر سال تقریباً آٹھ کروڑ کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ یاد رہے اس آٹھ کروڑ میں سے سوا دو کروڑ کا اضافہ صرف جنوبی ایشیا میں ہوتا ہے جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کا پہلا ملک بھارت ہے جس کی آبادی سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ جبکہ دوسر ے نمبر پر پاکستان ہے جس کی آبادی ساٹھ لاکھ سالانہ کے حساب سے بڑھتی ہے۔ اس خطے میں بنگلہ دیش وہ ملک ہے جس نے آبادی پر قابو پایا ہے اور اب اس کی سالانہ آبادی میں صرف سترہ لاکھ کے قریب اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی سترہ کروڑ کے قریب ہے یعنی پاکستان سے آٹھ کروڑ کم لیکن علیحدگی کے وقت اس کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اب آبادی پر قابو پانے کے لیے بھارت اور پاکستان کو چین سے نہ سہی بنگلہ دیش ہی سے سبق سیکھ لینا چاہیے۔ پوری دنیا کی بات کریں تو بھی بدقسمتی سے دنیا کی کل آبادی میں سے نوے فیصد اضافہ صرف ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک ہی میں ہوتا ہے۔
کلین اور گرین ہی بقا ہے
روز افزوں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے دنیا کو کلین اور گرین کی پالیسی ہی نہیں ایک سخت قانون کی ضرورت ہے۔ اس میں بجلی کی شکل میں انرجی کا کم استعمال سر فہرست ہونا چاہیے‘ وہ بھی ایسے ذرائع سے پیدا کردہ بجلی جو ماحول دوست ہوں‘ یعنی پانی‘ ہوا اور سورج کی شعاعوں سے پیدا کردہ بجلی جبکہ اس وقت پوری دنیا کی انرجی کا 37فیصد کے قریب صرف کوئلے سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ماضی کے مقابل کوئلے سے پیدا کردہ انرجی میں اضافہ ہوا ہے نہ کہ کمی۔ اس کے بعد زمین پر زندگی بحال رکھنے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ درخت اور کسی بھی شکل میں موجود سبزہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ درختوں کے ساتھ اس قدر مانوس ہو جائیں کہ وہ درختوں کو گھر کے فرد کا درجہ دیں‘ یعنی انہیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں۔ اپنے ملک کی بات کریں تو تمام بڑی شاہراہوں‘ ریلوے کی پٹریوں کے دونوں طرف درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ آپ صرف موٹر وے کا حساب لگائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کے دونوں طرف پہلے سے کافی جگہ موجود اور محفوظ ہے۔ آپ نے موٹروے کے دونوں طرف ایک جنگلا لگا دیکھا ہوگا‘ سڑک اور اس جنگلے کے درمیان موجود رقبے میں بہت آرام سے درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ وہاں بڑے قد کے حامل درخت لگائیں تو یہ نہ صرف چھاؤں اور صاف ہوا دیں گے بلکہ سڑک کا درجہ حرارت بھی کم رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے سڑک پر چلنے والی ٹریفک کو بھی ایئرکنڈیشنر کا زیادہ استعمال نہیں کرنا پڑے گا جس سے کم ایندھن جلے گا اور ماحول مزید صاف رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں