زندگی اور پروفیسر معظم منہاس

انکل! میں بتاتا ہوں زندگی کیا ہے؟ میں ہمہ تن گوش ہو گیا مگر نہاں خانۂ دل کے کسی گوشے سے صدا آئی کہ یہ گیارہویں جماعت کا بچہ رازِ ہستی سے کیا پردہ اٹھائے گا؟ بچے نے کمال اعتماد سے کہا کہ کسی متعین مقصد کے بغیر زندہ شخص بھی مردہ ہے اور مقصد کے لیے حیاتِ مستعار بسر کرنے والا شخص مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ سن کر میں خوشی اور حیرت سے جھوم اٹھا۔
ہم عادتاً نوجوانوں کو کوستے رہتے ہیں اور انہیں بے مقصد زندگی گزارنے پر اکثر پند و نصائح کے انبار لگا دیتے ہیں اور پھر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ حالانکہ نوجوانوں کے سینے افکارِ نو کے خزینے ہیں۔ فی الواقع مقصدیت زندگی کی سرشت میں شامل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات کسی بڑے دھماکے کے نتیجے میں نمودار ہوئی اور کسی روز اچانک کسی بڑے حادثے سے فنا بھی ہو جائے گی۔ مگر جب حیات و کائنات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جہاں میں انسان‘ چرند پرند‘ شجر ‘ حجر اور کیڑے مکوڑے تک بھی کسی نہ کسی ہدف کی تکمیل میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔
ہم بچپن سے یہ کہانی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ چیونٹی کی زندگی میں آپ کے لیے کئی اسباق ہیں۔ وہ جب بل سے نکلتی ہیں تو ایک قطار میں چلتی ہیں۔ جبکہ انسان خاص طور پر ملکِ عزیز کے باشعور عوام ابھی تک قطار بندی سے نابلد ہیں۔ جہاں کہیں سڑک کی مرمت یا کسی اور ایمرجنسی میں وسیع و عریض شاہراہ کا ایک حصّہ بند کرکے تنگ گزرگاہ سے گاڑیاں گزاری جاتی ہیں یا کسی چیک پوائنٹ پر گاڑیوں کی چیکنگ ہوتی ہے‘ وہاں میرے پیارے ہم وطن بے صبری کے شاہکار بن جاتے ہیں اور چیونٹیوں کی طرح ایک قطار میں آگے پیچھے نظم و ضبط کے ساتھ ڈرائیو کرنے کے بجائے گاڑیوں کی دو دو اور تین تین قطاریں بنا لیتے ہیں اور یوں جس یک رویہ گزرگاہ سے بہ آسانی منٹوں میں گزرا جا سکتا ہو وہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے اور خلق خدا شدید اذیت سے دوچار ہو تی ہے۔
منظم چیونٹیوں کو ہم حقیر سمجھتے ہیں مگر اس مخلوق کا تذکرہ تو قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ نے انسانوں‘ جنوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا۔ وہ انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کی زبان بھی جانتے تھے۔ سورہ النمل میں مذکور ہے کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام کا گزر اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے ہوا تو حضرت سلیمان نے سنا کہ ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ جلدی سے اپنی بلوں میں داخل ہو جائو کہیںسلیمان علیہ السلام اور اُن کا لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالے۔
شہد کی مکھی تو بامقصد زندگی کی ایک دلکش اور شیریں مثال ہے۔ شہد کی مکھیوں کے بارے میں اگر تفصیلات کا مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ نے کتنی منظم اور ڈسپلن کی پابند اور جفاکش یہ مخلوق پیدا کی ہے جس کی 20ہزار اقسام ہیں جن میں سے صرف ایک قسم کی مکھی شہد بناتی ہے۔ اس قسم کی مکھیاں اپنی ملکہ کے احکامات کو بجا لاتی ہیں اور اپنے قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے انسانوں کے لیے ایک ایسا مفرح اور میٹھا محلول تیار کرتی ہیں جو بے شمار امراض کا کافی و شافی علاج سمجھا جاتا ہے۔
بات تو چلی تھی بامقصد اور بے مقصد زندگی کے تذکرے سے اور جا پہنچی چیوٹیوں اور شہد کی مکھیوں تک۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ کسی نہ کسی مقصد کا زندانی ہے۔ خوش نصیب وہ ہیں کہ جن کے مقصدِ حیات کا محور اُن کی ذات نہیں بلکہ مخلوقِ خدا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ جو اپنے لیے نہیں دوسروں کیلئے جیتے ہیں اور یہی اُن کا مقصدِ حیات ہے۔ تاہم میرے ایک دوست کا بیٹا عبداللہ گیارہویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس نے جب مجھے وہ قول سنایا جس سے ہم نے کالم کا آغاز کیا ہے تو میں نے پوچھا عبداللہ‘ تمہارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ نوجوان نے بلاتوقف جواب دیا‘ خدمتِ خلق اور دفاعِ وطن میری زندگی کا مقصد ہے۔
2004ء میں فقیر نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے تدریسی فرائض کی ابتدا کی تھی۔ اسے میری خوش قسمتی کہیے کہ میرے دو سکول فیلو فاروق گیلانی اور شیخ توقیر احمد اس دلکش شہر میں میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ نامور شاعر اور ممتاز کالم نگار اظہار الحق صاحب سے بھی علیک سلیک تھی۔ غالباً 2006ء میں پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں پروفیسر معظم منہاس صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پروفیسر صاحب کی بے تکلف اور دلکش شخصیت نے ایسا مسحور کیا کہ مجھے یوں لگا جیسے میں اس مانوس اجنبی کو برسوں سے جانتا ہوں۔ یوں پروفیسر صاحب سے ملاقاتوں کا بلاتعطّل سلسلہ چل نکلا۔ ہمدمِ دیرینہ فاروق گیلانی مرحوم سے پروفیسر صاحب کا تعارف کروایا تو مطالعہ کے رسیا دونوں ایک دوسرے کے دیوانے ہو گئے۔ بعد ازاں جناب اظہار الحق بھی پروفیسر صاحب کی محبت و مروّت اور علمیت کے اسیر ہو گئے۔ میں 2010ء میں اسلام آباد کو خیرباد کہہ کے شہرِ وفا سرگودھا آ گیا۔ یوں پروفیسر صاحب سے ملاقاتوں کا وہ سلسلہ بہت کم ہو گیا۔ اکثر اُن کا فون آ جاتا تھا۔ میں بھی کال کرکے اُن کی خیریت و عافیت معلوم کر لیا کرتا تھا۔ گزشتہ دو تین ماہ سے دوطرفہ رابطہ منقطع تھا۔ اچانک چند روز قبل جناب اظہار الحق کے کالم سے معلوم ہوا کہ چمن بولتا ہوا چپکے سے سفرِ آخرت پر روانہ ہو گیا ہے۔ یہ پڑھ کر دلی صدمہ ہوا۔
پروفیسر معظم منہاس مرحوم انگریزی ادب کا بحرِ بیکراں اور بین الاقوامی امور کا سمندر تھے۔ وہ جب شیکسپیئر‘ جان کیٹس‘ کولرج اور ٹی ایس ایلیٹ کے بارے میں گفتگو کرتے تو اُن کے منہ سے پھول جھڑتے تھے اور سامعین کا حال بقول مرزا غالب یہ ہوتا کہ:
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
پروفیسر صاحب بلبلِ ہزار داستان تھے۔ وہ اعلیٰ حسِّ مزاح رکھتے تھے۔ شگفتہ بیانی میں کوئی اُن کا ثانی نہ تھا۔ متحدہ عرب امارات میں وہ برسوں انگریزی زبان و ادب کے معلّم رہے۔ انہوں نے خواص و عام عربوں کو انگریزی پڑھائی اور اُن سے فصیح و مقامی لہجے والی عربی سیکھی۔ شہزادے اور امیرزادے بھی اُن کے شاگرد تھے؛ تاہم پروفیسر صاحب نے درہم و دینار کے پیچھے بھاگنے کے بجائے باوقار آمدنی پر اکتفا کیا۔ وہ سالہا سال خلیج ٹائمز میں کالم لکھتے رہے۔ قصّہ گوئی میں انہیں یدطولیٰ حاصل تھا۔ پروفیسر صاحب ایک محبت سو افسانے کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ جب میں انہیں عربی کا یہ شعر سناتا کہ جس کا ترجمہ یوں ہے کہ محبت کی تلاش میں دل کو جہاں چاہو لیے پھرو مگر دل ہمیشہ پہلی محبت کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ سن کر پروفیسر صاحب تادیر سر دھنتے رہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ شعر اُن کی داستانِ حیات پر صادق آتا ہے۔ جناب معظم منہاس نے ایم اے انگریزی کے برسوں بعد لگ بھگ ستر سال کی عمر میں لاء کی ڈگری حاصل کی اور اسلام آباد کی عدالتوں میں اپنی انگریزی دانی اور قانون دانی کا سکہ جمایا۔ پروفیسر صاحب سے اگر کوئی پوچھتا کہ اس عمر میں آپ کو وکالت کی کیا سوجھی تو اُن کا مختصر جواب ہوتا: It's never too late to mend۔ پروفیسر صاحب نے ساری زندگی نئے سے نئے افق تلاش کرنے اور متنوع مقاصد کی تکمیل میں گزار دی۔ ''بامقصد خوشگوار زندگی‘‘ ہی اُن کا ماٹو تھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں