مادری زبان اور فکری نشوو نما

زبانیں انسانی تنوع کی بڑی علامتوں میں سے ایک ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ انسانوں کا دنیا کو سمجھنا‘ اس سے تعلق رکھنا‘ اس کا احساس کرنا اور اسے محسوس کرناحیران کن طور پر مختلف طریقے سے ممکن ہے ۔ زبانیں ایک ایسا خزینہ ہیں جن میں اقوام عالم کی اجتماعی تاریخ‘ علم‘ تصورات اور اقدار پوشیدہ ہیں۔ زبانیں سائنسی بصیرت ‘دانش مندی اور معاشرتی طرز عمل ہیں جوانسانی تہذ یبوں کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک لے جاتی ہیں۔یہ انسانی تاریخ کی سب سے اہم ترقی ہے جو زندگی اور کامیابی کے درمیان ایک مضبوط کڑی ہونے کی وجہ سے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یہ سوچنے اور برتاؤ کرنے کا طریقہ ہے جس کی تشکیل معاشرے اور ثقافت سے ہوتی ہے اس لئے اس کی اہمیت خیالات کے اظہار اور ابلاغ سے کہیں زیادہ ہے۔ زبان انسانوں کی زندگیوں پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر ڈالتی ہے ۔ یہ ہمارے آس پاس کی دنیا کو خواہشات اور احساسات کا اظہار فراہم کرتی ہے ۔ فکری ترقی میں زبان کا کردار اور اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ اس وقت دنیا میں چھ ہزار سے زائد زبانیں بولی جارہی ہیں لیکن ان میں سے بعض معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ زبان کی تبدیلی اور بتدریج مقامی زبان کو غیر ملکی زبان کے حق میں چھوڑ دیا جانا مقامی زبانوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔ نوآبادیاتی عہد کے عروج میں زبانوں کوMarginalized کیا گیا۔ ثقافتی انضمام کے عمل کی وجہ سے مقامی زبانیں تیزی سے معدوم ہوئیں۔ نوآبادیاتی نظام کی باقیات کے طور پر پیدا ہونے والے عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی تاریخ میں زبانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ اقوام متحدہ نے زبانوں کی اہمیت اور گلو بلا ئز یشن کی وجہ سے زبانوں اور ان سے وابستہ تہذیبوں کا لا حق خطرے کو محسوس کرتے ہوئے 2008ء اور پھر 2019ء کوزبانوں اور مقامی زبانوں کے سال قرار دیا تھا اور اب 2032-2022 ء کی دہائی کو مقامی زبانوں کی دہائی قرار دیا ہے تاکہ ان زبانوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ مقامی زبانوں کو محفوظ رکھنے سے سماجی ہم آہنگی ‘ ثقافتی حقوق‘ پائیدار ترقی اور حیاتیاتی تنوع کا بھی تحفظ کیا جاسکے گا۔
زبانوں کے تنوع کے باوجود آج دنیا کی نصف آبادی محض 23 زبانیں بولتی ہے اور تین ہزار سے زائد زبانیں خطرے سے دوچار ہیں یعنی کرۂ ارض کے موجودہ لسانی تنوع کا تقریباً نصف خطرے میں ہے ۔ زبان مرجاتی ہے کیونکہ لوگ اسے سماجی دباؤ اور آبادیاتی تبدیلی کے وجہ سے بولنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کوئی زبان معدوم ہوتی ہے تو ہم انسانی ارتقا کی پہیلی کا ایک ا ہم حصہ کھودیتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً نصف زبانوں کی کوئی تحریری شکل نہیں ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان میں ثقافت‘ تہذیب ‘تمدن و ادب موجود نہیں۔غیر تحریری زبانیں ادبی روایات سے مالامال ہیں جیسے کہانیاں‘ گیت ‘ شاعری وغیرہ ۔ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں انسان کی زندگی کو آسان اور پر آسائش بنادیا ہے وہیں یہ دنیا کی رنگا رنگ اور متنوع ثقافتوں اور زبانوں کے لیے خطرہ بھی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کے لیے نوجوان اپنی زبان وتمدن سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس کا اثر اگلی نسلوں تک بڑھے گا ۔
جنوبی ایشیا دنیامیں سب سے زیادہ پیچیدہ اور متنوع زبانوں اور بولیوں والا خطہ ہے ۔ اس خطے میں ہزاروں زبانیں اور بولیاں ہیں جن کو لاکھوں لو گ بولتے ہیں یا صرف چند سو لوگ۔ کثیر لسانی اورکثیر ثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے اپنی روایات‘ روایتی علم اور تہذیب کو اگلی نسل تک پائیدار طریقے سے منتقل کرتے ہیں۔ آج یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ زبانیں باہمی تعاون مضبوط کرنے ‘ معاشروں کی تعمیر‘ ثقافتی ورثے کے تحفظ اور سیاسی تحریک کو متحرک کرنے میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔زبان سیکھنا بچپن کا ایک جادوئی عمل ہے جو بچے کو ناقابلِ یقین طریقے سے زبان کو سمجھنے‘ اس پر عمل کرنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے ۔بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس زبان نہیں ہوتی لیکن وہ آہستہ آہستہ الفاظ کے استعمال سے قبل ہی زبان تیار کرنا شروع کردیتا ہے ۔تین سے چھ برس کی عمر کے دوران بچے کے ذخیرۂ الفاظ میں تیزی سے اضافہ ہوتاہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد جو پہلی زبان وہ سنتا ہے وہ اس کی ماں کی آواز ہوتی ہے۔ زیادہ تر وقت بچے سے بات کرنے والی شخصیت اس کی ماں ہوتی ہے ۔بچے کی ذہنی و نفسیاتی تشکیل پر اس تعلق کے گہرے نقوش ثبت ہوتے ہیں اور اس کی فکری نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ماں کی زبان ایک فرد کی شخصیت پر زبردست اورمثبت اثر ڈالتی ہے اور اسے پُراعتماد بناتی ہے ۔ ماہرین تعلیمی نفسیات کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر ابتدائی تعلیم کا ذریعہ دوسری زبان ہوتو اس سے بچوں کے ذہنوں میں نفسیاتی الجھن پیدا ہوتی ہے اور اس وجہ سے اسے پہلی (مادری زبان) اور دوسری (تعلیم ادارے میں پڑھائی جانے والی زبان) زبانوں کے ساتھ ساتھ علم پر عبور حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مادری زبان وہ ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد اسے سننے کو ملتی ہے اور یہ اس کے احساسات اور خیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مدد کرتی ہے ۔ مادری زبان کو سیکھنا تنقیدی سوچ کی مہارتوں اور دوسری زبانوں کو سیکھنے اور خواندگی کی مہارتوں کو بہتر بنانے کیلئے بھی بہت ضروری ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مادری زبان کو سیکھنے کے ایک مفیدٹول کے طورپر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
زبان کسی فرد کی شخصیت‘ اس کے فکری عمل اور اردگرد کی زندگی اور دنیا کے وسیع ترنظریے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ موجودہ مسابقتی ماحول میں رسمی تعلیم کیلئے مادری زبان کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ ز بان ابلاغ سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ اس میں ہماری اقدار اور شناخت پیوست ہیں۔ جب ہم مادری زبان میں بات کرتے ہیں تو دل ‘ دماغ اور زبان کے درمیان براہ راست رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔ انسانی دماغ بچپن اور بعد کی زندگی میں سیکھی گئی زبانوں کو مختلف طریقے سے جذب اور یاد کرتا ہے ۔ مادری زبان وہ زبان ہے جسے کوئی فرد سوچنے ‘ خواب دیکھنے اورجذبات کو محسوس کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے ۔ کئی نفسیاتی‘ سماجی اور تعلیمی تجربات نے ثابت کیا ہے کہ مادری زبان کے ذریعے سیکھنا زیادہ مستحکم ‘ تیز اور زیادہ مؤثر ہوتا ہے ۔ فرد کے مستقبل کی سماجی اورفکری نشو ونما کا زیادہ تر حصہ مادری زبان کے سنگ میل پر منحصر ہوتا ہے ۔ تعلیمی تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مادری زبان کی نامکمل مہارتیں اکثر دوسری زبانیں سیکھنا زیادہ مشکل بنادیتی ہیں۔ تعلیمی ماحول میں طلبا کی فکری نشوونما ان کے ذہنوں کو توازن‘ تخلیقی صلاحیتوں اورعلم کی توسیع کی طرف لے جانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم منظم بنیادوں پر ہو۔ مادری زبان سے ناواقف رہنے سے دوسری زبان سیکھنے کی جستجو ختم ہوجاتی ہے ۔
دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان ایک خاص ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے اور ایک اثاثہ ہے۔ ایک مناسب مرحلے پر دوسری زبان سیکھنے سے دنیا کو کھلے ذہن سے سمجھنے ‘ دوسروں کے نقطہ نظر کی بہتر تفہیم ‘ امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے سماجی فوائد کے علاوہ‘ برین سائنسز کے مطابق‘ بڑھتی عمر کے ساتھ کمزور پڑتی یادداشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں