منڈیلا کے دیس میں برکس سمٹ

نیلسن میڈیلا کا دیس جنوبی افریقہ‘ جو نسل پرستی اور استعماریت کے خلاف ایک طویل صبر آزما جدوجہد کی تاریخ کا امین ہے‘ نے 22تا 24 اگست کو برکس گروپ کے 15ویں سمٹ کی میزبانی کی۔ دنیا میں اب جیو پالیٹکس کی جگہ جیو اکنامکس نے لے لی ہے۔ معاشی ضروریات کے پیش نظر اب ہوا‘ پانی اور پرندوں کی طرح دنیا کے ممالک بھی جغرافیائی و ثقافتی قید و بند سے کسی حد تک آزاد دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جیو اکنامکس کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ نیٹ ورک کہ اندر سرحدوں اور براعظموں کے انضمام میں اپنی اہمیت و اہداف کے حصول کیلئے تمام مسائل کو گڈمڈ کرنے کے بجائے الگ الگ رکھ کر حل تلاش کرنے والی ریاستیں ہی مستحکم رہ سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں چین ایک بہترین مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ چین کا انڈیا کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازع موجود ہے۔ 2020ء سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی بہت زیادہ ہے‘ اس کے باوجود پچھلے سال انڈیا نے چین سے 55 ارب ڈالر سے زائد کی اشیا درآمدکیں۔ چین کی پالیسی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جیوپالیٹکس اور جیو اکنامکس ایسے ٹولزہیں جنہیں ایک دوسرے کے سیاق وسباق میں رکھتے ہوئے استعمال کیا جائے تو دنیا کے بارے میں ایک نیا اور زیادہ وسیع وژن حاصل کرنے کے قابل ہوا جا سکتا ہے۔
چین اپنے اس وژن کو عملی صورت دینے کے لیے 2009ء میں ایک عالمی گروپ ''برک‘‘ ( برازیل‘روس‘ انڈیااور چین) کی تشکیل دینے میں کامیاب رہا۔ 2010ء میں اس بلاک میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہو گیا۔ برکس (BRICS) کے ممبر ممالک میں دنیا کی 40فیصد سے زیادہ آبادی بستی ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا 24فیصد اور عالمی تجارت میں برکس کا حصہ 16فیصد بنتا ہے۔ یہ گروپ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے جو مل کر عالمی نظام کو چیلنج کرنے اور اس کو تبدیل کرنے کے خوا ہاں ہیں۔ برکس ممالک کے جنوبی افریقہ میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں روس کی نمائندگی اس کے وزیر خارجہ نے کی اور روس کے صدر نے وڈیو لنک کے ذریعے اس سمٹ میں شرکت کی۔ ممبر ممالک کے سربراہان کے علاوہ 67دیگر ممالک کے سربراہان اور وفود نے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی۔
برکس کے اس 15ویں سمٹ کا موضوع ''برکس اور افریقہ‘‘ تھا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ تسلط پسندی چین کے ڈی این اے میں نہیں ہے‘ انہوں نے اپنے خطاب میں ترقی کے ثمرات سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے منصفانہ عالمی نظام پر زور دیا اور بلاک محاذ آرائی کو مسترد کرتے ہوئے برکس میں مزید ممبران کو شامل کرنے کا اعادہ بھی کیا۔ یاد رہے کہ برکس کے حالیہ اجلاس سے قبل ہی 40سے زیادہ ممالک جن میں سعودی عرب‘ ایران‘ متحدہ عرب امارات‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ الجزائر‘ نائیجیریا اور ارجنٹائن وغیرہ شامل ہیں‘ نے گروپ میں شامل ہونے کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
برکس سمٹ کے ایجنڈے میں شامل 5نکات ایسے ہیں جن پر پوری دنیا کے مبصرین کی نظر تھی۔ 1:برکس کی رکنیت میں توسیع‘ تاکہ پانچ ممبر کے بجائے ایک بڑی ٹیم بن سکے۔ 2:مشترکہ کرنسی۔ 3:نیو ڈویلپمنٹ بینک (NDB) (جس کے ذریعے ممبر ممالک کو 2026ء تک قرض مقامی کرنسیوں میں دینے کے امکانات پر غور‘ بینک کی فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے کے منصوبوں پر بحث)۔ 4: یوکرین: یوکرین پر روس کے حملے کی چین‘ جنوبی افریقہ اور انڈیا نے ابھی تک مذمت نہیں کی جبکہ برازیل نے یوکرین کو ہتھیار بھیجنے‘ ماسکو پر پابندیاں لگانے میں مغربی ممالک کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔ یوکرین کے مسئلے کو اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کو امریکا اور یورپ بغور دیکھ رہے ہیں۔ 5: فوڈ سکیورٹی: اشیائے خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا کے اربوں غریب ترین لوگوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انڈیا اور روس کے اقدامات کے پس منظر میں فوڈ سکیورٹی کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا۔ انڈیا جو دنیا کی چاول کی تجارت کا 40فیصد کا حصہ دار ہے‘ نے اپنی مقامی مارکیٹ کو محفوظ رکھنے کے لیے چاول کی بر آمدات پر پابندیاں بڑھا دی ہیں۔ روس یوکرینی اناج کی برآمدکو محفوظ راستے دینے والے معاہدے سے نکل گیا ہے۔ چاول ایشیائی اور افریقیوں کی خوراک کا اہم حصہ ہیں اور یہاں کے لوگ اپنی غذائی ضروریات کا 60فیصد چاول سے حاصل کرتے ہیں۔
موجودہ عالمی نظام جس کی نقش گری دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہوئی‘ اس میں مالیاتی سسٹم کچھ اس طرح تشکیل دیا گیا کہ مابعد نو آبادیات کی آزاد ریاستوں کی پالیسیوں اور پالیسی سازوں کو عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکے۔ اس نظام نے دنیا کو پولرائزڈ کر دیا ہے اور روس یوکرین بحران میں یہ پولرائز دنیا آزاد ممالک کو فریق بننے پر مجبور کر رہی ہے۔ برکس گروپ دنیا بھر کے ممالک خصوصاً افریقہ و گلوبل ساؤتھ کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ ان خطوں کو مزید تجارت‘ سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے مواقع میسر آئیں۔ برکس سمٹ میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے سربراہان کی شرکت اس حوالے سے اہم ہے کہ ان میں کیربین (Caribbean) لاطینی امریکہ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ مغربی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے رہنما شامل ہیں۔ برکس اور ترقی پذیر دنیا کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کو موثر بنانے کے لیے حقیقی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ یہ ادارہ دنیا میں امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کے قابل ہو۔
روس اور چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ نے برکس کے دیگر اراکین جنوبی افریقہ‘ انڈیا اور برازیل کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات بڑھانا شروع کیے ہیں۔ یورپی یونین‘ ترقی پذیر دنیا اور برکس ممالک سے روس کے یوکرین پر حملے کی مشترکہ مذمت کرانے کی کوششوں میں ناکام رہا ہے۔ گلوبل ساؤتھ میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ امریکہ پابندیوں کے ذریعے ڈالر کو ہتھیار بنا سکتا ہے جس طرح اس نے ایران اور روس کے خلاف کیا ہے۔ اس کی وجہ سے برکس ممالک انفرادی اور اجتماعی طور پر امریکی کرنسی پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
IMF اور ورلڈ بینک جیسے امریکی قیادت والے اداروں کے متبادل کے طور پر چین نے 2015ء میں نیو ڈویلپمنٹ بینک (NDB) کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا کہ جس نے گلوبل ساؤتھ کو بتایا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو چیلنج کرنا ممکن ہے۔ برکس ممالک آپس میں لین دین کے لیے ادائیگی کا نظام بنا رہے ہیں تاکہ مقامی کرنسی کو ڈالر میں تبدیل کیے بغیر تجارت کی جا سکے۔ یہ عمل مقامی کرنسیوں میں دو طرفہ تجارت کو آسان بنانے کے لیے متبادل کے طور پر سامنے آئے گا۔ ڈالر پر کم انحصار سے ترقی پذیر ممالک کی لیوریج میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گروپ آف فرینڈز آف دی گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو‘ جس کی بنیاد چین نے 2020ء میں رکھی‘ یہ اقوامِ متحدہ کے پیٹرن پر ایک نئے فورم کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس گروپ کے تقریباً 70 رکن ممالک ہیں۔ 2013ء سے اب تک چینی مالیاتی اداروں نے ترقی پذیر دنیا میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کا قرض دیا ہے۔ 1971ء میں Bretton Woods معاہدے کے خاتمے کے بعد یہ پہلاموقع ہے جب عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی گرفت کو توڑنے کی کوشش بڑھ رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اجتماعی طور پر مغرب اور امریکہ نے مل کر جس نظام کو رائج کرنے کے لیے قوائد و ضوابط وضع کیے تھے‘ چین کے صدر شی جن پنگ کے اقدامات اس نظام اور اس کے قوائد و ضوابط کو اَپ ڈیٹ کرنے کے لیے چین کے واضح ارادے کو ظاہر کر رہے ہیں‘ جس کے پیش نظر آنے والی دہائی تک عالمی معاشی و سیاسی نظام میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں