خلقِ خدا کا بھی کچھ خیال کیجیے

تین چار روز قبل شادی کی ایک تقریب میں عمران خان کے دورِ حکومت میں اُن کے معاونِ خصوصی برائے خوراک سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے پاس ووٹوں کی اکثریت ہے۔ موصوف کے سیاسی تجزیے کے مطابق جس سیاستدان کے پاس ووٹوں کی اکثریت ہوتی ہے اس کا کوئی راستہ نہیں روک سکتا۔
میں نے عرض کیا کہ سابق مشیرِ خوراک ہونے کی حیثیت سے آپ کے ذاتی علم میں ہو گا کہ اس وقت معیشت تیزی سے پستی کی طرف جا رہی ہے‘ کیا یہ وقت لانگ مارچوں اور دھرنوں کے لیے مناسب ہے؟اس طرح تو صورتحال نہایت تشویشناک ہو جائے گی۔ ممتاز سیاستدان کا کہنا تھا کہ جناب عمران خان کا ہاتھ حالات کی نبض پر ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس میں ملک و قوم کے لیے بہتری اور بھلائی ہوتی ہے۔
میری اطلاع یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض سنجیدہ سیاستدان ملک کو تصادم کی طرف نہیں لے جانا چاہتے‘ وہ جمہوریت اور معیشت دونوں کو بچانا چاہتے ہیں مگر خان صاحب کے سامنے اُن کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ اس لیے خان صاحب نے مذاکرات کے آپشن کو بظاہر پسِ پشت ڈالتے ہوئے 26 نومبر کو راولپنڈی میں سرپرائز دینے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ کرے یہ خیر کا سرپرائز ہو۔
ہفتے کے روز اسلام آباد میں وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ افواہیں پھیلانے والے باز رہیں‘ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ اگلے سال کی ادائیگیوں کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے قوم کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پٹرول‘ ڈیزل کی کوئی کمی نہیں۔ جناب اسحق ڈار کی تسلیاں اپنی جگہ مگر بے رحم معاشی حقائق کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ جب مارچ میں پی ڈی ایم کی حکومت آئی تھی تو اس وقت پاکستان کے پاس 22 ارب ڈالر کے ذخائر تھے جو اب بہت کم ہو گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے پاس لگ بھگ 8 ارب ہیں جبکہ پرائیویٹ بینکوں کے تقریباً 7ارب ڈالر کو شمار کیا جائے تو ہمارے پاس کل پندرہ ارب ڈالر کے ریزرو موجود ہیں۔ یہ ڈالر بمشکل پینتیس چالیس روز کی درآمدات کے لیے کافی ہوں گے۔
ستمبر کے اواخر میں اسحق ڈار معاشی مسیحا بن کر پاکستان لوٹے تو ان کا اعتماد دیدنی تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ڈار صاحب اپنے ساتھ کوئی معاشی طلسماتی چھڑی بھی لا رہے ہیں جس کے لہرانے سے ڈالر پسپا ہوتا چلا جائے گا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ 30 اکتوبر تک ڈالر 200 روپے کا ہو جائے گا۔ ڈار صاحب کی واپسی کے بعد چند ابتدائی دنوں میں ڈالر نے قدرے پسپائی اختیار کی مگر اب پھر اُس کی اڑانیں ڈار صاحب ہی کی نہیں قوم کی نیندیں بھی اڑانے لگی ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض کی ایک ارب ڈالر کی قسط ابھی تک تاخیر کا شکار ہے۔ یہ مالیاتی ادارہ سیلاب میں ہونے والے ہمارے 32 ارب ڈالر کے نقصان سے لاتعلق دکھائی دیتا ہے۔ مختلف فورمز پر ہمارے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے وعدے تو بہت کیے گئے مگر عملاً ابھی تک ہمیں صرف 200 ملین ڈالر ہی مل سکے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تباہی کا شکار ممالک کے لیے عالمی فنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ اس کامیابی کو موجودہ حکومت بہترین سفارت کاری کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا اقدام ہے؛ تاہم ہنوز دہلی دور است۔ آئندہ برس دبئی اجلاس میں اس فنڈ کے قواعد و ضوابط طے ہوں گے۔ اُس وقت تک ہمارے سب سیلاب زدگان کا اس محاورے کے مطابق وہی حشر ہو گا۔ کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود۔
پہلے ڈار صاحب کا فرمان تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو ڈیل کرنا جانتے ہیں مگر اب وہ چپ چپ ہیں۔ گزشتہ روز ٹی وی سکرین پر پریس کانفرنس کے دوران ڈار صاحب کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھا تو مجھے ہندوستان کے ممتاز اردو شاعر عرفان صدیقی مرحوم کی غزل کا ایک لاجواب شعر یاد آ گیا۔ یہ شعر ڈار صاحب پر صادق آتا ہے‘ ملاحظہ کیجیے:
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
ڈار صاحب کے بہی خواہ اس شعر سے ملتا جلتا سوال اُن سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس اگر پیچیدہ معاشی مسائل کا حل نہیں تھا تو آپ نے بھاری مشکلات کی گٹھڑی کو اپنی کمر پر کیوں لاد لیا۔ ڈار صاحب کی واپسی کے بعد مہنگائی 29 فیصد کی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے۔ بجلی کے ریٹس میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے اور بے روزگاری بھی بہت بڑھی ہے۔ تقریباً پچاس فیصد پاکستانی بدترین غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔
بے رحم حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کچھ خبر نہیں کہ خلقِ خدا کس طرح زندگی کی رتھ میں صبح و شام جتے ہونے کے باوجود اپنے لیے ایک وقت کی روٹی کا بندوبست بھی نہیں کر پا رہے۔ تین صوبوں اور وفاق کی پولیس سیاستدانوں کی سکیورٹی میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کو امن و امان کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ اس لیے پشاور‘ لاہور اور کراچی میں ڈاکوئوں کا راج ہے۔ شہری لٹ بھی رہے ہیں‘ قتل بھی ہو رہے ہیں اور اغوا بھی۔
براہِ راست دیہاتوں اور شہروں سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق آٹا 80 سے 95 روپے فی کلو‘ چنے 400 روپے‘ دالیں 350 روپے‘ گھی ساڑھے پانچ سو روپے‘ دودھ 150 روپے اور پیاز جو کبھی غریبوں کے برے دنوں کا ساتھی سمجھا جاتا تھا اب وہ بھی 200 روپے فی کلو ہے۔
گزشتہ بیس پچیس برس کے دوران ہمارے ہاں معاشی و سماجی طور پر طبقاتی تقسیم پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ لوئرمڈل کلاس کے لوگ بھی اپنی آمدنی بڑھنے کی صورت میں کسی سمال انڈسٹری کے پیداواری منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے طبقۂ اشرافیہ میں شامل ہو کر نام و نمود بڑھانے کے لیے بڑے شہروں کی مضافاتی بستیوں میں فارم ہائوسز تعمیر کر رہے ہیں۔
جناب عمران خان لوگوں کے دل کی بات کہنے اور جوشِ خطابت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ تخت نشیں ہو کر انہوں نے پونے چار برس میں اپنے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا۔ تاہم اس ناکامی کے بعد خان صاحب نے اپنا محاسبہ کیا نہ اپنی جماعت کا۔ انہوں نے اقتدار میں واپسی کی صورت میں اپنی کسی معاشی منصوبہ بندی کا بھی کوئی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے بتایا ہے کہ اگر وہ دوبارہ برسرِاقتدار آ جاتے ہیں تو ملک کو معاشی دلدل سے کیسے نکالیں گے۔ خان صاحب کہتے تھے کہ ہمیں ''حقیقی آزادی‘‘ چاہیے۔ موجودہ دور میں معاشی خود کفالت اور سیاسی استحکام کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔ عمران خان نے پہلے ''امریکی دھمکی‘‘ اور حکومت کی تبدیلی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نشانۂ تنقید بنایا مگر اب وہ دونوں معاملات کے بارے میں یوٹرن لے چکے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کو بھی اڑھائی تین ماہ تک اپنے جوشِ خطابت کا موضوع بنایا مگر اب وہ کہتے ہیں کہ اب کوئی بھی آرمی چیف آ جائے انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ خان صاحب کے اس قول و قرار کے بعد 26 نومبر کو راولپنڈی میں اُن کا دھرنا ناقابلِ فہم ہے۔
معیشت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ اہلِ نظر جمہوریت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ سیاستدان روٹی کو ترستے اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹتے کروڑوں لوگوں پر ترس کھائیں۔ تخت و تاج بچانے اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کی اندھا دھند دوڑ میں عوام کچلے جا رہے ہیں۔ خدارا خلق خدا کا بھی کچھ خیال کیجیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں