شرم الشیخ کانفرنس

مصر کا ساحلی شہر شرم الشیخ‘ اِن دنوں وہاں جاری اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس COP27 کی وجہ سے پوری دنیاکے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2016ء کے بعد موسمیاتی مسائل کے حوالے سے یہ افریقہ میں منعقد ہونے والی پہلی سربراہی کانفرنس ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات براعظم افریقہ میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 100ملین سے زیادہ افریقی باشندے اس سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں 90کے قریب سربراہانِ مملکت اور 35 ہزار نمائندے اور مندوبین شریک ہیں۔ مذکورہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے جب دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے 1992ء ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو بھانپتے ہوئے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNCCC) کی توثیق کی تھی۔ اس کنونشن پر ابتدائی طور پر 154ممالک نے دستخط کیے تھے اور اب اس کے رکن ممالک کی تعداد 198ہے۔ 1995ء سے ہر سال کلائمیٹ چینج کے حوالے سے اقوام متحدہ ایک کانفرنس منعقد کرتا ہے‘ اس سلسلے میں 2015ء کا پیرس معاہدہ اقوام متحدہ کی بڑی کامیابی تھا۔ دو ہفتے تک جاری رہنے والی 27ویں سالانہ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات‘ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ‘ سمندری آلودگی اور سمندری حیات کو درپیش خطرات‘ آبی ماحولیاتی نظام‘ جنگلات کا تحفظ‘ ریگستان کی حیاتیات‘ جزیروں کو درپیش خطرات وغیرہ زیر غور آئے۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد مذاکرات اور منصوبہ بندی سے عملدرآمد کے مرحلے کی طرف بڑھنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔ پیرس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کوکم کرنے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے گا اور اس فنڈ کے لیے 100 بلین ڈالر سالانہ مہیا کیے جائیں گے۔ اس فنانسنگ کا ہد ف اب تک حاصل نہ کیا جا سکا‘ اب اس ہدف کو 2023ء تک حاصل کرنا ہے۔ عالمی ادارے کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔ کیا ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں کیے گئے اپنے وعدے پورے کریں گے؟ 100بلین ڈالر اُس نقصان سے کہیں کم ہیں جس کوکمزور‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ برداشت کر رہے ہیں۔ کرۂ ارض کے قدرتی ماحول کو خراب کرنے میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ بہت کم ہے لیکن ان ملکوں کے عوام کو سب سے زیادہ اس تبدیلی سے ہونے والی تباہی اور نقصان کا سامنا ہے۔ موسمیاتی جھٹکوں سے ہونے والے نقصان کی بھر پائی شرم الشیخ کانفرنس کے عارضی ایجنڈے میں شامل ہے‘ ترقی پذیر ممالک کو مل کر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس شق کو فریم ورک کنونشن آن کلا ئمیٹ چینج کے مستقل ایجنڈے میں شامل کر لیا جائے تاکہ غریب ممالک میں بسنے والے انسانوں کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
طویل المدتی موسمیاتی رسک انڈیکس میں شامل 10ممالک میں سے 3 کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے یعنی بنگلہ دیش‘ نیپال اور پاکستان۔ اس سال پاکستان میں آنے والا سیلاب گزشتہ سیلابوں کے بنسبت 50فیصد زیادہ شدید تھا جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا اور سوا تین کروڑ افراد اس سے شدید متاثر ہوئے۔ تعمیر نو کے لیے ایک انداز کے مطابق 16بلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ ملک کا بیشتر حصہ ابھی تک زیرِ آب ہے اور جن علاقوں سے پانی اترگیا ہے وہاں بھی زندگی پوری طرح بحال نہیں ہو سکی۔ سردی کے موسم نے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے بڑی رقم کی ضرورت ہے اور ملک کی کمزور معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں آنے والا یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے حوالے سے دنیا کے لیے ایک ''ویک اَپ کال‘‘ ہے۔ جنوبی ایشیا تیزی سے متواتر اور شدید موسمی حالات کا سامنا کررہا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کو سالانہ تقریباً 160 بلین ڈالر کے نقصان کا اندیشہ ہے اور اگلی تین دہائیوں میں خطے کے 4 کروڑ باشندے آب وہوا کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
زمین کے درجہ حرارت اور موسم میں طویل مدتی تبدیلیاں قدرتی بھی ہوتی ہیں جیسے شمسی دورانیے میں تغیرات وغیرہ لیکن انیسویں صدی سے انسان نے کوئلے‘ تیل اور گیس کے استعمال میں حد درجہ اضافہ کردیا ہے جو آب و ہوا میں تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔ فوسل ایندھن کے بے دریغ استعمال نے قدرت کو جو نقصان پہچایا ہے اس کے سبب باربار شدید خشک سالی‘ طوفان‘ گرمی کی لہریں‘ سطح سمندر میں اضافہ‘ سمندروں کا گرم ہونا‘ گلیشیرز کا پگھلنا اور جنگلات میں لگنے والی آگ جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی مسلسل خطرے کا باعث ہیں۔ ان تبدیلیوں سے انسان کی معاش اور معاشروں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ہر ملک‘ ہر براعظم میں زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کے باوجود ان تبدیلیوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے عالمی کوششیں ناکافی ہیں۔ ترقی یافتہ اور امیر ممالک اپنے وعدوں کا احترام کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے‘ ان کا یہ عمل عالمی ادارے پر سے لوگوں کے اعتماد کوکم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر سوچ اور عمل کرنے کا وقت ہے‘ اگر ہم نے یہ وقت ضائع کردیا توکرۂ ارض پر حیات کا خاتمہ نہیں روکا جا سکے گا۔ پچھلے 200 سالوں سے انسانوں کے ہاتھوں جس طرح کرۂ ارض کے وسائل کا اندھا دھند استعمال اور استحصال ہوا ہے‘ اب اس کے منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6.2 کے تحت‘ تعاون پر مبنی نقطۂ نظر کے بارے میں رہنمائی اور گلاسگو (COP26) میں طے پانے والے آب وہوا کے معاہدے میں ذکر کردہ تخفیف کے عزائم پر فوری طور پر عمل در آمد کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ‘ ترقی پذیر ممالک اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ترقی یافتہ معیشتیں فوسل فیول کمپنیوں کے ونڈ فال منافع پر ٹیکس لگائیں اور ان فنڈز کو نقصان کے شکار ممالک کے لیے مختص کریں۔ یہ سوال اس کانفرنس میں گردش کرتا رہا کہ کیا ترقی یافتہ ممالک ہر سال 100 بلین امریکی ڈالر دے کر کلائمیٹ فنانس کو متحرک کرنے کے اپنے عزم پر پورا اتریں گے؟ اس سوال کا جواب بھی اس کانفرنس میں نہیں دیا گیا۔
سالانہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج تقریباً دوگنا ہوگیا ہے۔ فوسل فیول کے دور کے آغاز سے لے کر اب تک ہونیو الے مجموعی اخراج کا نصف تقریباً پچھلے 30 سالوں میں ہوا ہے۔ 2015ء میں پیرس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے گزشتہ سات سال زمین کے لیے سب سے زیادہ گرم رہے ہیں۔ ہمیں اس سنگین حقیقت کا سامنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کا ہدف پہلے سے کہیں زیادہ دور اور ممکنہ طور پر پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ موسمیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس صدی کے اختتام تک کرۂ ارض کا درجہ حرارت 2 ڈگری سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں انتہاپسندی‘ مسلح تنازعات‘ شدید قوم پرستی‘ غربت‘ پسماندگی اور بڑھتے ہوئے سماجی تناؤ کی وجہ سے یہ دباؤ بڑھ گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے وعدوں کو پس پشت ڈالنے سے گریز کیا جائے کیونکہ وعدوں اور باتوں سے آگے بڑھ کرکچھ کرنا ہوگا وگرنہ بڑھتے ہوئے انسانی مصائب کے ساتھ دنیا آب وہوا کے جہنم کی طرف جارہی ہے۔ شر م الشیخ کانفرنس کا آج آخری روز ہے اور امید یہ کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ریاستیں عالمی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حتمی فیصلے اور اس پر عملدرآمد پر پہنچ جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں