حکومتی پرفارمنس اور اپوزیشن کی تحریک

آج کل ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ٹوٹی ہوئی دوستی اور ٹوٹا ہوا آبگینہ دوبارہ جڑ سکتے ہیں؟ اردو شعرا نے تو نہ جانے کیا جواب دیا ہوگا مگر ایک انگریز شاعر کا جواب بڑا دوٹوک ہے۔ اس نے دوستی سمیت اعتماد کے ہر رشتے کو شیشے سے تشبیہ دی ہے اور ''مکدی گل‘‘ یہ بتائی ہے کہ
Once broken can be mended
But the crack is always there
کہ ٹوٹی ہوئی دوستی جڑ تو سکتی ہے مگر ٹوٹنے کا نشان ہمیشہ وہاں رہتا ہے۔
پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ وزیراعظم کے ساتھ جتنے آئیڈیل تعلقات رہے ہیں ایسے شاید کسی اور سربراہ کے ساتھ نہیں تھے۔ اس نے داخلی و سفارتی ہر محاذ پر خان صاحب کے الجھائے ہوئے کاموں کو بھی سلجھایا ہے۔ جواب میں عمران خان نے انہیں ''ہم ایک پیج پر ہیں‘‘ کا ایوارڈ دیا اور جب ایک پیج پر ہونے کا وقت آیا تو جناب وزیر اعظم نے ایک پوسٹنگ کا تین ہفتوں سے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ جمعۃ المبارک کو آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو شاید اس وقت تک نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہو تاہم خان صاحب کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ شیشے میں آیا ہوا بال اور دوستی میں آئی ہوئی دراڑ‘ دونوں ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی راکٹ کی رفتار سے ساتویں آسمان کی طرف اڑتی جا رہی ہے۔ آٹا، چینی، دالیں، بجلی، گیس کے بل اور ادویات کے ریٹس غریب تو غریب سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بھی بالکل باہر ہو چکے ہیں۔ ہماری آبادی کے ایک بہت بڑے طبقے کے آٹھ سے نو سالہ بچوں سے لے کر ساٹھ ستر برس کے بوڑھوں تک سارا کنبہ کام کرتا ہے تو پھر بھی اسے دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی۔ بدھ کے اخبارات میں تھا کہ ایک محنت کش میاں بیوی نے تین ماہ کی بیروزگاری سے تنگ آکر پہلے اپنے دو بچوں کو زہر دیا اور پھر انہوں نے خود بھی زہر کھا لیا۔ اس ہولناک صدمے کا ذمے دار کون ہے؟ حکومت، سول سوسائٹی، اشرافیہ، اپوزیشن یا کوئی اور؟ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے کے بعد ہر چیز کے اوپر ایک ہی ٹیگ لگا ہے ''ٹچ می ناٹ‘‘۔ حکومت ابھی سے لوگوں کو متنبہ کر رہی ہے کہ سردیوں میں بجلی اور گیس کے بل بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔
ایک طرف پی ڈی ایم کو ناقابل برداشت مہنگائی سے تحریک کی کامیابی کا یقین ہے دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ون پیج تعلقات میں بڑھتی ہوئی دراڑ سے اسے حوصلہ ملا ہے کہ اب عمران خان کے سر پر کوئی چھتری نہیں ہوگی اور انہیں تپتی ہوئی دھوپ میں اپنی حکومت کے بل بوتے پر اپوزیشن کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
میرا خیال تھا کہ 12 ربیع الاوّل کے مقدس دن جناب عمران خان ایک بدلے ہوئے انسان کی حیثیت سے سامنے آئیں گے اور وہ اپنے خطاب میں اپنی ذات اور تحریک انصاف کو احتساب کے لیے پیش کریں گے۔ نہ جانے کیوں مجھے گمان ہو چلا تھا کہ وہ ریاست مدینہ کی ایک جھلک کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنوں اور پرایوں سے یکساں انصاف کریں گے اور یہ اعلان کریں گے کہ پاناما لیکس اور پنڈورا پیپرز کے ملزموں میں رتی برابر فرق نہیں رکھا جائے گا مگر جناب ان کی استقامت کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ریاست مدینہ کے والی کی ولادت باسعادت کی یاد مناتے ہوئے بھی وہی پرانی تقریر کی جو ایک طرح سے ان کے سوا تین سالہ دورِ حکمرانی کے خلاف ایک ناقابل تردید چارج شیٹ بنتی ہے۔
جناب عمران خان نے کہا کہ اس وقت تک کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ میں خان صاحب کے تین سالہ دورِ حکمرانی میں قانون شکنی کے درجنوں مواقع میں سے صرف لاقانونیت کے دو شاہکار واقعات کا ذکر کروں گا۔ ایک تو وزیر ریلوے نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بلا ثبوت الزامات کی بوچھاڑ کر دی تو جناب وزیراعظم نے اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ دوسرے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر 20 پریذائیڈنگ افسروں کے اغوا کی ہولناک قانون شکنی کے خلاف بھی انہوں نے اپنی پارٹی کے ذمہ داران کو جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔ جناب وزیراعظم اکثر برطانیہ کے نظام انصاف کی مثال دیتے ہیں جبکہ برطانوی عدالتوں نے پہلے سلمان شہباز اور پھر اسحاق ڈار کو حکومت کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات میں بری کر دیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جناب عمران خان اس برطانوی انصاف کی بھی تعریف کرتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ بیرونِ ملک سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانے کے حوالے سے اہم اعلان کریں گے مگر انہوں نے ایسا کوئی اعلان نہ کرکے قوم کو مزید مایوس کیا۔ قوم امید لگائے بیٹھی تھی کہ جناب وزیراعظم کسی عرب شہزادے کی طرف سے ملنے والی قیمتی گھڑی کے بارے میں بھی بتائیں گے کہ اس میں حقیقت کتنی ہے اور افسانہ کتنا‘ مگر یہ امید بھی پوری نہیں ہوئی۔
اخلاقی اقدار کے علمبردار مشہور فلاسفر کانٹ کا یہ قول سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ''بڑا لیڈر اپنے مخالفین کو رعایت دیتا اور اپنا شدید احتساب کرتا ہے‘‘ مگر خان صاحب کا تین سالہ دورِ حکومت قدم قدم پر اس قول کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
جس محفل میں جائیں وہاں لوگ پریشان حال نظر آتے ہیں۔ قوم حکمرانوں سے 22 برس کا نہیں صرف تین سالہ حکمرانی کا حساب مانگتی ہے۔ خان صاحب نے تین سالوں میں نہیں تین مہینوں میں انصاف کا بول بالا کرنے، قانون کی حکمرانی قائم کرنے، اشیائے صرف کی قیمتیں نیچے لانے، بجلی اور گیس کے بل کم کرنے، بیروزگاری کا خاتمہ کرنے، غریبوں کو اپنی چھت دینے اور مریضوں کے مفت علاج کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس اور عوام کی چیخیں اور آہیں عرش تک پہنچ رہی ہیں۔
کیا اس بار اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب ہو سکے گی یا پچھلی بار کی طرح ناکامی سے دوچار ہوگی؟ بظاہر تو اپوزیشن کے ہاتھ میں ایک نہیں تین پتّے ہیں۔ ایک پتّا مہنگائی، دوسرا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ اور تیسرا حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔
کامیابی کیلئے پی ڈی ایم کو تین چار باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے اہداف واضح ہونے چاہئیں۔ دوسرے یہ کہ بھرپور تحریک کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون بھی حاصل کریں۔ نیز پیپلز پارٹی کی ''خطائوں‘‘ کو معاف کرکے انہیں پہلے کی طرح ساتھ لے کر چلیں۔ تیسری اہم بات یہ کہ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو اپنے اندر ہارڈ لائنرز اور عملیت پسندوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر کم سے کم ان اختلافات کو پارٹی اندر محدود رکھا جائے اور عوامی سٹیج سے صرف اور صرف ایک ہی بیانیہ سامنے آنا چاہئے۔
لوہا ہر لحاظ سے انتہائی گرم ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کتنے زور سے چوٹ لگاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی جدوجہد کا سارا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام جوق در جوق اُس کی احتجاجی پکار پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں