جناب چیف جسٹس کو کیوں بولنا پڑا

پچھلے چار پانچ ہفتوں سے فضا میں بہت تنائو اور جلسوں میں تلخ نوائی اور شعلہ بیانی اپنے عروج پر ہے۔ ایسی فضا میں کوئی شگفتہ تبصرہ، کوئی کھنکھناتا ہوا جملہ اور لطف اٹھانے کے لیے کوئی پھلجھڑی دکھائی دیتی ہے نہ سنائی دیتی ہے۔ ایسی پھلجھڑی جو لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دے۔ نہ جانے میرے قارئین اس تحریر کو پڑھ چکے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ کلپ آپ کی نظر سے گزر چکا ہے تو قند مکرر کا مزہ لیجئے اور اگر پہلی بار اسے دیکھ رہے ہیں تو نکتہ آفرینی اور ''عوامی دانش‘‘ کی داد دیجئے۔ اس تحریر میں سلطان راہی ایک فلم میں آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے ہوئے پکڑا گیا۔ وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگا: میں انصاف لینے آیا ہوں۔ اسے بتایا گیا کہ عدالت تو دن کو لگتی ہے۔ اس وقت سلطان راہی نے تاریخی جملہ کہا ''ظلم 24 گھنٹے تے انصاف صرف دن نوں‘ ایہہ کتھے دا قانون اے‘‘۔
عمران خان صاحب بار بار اس سوال کو عوامی جلسوں میں بڑی جذباتی انداز سے دُہرا رہے ہیں کہ میرے دل میں یہ زخم ہے کہ عدالتیں رات بارہ بجے کیوں کھولی گئیں۔ خان صاحب کو بحیثیت وزیر اعظم معلوم ہونا چاہئے کہ ایک سرکاری ملازم 24 گھنٹے کا ملازم ہوتا ہے۔ اسے جب بھی طلب کیا جائے اسے حاضر ہونا پڑتا ہے۔ چیف جسٹس تو ایک چلتی پھرتی عدالت ہوتا ہے۔ وہ جب چاہے عدالت لگا سکتا ہے۔ اگر آئین شکنی آدھی رات کو ہوگی اور اگر قانون کے تقاضے نصف شب کو پامال ہوں گے تو پھر مظلوم کی دادرسی کے لیے انصاف کا نصف شب کو مہیا ہونا کوئی اچنبھے کی بات ہے؟ 9 اپریل کی شب اور کوئی نہیں خود مظلوم آئین فریادی بن کر کھڑا تھا۔ وہ آئین جس کی بنیادوں پر ریاست کے سارے اداروں کی عمارت ایستادہ ہے۔
عدالتوں کے بارے میں یہ جملہ بہت مشہور ہے کہ منصف نہیں اس کا فیصلہ بولتا ہے‘ مگر جب کسی مرحلے پر خود منصف کو براہ راست بولنا پڑے تو سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی بہت ہی غیرمعمولی بات ہوئی ہے۔ پیر 18 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک عدالتی کارروائی کے دوران نہایت دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ یہ کہنا پڑا کہ یہ عدالت 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے۔ کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ دس پندرہ ہزار لوگ جمع کرکے عدالتوں پر تنقید کرنی ہے تو پھر ہم کیوں فیصلے دیں۔ سیاسی قیادت میں عدالتی فیصلوں کے احترام کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ آئین کے تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں تو ہمیں پروا نہیں ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔
جناب چیف جسٹس کے ریمارکس میں قانون اور آئین کی جس بے بسی کا ذکر کیا گیا ہے مہذب جمہوری دنیا میں اُس کا تصور ناپید ہے۔ وہاں پر ہر شہری قانون کا احترام کرتا ہے اور سیاستدان آئین کو ایک انتہائی مقدس دستاویز سمجھتے ہیں جس سے کوئی ادنیٰ سا انحراف بھی ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے اور جس کی شدید سے شدید سزا دی جاتی ہے۔ یہاں پاکستان میں ہی سیاسی و فوجی حکمران آئے روز آئین کے بارے میں جو طرزعمل اختیار کرتے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہے‘ اور پی ٹی آئی کے سربراہ نے تو عملاً قانون و آئین کو بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ جس طرح سے عوامی جلسوں میں عدالتی فیصلوں کو نشانۂ تنقید و تضحیک بنا رہے ہیں یہ جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔
جناب چیف جسٹس نے ایک مختصر جملہ کہا‘ جس میں ایک جہانِ معانی پنہاں ہے۔ انہوں نے کہا: میں سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں۔ اس جملے میں انتباہ ہے اور پاکستان کی عدالتی و سیاسی داستانِ عبرت کی طرف اشارہ بھی۔
عمران خان اور اُن کی تحریک انصاف کا یہ کہنا ہے کہ عدالتوں نے پارلیمانی معاملات میں ''مداخلت‘‘ کیوں کی؟ اس سوال کا منطقی جواب یہ ہے کہ عدالتوں کو آئین کے مطابق حصولِ انصاف کیلئے ہر طرح کی آئینی تشریح کا حق حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر پارلیمان اتنا بالغ نظر ہو کہ وہ آئین اور ایوان کے پروسیجر اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنے معاملات کو حسن و خوبی کے ساتھ خود چلا رہا ہو اور کسی اختلاف کی صورت میں ایوان آئین کی روشنی میں باہمی صلاح مشورے اور افہام و تفہیم سے معاملات سلجھا بھی رہا ہو اور نمٹا بھی رہا ہو تو پھر پارلیمانی امور کو کسی عدالت کے سامنے لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ وائے افسوس کہ ایسا ہرگز نہیں۔
اگر اکثریتی پارٹی اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑی ہو جائے اور کسی اختلافی رائے کو سننے اور اپنے موقف پر نظرثانی کرنے سے انکار کردے اور تحریک عدم اعتماد جیسے اپوزیشن کے کسی پارلیمانی و آئینی اقدام کو بلڈوز کرنے پر تل جائے تو ایسی صورت میں عدالت ہی وہ واحد فورم ہے جہاں اپوزیشن دادرسی کیلئے رجوع کر سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو کئی اعتبار سے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مسٹر اکرم شیخ اور حامد علی خان جیسے سینئر وکلا کا کہنا یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں پاکستانی عدلیہ کے اکثر فیصلے ''نظریۂ ضرورت‘‘ اور ''حالات کے عملی تقاضوں‘‘ کی بنا پر مثبت نہیں منفی فیصلے سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر بہت سے فیصلوں میں اگر مگر اور ابہام پایا جاتا ہے یا پھر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں تاہم چیف جسٹس عطا محمد بندیال اور اُن کی عدالتی ٹیم کا یہ تاریخی فیصلہ اس طرح کی خامیوں سے پاک ایک خالصتاً قانونی اور آئینی فیصلہ ہے جس کی ملک کے اندر اور ملک سے باہر عدالتی و قانونی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی کی جارہی ہے۔
نوجوان قارئین کی آگہی کے لیے یہ بتا دوں کہ جب سے پاکستان کی بنیادوں میں ''نظریۂ ضرورت‘‘ کا بارود بھرا گیا تب سے پاکستان میں سیاسی افراتفری کا آغاز ہوگیا۔ نظریۂ ضرورت 1950ء کی دہائی کے چیف جسٹس محمد منیر کی ایجاد ہے۔ 1955ء میں اس وقت کے گورنر ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کی خود مختاری پر حملہ آور ہوکر اسے توڑ دیا تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر کے اس اقدام کو غیرآئینی قرار دے دیا اور اسمبلی بحال کر دی۔ اس پر گورنر نے فیڈرل کورٹ (جسے اب سپریم کورٹ کہا جاتا ہے) میں اپیل کی جہاں چیف جسٹس نے ''نظریۂ ضرورت‘‘ کے مطابق اُن کا یہ اقدام درست قرار دے دیا۔
بعدازاں 1958ء میں انہی چیف جسٹس محمد منیر نے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے نفاذِ مارشل لاء اور پھر ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے دونوں اقدامات کو نظریۂ ضرورت کے مطابق جائز قرار دیا۔ یوں جسٹس محمد منیر نے پاکستان کی دستوری و جمہوری سیاست کو پٹڑی سے اتار کر مارشل لا اور آمریت کے خارزاروں میں دھکیل دیا۔ انہی چیف جسٹس محمد منیر نے اپنے آخری ایام میں ایک خود نوشت ''ہائی ویز اینڈ ہائی ویز آف لائف‘‘ لکھی جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ میرے فیصلے ملک کی بدقسمتی کا سبب بنے۔
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
سیاسی جماعتوں کو ہر طرح سے منصفانہ فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے کا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور چیف جسٹس آف پاکستان کی اس نصیحت کو پلے باندھنا چاہئے کہ ''پارلیمانی جمہوریت کی حفاظت اور دفاع کریں‘‘۔ انہی دو باتوں کے لیے جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو بولنا پڑا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں