آذر بائیجان یورپ اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع خطہ قفقاز کا ایک اہم ملک ہے جس کی سرحدیں آرمینیا، ترکی، ایران، جارجیا اور روس سے ملتی ہیں اور مشرق میں بحیرہ ٔکیسپین کی خوبصورت ساحلی پٹی واقع ہے ۔ قدرتی خوبصورتی اور متنوع خطوں کا حامل یہ ملک روایات اور جدیدیت کا امتزاج پیش کرتا ہے ۔ دیہی علاقوں میں قدیم روایتی و ثقافتی زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں تو شہروں میں جدید طرزِ زندگی کے نقوش نمایاں ہیں۔ ملک کی معیشت کا زیادہ دارومدار تیل کی صنعت پر ہے ۔ آذربائیجان کا دارالحکومت باکو بیس لاکھ آبادی کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا شہر اور تیل کی صنعتوں کا مرکز ہے ۔ شاہانِ نوشیروان کے محلات بھی اسی شہر میں واقع ہیں ۔2000ء میں یونیسکو نے باکو کے وسط میں واقع قدیم شہر کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ۔ تاریخ میں اس شہر کا ذکر چوتھی صدی سے ملتا ہے ۔
گنجہ آذربائیجان کا دوسرا بڑاشہر ہے ۔جس کی آبادی تقریباً چار لاکھ ہے ۔ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز ہے ۔ اس شہر کی بنیاد عباسی خلیفہ المتوکل (206-247ھ) کے عہد میں اس خطے کے عرب گورنر نے رکھی تھی۔ جمال الدین ابومحمد الیاس بن یوسف المعروف نظامی گنجوی (1209۔1141ء)‘ جو دنیائے علم و ادب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور آذربائیجان کے قومی شاعر ہیں‘ کی جائے پیدائش بھی یہی شہر ہے ۔ یہ شہر 12ویں صدی میں سائنس و فلسفے کا مرکز تھا۔ نظامی کی تخلیقات نے منفرد شاعرانہ اختراعات اور آفاقی موضوعات سے نہ صرف معاصرین بلکہ بعد میں آنے والے شعراو ادبا کو بھی متاثر کیا۔ مشرقی نشاۃثانیہ کے نمائندہ اس شاعر نے اپنے جمالیاتی و فلسفیانہ افکار کو پنج گنج (خمسہ) میں پیش کیا ہے ۔ پنج گنج پانچ مثنویوں یعنی مخزن الاسرار (1175ء)، خسروشیریں (1180ء)، لیلیٰ و مجنوں (1188ء)،ہفت پیکر (1197ء) اور اسکندر نامہ (1203ء) کا مجموعہ ہے ۔ انسان دوستی اور اخلاقی اقدارنے نظامی کے کلام کو لافانی بنادیا ۔ نظامی گنجوی کے کلام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔وسطی ایشیا، ایران، ترکی اور برصغیر کے شعر و ادب پر نظامی گنجوی کی فکر کے اثرات گہرے ہیں۔ ان کی پنج گنج کا اثر فارسی شعرا پر ہی نہیں عربی، ترکی، کُردی اور اردو شعرا پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں‘ جیسے امیر خسرو، عبدالرحمن جامی، بیدل،محمد سلیمان اوگلو فضولی اور عماد الدین نسیمی وغیرہ۔ عبدالرحمن جامی اپنی تصنیف بہارستان میں نظامی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نظامی کی فضلیت سورج سے زیادہ عیاں ہے ۔
2020ء میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کا راباخ کے دیرینہ تنازع پرہونے والی جنگ کے دوران جب آرمینیا کو اپنی واضح شکست نظر آنے لگی تواس نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گنجہ شہر پر میزائل حملہ کردیا۔ ان حملوں میں درجنوں شہری مارے گئے اور مکانات تباہ ہوئے ۔ بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق تنازعات کے علاقے سے باہر کے علاقوں پر حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن آرمینیا 90ء کی دہائی سے لے کر آج تک اس نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرتا آرہا ہے کیونکہ اسے کبھی بھی ان جرائم کے ارتکاب پر عالمی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نگورنو کارا باخ کا خطہ 1918ء سے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازعے کا سبب ہے ۔ نگورنو کاراباخ جنوبی قفقازمیں ایک علاقہ ہے جو باضابطہ طور پر آذر بائیجان کا حصہ ہے اور اس کی جغرافیائی حدود کے اندر واقع ہے ۔ آذربا ئیجان کے حق میں اقوام متحد ہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں جن پر عمل درآمد کے حوالے سے عالمی طاقتیں ویسے ہی خاموش ہیں جیسا کہ مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں کی نسل کشی کی جاری ہے۔
نگورنوکاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے مجموعی رقبے کا دس فیصد ہے ، 1988ء میں سوویت یونین کے انہدام سے قبل ہی آرمینیا نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔یہ عمل دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی کو جنگ میں تبدیل کرنے کا سبب بنا۔ یہ جنگ 1991ء میں ان ریاستوں کی آزادی کے بعد 1994ء تک جاری رہی ۔چھ سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں تیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑکر ہجرت کرنا پڑی ۔ خوجالی شہر میں آرمینیائی فوج نے آذری آبادی کا بہیمانہ قتل کیا اور 20فیصد مزید آذری علاقے پر بھی قبضہ کرلیا۔ جنگ تو روس ، فرانس اور امریکہ کی ثالثی کی وجہ سے ختم ہوئی لیکن دونوں ملک کسی معاہدے پر دستخط کرنے پر متفق نہ ہوسکے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان پُر تشدد سرحدی جھڑپیں ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آذربائیجانی نژاد آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور منصوبے کے تحت یہاں آرمینیائی باشندوں کو آباد کیا گیا تاکہ ان کی مصنوعی اکثریت بنائی جاسکے ‘یہی طریقہ کار بھار ت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنایا ہوا ہے تاکہ مقامی لوگوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے ۔ اس طرح علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کردی جائے گی۔ نگورنوکاراباخ کے تنازعے پر 2016ء میں بھی ان ملکوں کے درمیان چار روز تک محدود جنگ جا ری ر ہی تھی ۔پچھلے تیس سال کے دوران اس تنازعے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں ۔
خام تیل کی پیداوار میں اضافے اور پٹرولیم مصنوعات کی صنعت میں ترقی سے آذربائیجان معاشی اور عسکری طور پر مضبوط ہو ا ہے ۔اب آذربائیجان وہ ملک نہیں رہا جسے 1994ء میں آرمینیا نے شکست دے کر کاراباخ کے علاوہ اردگرد کے سات دیگر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ 27ستمبر 2020ء کو ایک بار پھر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے بڑی جنگ کی صورت اختیار کر لی اور یہ جنگ چھ ہفتوں سے زیادہ جاری رہی۔ پاکستان اور ترکی نے آذربائیجان کے اصولی موقف کی عالمی فورم پر کھل کر حمایت کی ۔ آذربائیجانی افواج نے بہادری کے ساتھ اپنے ملک کی سرحدوں کا دفاع کیا اور پہلی نگورنوکا راباخ جنگ کے دوران کھوئے گئے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ نگورنو کاراباخ کے بڑے شہر شوشا (Shusha)کو بھی آزاد کروالیا ۔یہ شوشا شہر کی فتح ہی تھی جس نے آرمینیا کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا۔ 9نومبر کو روس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق ہوگیا۔ اس معاہدے کے تحت آرمینیا کا نگورنو کا راباخ پر فوجی کنٹرول ختم ہوگیا ہے اور روسی امن فوج کو پانچ سال تک خطے کی حفاظت کی اجازت دی گئی ۔ معاہدے میں آذربائیجان نے یہ ضمانت دی ہے کہ آرمینیا کو Xankandiکے علاقے تک رسائی Lachinکو ریڈور کے ذریعے دی جائے گی جس کی نگرانی روسی امن فوج کرے گی۔ آذربائیجان کی پوزیشن کا راباخ کی فتح سے مضبوط ہوگئی ہے ۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اس معاہدے کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے ۔ 10نومبر کویوم فتح کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کامیابی سے آذری قوم کا مورال بہت بلند ہوا ہے ۔
موجودہ جیو پالیٹکس میں آذربائیجان کی اہمیت بڑھ گئی ہے کیوں کہ آذربائیجان یومیہ آٹھ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتاہے اور یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے ۔اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے دو راستے ہیں‘ ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوبی قفقاز سے ہو کر ترکی سے گزرتا ہے ۔2018ء میں ٹرانس اناطولین نیچرل گیس پائپ لائن کا افتتاح ہوا ۔ اس پائپ لائن نے یورپ کی انرجی مارکیٹ پر روس کا انحصارکم کر دیا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے ۔ یورپ کی یہ خواہش آذربائیجان کی اہمیت کو مزید بڑھانے کے ساتھ ساتھ روس اور آذربائیجان میں کشیدگی کو جنم دے کر خطے کے امن کے لیے خطرے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔