گلوبل وارمنگ ‘ ماحولیاتی آلودگی اور پاکستان

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP)کی گلوبل وارمنگ کے حوالے سے حالیہ رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق اگر 2050ء تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو صفر نہ کیا گیا تو صدی کے اختتام تک کرۂ ارض جانداروں بشمول انسانوں کیلئے جہنم بن سکتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے یقیناً یہ شدید قسم کی موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب ہو گا{ جیسے گرمی کی لہریں (پچلھے چند برسوں سے کراچی گرمی کی ان لہروں کی زد میں ہے) شدید اور بے وقت بارشیں‘ Tropical Cyclones اور خشک سالی وغیرہ۔ یہ تو گلوبل وارمنگ کے وہ اثرات ہیں جو ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے انسانی زندگی پر بھی بہت مضر اثرات پڑ رہے ہیں۔ دنیا میں فضائی آلودگی کے سبب ہر سال تقریباً 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں اور یہ صورتحال دن بہ دن مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی مختلف امراض‘ جیسے پھیپھڑوں کا کینسر‘ سانس‘ آنکھوں اور گلے کی بیماریاں اور فالج کے مریضوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے سبب گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی کی زیادہ ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے‘ لیکن اس ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک اور ان طبقوں پر پڑ رہے ہیں جو پہلے ہی پسماندہ ہیں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور جہاں اس کے تباہ کن اثرات سے ہر سال ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کی دوسری اقسام‘ جیسے زمینی آلودگی‘ فضائی آلودگی‘ جنگلات کی کٹائی اور پانی کی آلودگی وغیرہ کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ ان متعدد ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کیلئے اجتماعی اور انفرادی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق کسی بھی خطے کے کل رقبے کے پچیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا لازمی ہے۔ 1947ء میں جب ہمارا ملک معرضِ وجود میں آیا اس وقت 3.3 فیصد رقبے پر جنگلات تھے جو کم ہو کر 1.8 فیصد رہ گئے ہیں۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے صاف اور سرسبز پاکستان پروگرام کاآغاز کیا ہے‘ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان نے دس ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کے ذریعے درخت لگا کر ملک میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے نمٹا جاسکتا ہے اور ملک کے جنگلات میں بھی اضافہ ہو گا۔ شجرکاری کی اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بحیثیت قوم ہمیں ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ منصوبہ صحتمند پاکستان کے مستقبل کی بقا کیلئے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2013ء سے 2018ء کے دوران خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے تھے‘ جسے عالمی سطح پر سراہا گیا تھا۔
وطن عزیز کے صنعتی شہروں میں موسم سرما کے دوران سموگ کے مسئلے نے بہت گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ سموگ کے اس مسئلے میں صنعتوں کے علاوہ اینٹوں کے بھٹے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو جلائے جانے کے فرسودہ طریقے بھی سموگ کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سخت قوانین اور ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کے ساتھ عوام میں آگہی مہم چلانے کی ضرورت بھی ہے۔ فضائی آلودگی اور زمینی آلودگی کی ایک بڑی وجہ کچرا بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں سہولیات کے فقدان اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب شہروں کی طرف نقل مکانی سے شہروں کی آبادی میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے‘ شہری سہولیات کی مینجمنٹ اور پلاننگ کی کمی کی وجہ سے جابجا کچرے کی ڈھیر زمینی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ کچرے کو جلانے کے بجائے اسے بہتر طور پر ڈمپ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوکل گورنمنٹ کے ادارے بہت مضبوط ہیں۔ 18ویں ترمیم پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے اختیارات لوکل گورنمنٹ کو منتقل کرکے ان اداروں کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتے ہوئے شہروں کی مناسب پلاننگ کی جا سکے۔ کلین اینڈ گرین پاکستان پروگرام بھی اسی صورت کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ مذکورہ پروگرام میں تعلیمی اداروں میں بچوں کی ماحول میں قدرتی وسائل کی اہمیت اور تحفظ کے بارے میں آگاہی بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت اس امرکی ہے کہ Environmental Studies کے مضمون کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے اور سکول کی سطح پر ہر سال بچوں سے شجر کاری کروانے کے ساتھ ان اشجار کی دیکھ بھال کی شعوری کوششیں بھی کی جائیں تاکہ جو شجر لگائے جائیں ان کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔
ملک میں پانی کے ذخیرے میں کمی آ رہی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بھی تیزی سے گر رہی ہے‘ اور پاکستان کا واٹر ٹینک کہلانے والے گلیشیرز بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث نہ صرف سیلاب تباہی مچاتے ہیں بلکہ مستقبل میں ہمیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لئے پانی کو بچانے اور اس کے بہتر استعمال کے ساتھ اسے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے بہتر نتیجہ خیز پلاننگ کی ضرورت ہے۔ سیوریج مینجمنٹ کا مناسب انتظام کرنا ہو گا۔ سیوریج کا پانی براہ راست نہروں اور دریاؤں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اسی طرح کارخانوں اور صنعتوں کا زہریلا پانی اور فضلہ کسی قسم کی ٹریٹمنٹ کے بغیر جھیلوں‘ نہروں‘ دریاؤں اور سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے جو نہ صرف پانی کو آلودہ کرتا ہے بلکہ سمندری حیات کے لیے بھی شدید خطرے کا باعث ہے۔ پاکستان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی افزائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے جس سے ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ بارشوں میں کمی کے باعث دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں پانی کی کمی کے سبب نہ صرف ہر سال لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے بلکہ اس ساحلی پٹی پر بسنے والوں کو نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ زرعی زمین پر رہائشی کالونیاں بنانے پر پابندی نہ لگائی گئی تو ملک کو مستقبل قریب میں زرعی اجناس کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ نچلے اور متوسط طبقے کا ذریعہ معاش متاثر ہو رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے یہ پیشہ ایکو سسٹم میں بڑی تبدیلیوں کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے اور مجبوراً لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے‘ جس کی آبادی 2.4 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اگر اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے موثر اقدامات نہ کئے گئے تو نہ صرف ملک کے اقتصادی ڈھانچے پر منفی اثرات ہوں گے بلکہ اس سے ملک کے ماحولیاتی مسائل بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں‘ لہٰذا بطورِ قوم اجتماعی رویے میں تبدیلی لا کر گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی تمام تدابیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہو گا تاکہ اپنے ملک کی خوبصورتی کو بچانے کے ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کو خوبصورت ملک کا تحفہ دیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں