سوکھے بادل، کالی دھوپ، گھٹی گھٹی گہری سانسیں

آج کی دنیا میں بقا، سلامتی، تحفظ اور وسائل کا جو نیا تصور تاریخی اور مروجہ تصورات پر غالب آ چکا ہے وہ قدرتی ماحول کے تحفظ کا تصور ہے۔ اس کو ماحولیاتی معیشت (Environmental Economics) بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی ملک کی آبادی کے حصے میں فی کس کے حساب سے پانی، درخت، ہوا، دھوپ اور قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والی خوراک کا حساب لگایا جاتا ہے۔ قدرتی خوارک سے مراد آرگینک (Organic) اشیا ہیں جو ماحول کو تباہ کیے بغیر پیدا ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اس اہم چیز کا‘ جو انسانیت کی بقا کی علامت ہے یعنی درخت اور جنگلات۔ درخت انسانی بقا کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہیں یہ سانسوں کے کھیل کو جاری رکھنے کیلئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور ایک خطرناک گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک درختوں اور اپنے جنگلات کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
فی کس بقا یعنی درخت
ہر ملک کے ماحولیاتی تحفظ کا حساب بنیادی طور پر درختوں سے لگایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں روس درختوں کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں چھ ارب سے زائد درخت پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کینیڈا کا نمبر آتا ہے جہاں پر تین ارب بیس کروڑ سے زائد درخت پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد برازیل کا نمبر آتا ہے جہاں پر تین ارب کے قریب درخت پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں سوا دو ارب سے زیادہ درخت ہیں۔ اگر پورے کرۂ ارض کی بات کریں تو دنیا میں لگ بھگ تین ہزار ارب (تین ٹریلین) درخت پائے جاتے ہیں۔ اب بات اصل مدعے کی طرف لاتے ہیں‘ یعنی فی کس درختوں کا حساب کیونکہ اسی کو انسانیت کی اصل بقا تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں سب سے زیادہ درخت روس میں ہیں لیکن اس کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے فی کس درختوں کے حساب سے کینیڈا دنیا کا اولین اور سب سے محفوظ ملک سمجھا جاتا ہے۔ کینیڈا میں فی کس اعتبار سے درختوں کا تناسب تقریباً نو ہزار ہے۔ اس کے بعد روس کا نمبر ہے جہاں فی کس اعتبار سے درختوں کی تناسب ساڑھے چار ہزار درخت فی فرد ہے۔ اس کے بعد آسٹریلیا کا نمبر آتا ہے جہاں فی کس درختوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ پھر برازیل‘ جہاں فی کس درختوں کی تعداد پندرہ سو ہے۔ یہاں پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ درخت محض قدرتی طور پر نہیں اُگے بلکہ دنیا میں پچھلے بیس سال میں درخت لگانے میں بھی پہلے نمبر پر روس ہے، اس کے بعد برازیل، کینیڈا، امریکہ اور چین کا نمبر آتا ہے۔ اس سارے ماجرے کا اصل اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں فی کس درختوں کی تعداد محض پانچ یا اس سے بھی کم ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ جو دیگر نو ملک ہیں، وہ سبھی صحرائی ممالک ہیں جہاں فی کس درخت پاکستان سے بھی کم ہیں۔ یہ ہوشربا اعداد و شمار اور موازنہ دراصل اس بات کی وضاحت کی کوشش ہے کہ کیوں پاکستان میں ہوا اتنی زیادہ آلودہ ہے کہ سوکھے بادل اور کالی دھوپ یہاں کا موسم بن چکے ہیں اور گھٹی گھٹی گہری سانسیں عوام کا مقدر۔ اب اگلی بات کو بھی اس کے ساتھ جوڑ لیں کہ ہمارے ہاں آبادی میں سالانہ اضافہ اوسطاً ساٹھ لاکھ سے بھی زائد ہے۔ باقی اندازہ آپ خود لگا لیں کہ ہمارے ہاں سالانہ درخت کتنے لگائے جاتے ہیں اور نئی رہائشی سکیموں میں کتنے زیادہ درخت کٹتے ہیں۔ یورپ کے بعض ممالک میں درختوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ سرکاری طور پر ہر چند روز کے بعد ان پر پانی کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔ چھڑکائو کی بات اس لیے کرنا پڑ رہی ہے کہ آپ اپنے اردگرد موجود کسی بھی درخت کے پاس جا کر اس کے پتوں پر انگلی پھیریں‘ آپ کو پتا چلے گا کہ ان پتوں پر مٹی اور آلودگی کی ایک دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ یہ آلودگی اور مٹی درخت کے آکسیجن بنانے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔ یعنی جو درخت انسانوں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن پیدا کرتے ہیں‘ انسانوں کی پیدا کردہ آلودگی کی وجہ سے ان کا اپنا سانس بھی گھٹ رہا ہے۔ یہاں پر ایک اور وضاحت کرتے چلیں کہ تمام سمندر بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں، لیکن ان سمندروں میں بحری جہازوں کی بڑھتی ٹریفک کی وجہ سے جو تیل لیک ہو کر سمندر کے پانی میں شامل ہوتا ہے‘ اس کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تیل کی وجہ سے سمندروں کے پانی کے اوپر ایک چکنی تہہ آ جاتی ہے اور یہ تہہ سمندری پانی کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کم کر دیتی ہے۔ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سمندروں اور درختوں میں جذب نہ ہو تو وہ فضا میں معلق رہتی ہے اور یہی کاربن والی گیس نہ صرف ہوا کو آلودہ کرتی ہے، بلکہ کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے کی بھی وجہ بنتی ہے۔
بڑھتے درجہ حرارت سے یاد آیا کہ دسمبر کا وسط آ چکا ہے لیکن اب بھی رات کے وقت کچھ لوگ مچھروں سے بچنے کے لیے ہلکا سا پنکھا چلا لیتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک نہ تو سردی پوری طرح آئی ہے اور نہ ہی مچھر ختم ہوئے ہیں۔ در اصل مچھروں کے خاتمے کا براہِ راست تعلق سردی کی شدت بڑھنے سے ہے۔ اگر اس وقت مچھر موجود ہیں تو صاف مطلب ہے کہ ابھی سردی نہیں آئی۔ یہ نیا پیٹرن گزشتہ سال سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان حالات کو موسم کی تبدیلیاں نہیں بلکہ تباہیاں کہا جانا چاہیے۔ سردی پوری طرح نہ آنے کی بڑی وجہ ابھی تک بھرپور بارشیں نہ ہونا ہے۔ نومبر گزر گیا اور اب دسمبر کا نصف ہونے کو ہے لیکن ابھی تک کوئی بڑی بارش نہیں ہوئی۔ محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق شاید اس مہینے کے آخری دنوں میں ایک آدھ بارش ہو جائے۔
مصنوعی بارش کی لاگت اور اثرات
''روزنامہ دنیا‘‘ کے تعاون سے راقم نے دہائیوں پرانے مصنوعی بارش کے طریقے سے آپ کو مسلسل آگاہ رکھا۔ دو باتوں کی وضاحت باقی ہے‘ جو گزشتہ کالموں میں تفصیل سے نہیں کی جا سکی۔ کچھ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ جو نمک بادلوں پر چھڑکا جائے گا‘ وہ زمین پا گرنے کے بعد زراعت یا بناتات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے نمک کی مقدار کو جاننا ضروری ہے جو بادلوں پر بارش کے لیے چھڑکا جاتا ہے۔ یہ نمک فی مربع کلومیٹر کے حساب سے چھڑکا جاتا ہے۔ اگر مربع کلو میٹر کو ایکڑوں کی صورت میں بیان کیا جائے تو یہ لگ بھگ 247 ایکڑ رقبہ بنتا ہے۔ آپ کے خیال میں تقریباً ڈھائی سو ایکڑ رقبے کے لیے کتنا نمک در کار ہو گا؟ یقینا آپ کے ذہن میں چند من یا پھر کئی سو کلو تک نمک کا خیال آ رہا ہو گا، مگر ایسا نہیں ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ 247 ایکڑیا ایک مربع کلو میٹر رقبے پر بارش برسانے کے لیے محض ایک کلو بلکہ اس سے بھی کم نمک درکار ہوتا ہے۔ اگر متعین مقدار کی بات کی جائے تو ایک مربع کلومیٹر کے لیے سات سو گرام سے نو سو گرام تک نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر اس سات سو گرام کو 247 ایکڑوں پر تقسیم کریں تو یہ بمشکل تین گرام فی ایکڑ بنتا ہے۔ یہ انتہائی بیوقوفانہ موقف ہے کہ نمک سے ماحولیات یا فصلوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیز یہ کہ یہ نمک بارش میں گھل کر زمین پر گرتا ہے، نہ کہ دانوں کی شکل میں،جب کام نہ کرنا ہو تو اس طرح کے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ اگر کئی سو ایکڑزمین کے مالک بڑے زمیندار یا چھوٹے کسان مل کر اپنے طور پر مصنوعی بارش کرنا چاہتے ہیں تو نمک کونقصان دینے والا معدنی ذریعہ ہرگزمت سمجھیں۔ اگر بات لاگت کی کریں تو نمک کا خرچہ تو بیان ہو چکا‘ اس کے بعد چھوٹے جہاز کے ایندھن اور جہاز کا کرایہ وغیرہ ہی بچتا ہے۔ اگر مصنوعی بارش کی لاگت کی بات کی جائے تو ایک مربع کلومیٹر رقبے پر مصنوعی بارش کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے لاگت آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں