ایران سعودی معاہدے سے وابستہ امیدیں

یمن میں 2015ء سے جاری خانہ جنگی کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ بھوک اور افلاس انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ آٹھ سال سے جاری اس خانہ جنگی میں اپریل 2022ء کو اقوام متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس جنگ بندی کی میعاد اکتوبر میں ختم ہوگئی تھی۔ حوثی متحارب گروپ اور سعودیوں کے درمیان بیک چینل مذاکرات دوبارہ شروع ہیں جو کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں مثبت پیش رفت کی عکاسی کرتے ہیں۔ چین کی ثالثی میں ان ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے سے ایک طرف یمن میں قیامِ امن کی امید بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ممکنہ طور پر وسیع مضمرات ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں فریقین نے 22 سال قبل دستخط کیے گئے سکیورٹی معاہدے کو دوبارہ نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے تحت دونوں ملکوں نے دہشت گردی‘ منشیات کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھا م کیساتھ ساتھ 1998ء کے تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاہدے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ریاستوں کی خود مختاری کے احترام و اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی توثیق کی گئی ہے۔ چین کے نمائندہ وانگ یی نے اس معاہدے کو امن کی فتح قرار دیا ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان دیرینہ سٹریٹجک تعلقات یمن جنگ اور تیل کی پیداوار کے حوالے سے سرد مہری کا شکار ہیں جبکہ اس کے برعکس تین ماہ قبل چینی صدر شی جن پنگ کے ہائی پروفائل دورے سے چین اور سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مزید مضبوط ہوئے ہیں بلکہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ تاریخی طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کی کئی وجوہات ہیں جن میں جغرافیائی‘ سیاسی‘ خطے میں بالادستی کی دوڑ‘ مذہبی مسائل اور تیل کی برآمد کی پالیسی وغیرہ شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ان بڑے ممالک کے دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی 2016ء میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب سعودی عرب میں ایک عالم کو پھانسی دی گئی اور ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ سعودی تیل کی تنصیبات پر میزائل و ڈرون حملوں اور خلیج فارس میں آئل ٹینکروں پر حوثی متحارب گروپ کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا۔
تیل و قدرتی گیس سے مالامال سعودی عرب اور ایران مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک پر گہرا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ تیل کا بڑا برآمد کنندہ ہونے کے سبب سعودی عرب کی معیشت بہت مضبوط ہے جبکہ ایران تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے باوجود ایک عرصے سے اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کررہا ہے۔ ان پابندیوں نے اس کی معیشت کو کمزور کر دیا ہے۔ 2015ء میں امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ طے پا گیا تھا جسکے ایرانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے 2018ء میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ موجودہ امریکی صدر نے اقتدر میں آتے ہی ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کیے مگر جو بائیڈن انتظامیہ اور ایران کے درمیان 2015ء کے مشترکہ جامع منصوبہ برائے امن کوبحال کرنے کی کوششیں ابھی جاری تھیں کہ روس یوکرین جنگ میں ایران کے روسی دھارے میں رہنے کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں بلکہ مزید طاقت کے استعمال کا آپشن بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات میں ناکامی اور روس کو اسلحے کی برآمدات کی وجہ سے یورپی یونین بھی ایران سے دور ہوگئی ہے۔
امریکہ علاقائی تنازعات میں تیزی سے فریق بن رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کیلئے امن ساز کا کردار ادا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔چین نے سعودیہ اور ایران تنازعات کے دوران کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ غیر جانبدار رہتے ہوئے امن قائم کرنے کیلئے کردارادا کیا۔ ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی چین کی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکی میڈیا یہ رپورٹ کررہا تھا کہ اسرائیل اور ایران جنگ کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ چین کے اسرائیل‘ ایران اور سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں جبکہ امریکہ کے ایران کیساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور وہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس لیے وہ ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ بدلتے ہوئے عالمی نظام کی ایک وسیع تر علامت ہے کہ کس طرح سرد جنگ کے بعد امریکہ کا عالمی سپرپاور ہونے کا دور ختم ہو رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ چین کے عروج کو 21ویں صدی کا سب سے بڑا واحد جیوپولیٹکل چیلنج قرار دیتی ہے اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کو 619ملین ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری کے خلاف چین کا سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران سعودی عرب معاہدے کا جہاں زیادہ تر ممالک نے خیر مقدم کیا ہے‘ وہیں اسرائیل کے سابق وزیراعظم نفتالی بینٹ نے اس معاہدے کو ایران کے خلاف علاقائی اتحاد بنانے کی اسرا ئیلی کوششوں کے لیے دھچکا اور اسے اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ چین مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں سیاسی مداخلت کے بجائے اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ چین کی یہی پالیسی اسے امریکہ سے منفرد بناتی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان عراق اور عمان کی میزبانی میں 2021ء سے مذاکرات جاری تھے۔ ان دونوں اسلامی ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کی واپسی خطے کے امن‘ ترقی اور عالم اسلام کے لیے خوش آئند ثابت ہوگی۔ اس تاریخی معاہدے کا اعلان اس دن سامنے آیا جب شی جن پنگ تیسری مدت کے لیے چین کے صدر منتخب ہوئے۔ ایران سعودی معاہدے میں چین کی کامیاب ثالثی بڑی طاقتوں کو یہ پیغام ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا مرکز بدل رہا ہے۔ تہران کے لیے یہ معاہدہ بین الاقوامی تنہائی‘ مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو مثبت طور سے کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے میں یہ معاہدہ ایران کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے یہ دونوںممالک لبنان میں سیاسی مفاہمت میں مدد کر سکتے ہیں۔ لبنان اس وقت غیرمعمولی مالیاتی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے سے سعودی عرب اور شام کے درمیان تعلقات میں بہتری آجائے گی۔ ایران سعودی عرب معاہدے کیلئے چین کی کوششیں‘ بدلتے ہوئے عالمی نظام کی وسیع تر علامات میں سے ایک ہیں۔ یہ معاہدہ دنیا کے مختلف خطوں میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ‘ سرمایہ کاری اور اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا ثبوت ہے۔چین کی یہ کامیابی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی اقتصادی بحران نے مضبوط معیشتوں کو بھی کمزور کردیا ہے اوراس کی وجہ سے دنیا انتشار کا شکار ہے۔ بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے چین کے تعمیری کردار کو ناقابلِ فراموش ہوتا دیکھ کر خود کو طاقت کا محور سمجھنے والی ریاستیں تشویش میں مبتلا دکھائی دے رہی ہیں۔ چین کی میزبانی میں ایران سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ آپسی غلط فہمیاں دور کرنے‘ علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ جس کے یقینا خطے اور عالمی سیاست پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں