شہید کی بیٹی کی رخصتی

معرفتِ ربّانی کی منازل طے کرنے میں ان دنوں لاہور-اسلام آباد موٹر وے بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔ دھند کے دنوں میں آپ پروگرام بناتے ہیں کہ علی الصباح لاہور سے اسلام آباد روانہ ہونا ہے اور ضروری کام کر کے شام کو لوٹ بھی آنا ہے۔ مگر اب سارے پروگرام موسمی حالات کے تابع اور موٹر وے کے کھلنے اور بند ہونے پر منحصر ہیں۔ گزشتہ دو تین ہفتوں سے شاید ہی لاہور میں موٹر وے گیارہ بارہ بجے صبح سے قبل کھلی ہو۔ جی ٹی روڈ پر لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ کم مگر ٹریفک کی کثرت اور ازدحام بہت زیادہ ہے۔ اس لیے کلفت کے علاوہ وقت بھی کہیں زیادہ لگتا ہے۔
جب 1990 ء کی دہائی کے اوائل میں میاں نواز شریف نے موٹر وے کا آئیڈیا پیش کیا تھا تو بہت سے سیاست دانوں کی تنقیدی رگ پھڑک اٹھی تھی۔ انہوں نے ایوانوں کے اندر اور باہر بہت واویلا کیا۔ تاہم 1992ء میں چھ لین موٹر وے کی تعمیر کا آغاز ہو گیا۔ جب 1999 ء میں تیز رفتار راستہ مکمل ہو گیا تو پھر آرام دہ سفر کے لیے معزز ناقدین نے ہی موٹر وے کا سب سے زیادہ استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔ دو تین روز پہلے جب لاہور سے اسلام آباد جانے کا پروگرام بنایا تو ارادہ تھا کہ صبح آٹھ بجے روانہ ہو جائیں گے۔
موٹر وے کی ہیلپ لائن سے مسلسل رابطہ رکھا‘ جب اُن کی طرف سے اذنِ روانگی ملا تو اس وقت تک صبح کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے لہٰذا ارادے ہی نہیں ٹوٹے بلکہ اسلام آباد میں مصروفیات کی ترتیب بھی الٹ پلٹ ہو گئی۔ راستے میں کہیں دھوپ کہیں چھائوں تھی‘ کہیں تاحدِ نگاہ سبزہ پھیلا ہوا تھا اور کہیں فضائے سبزگوں میں مٹیالی پگڈنڈیوں کا حسن جھلملا رہا تھا۔ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب میں اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے گھر کے پچھواڑے کی نہر کے اُس پار سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان مٹیالی پگڈنڈیوں پر سائیکل چلایا کرتا تھا۔ تب ہمارے پنجاب کے بہت سے چھوٹے صاف ستھرے شہر دیہاتی رنگ و روپ سے آراستہ ہوتے تھے۔
ہمیں 7 جنوری کو رخصتی کی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ آج سے دس گیارہ برس قبل میرے بھانجے ونگ کمانڈر عاصم پراچہ نے دورانِ پرواز اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔ تمغۂ بسالت سے شہید کی خدمات کا رسمی اعتراف بھی کیا گیا۔ اللہ نے میراج فائٹر کے اس ماہر پائلٹ کو چیتے کا جگر اور شاہیں کا تجسس عطا کیا تھا۔ وہ جوانِ رعنا تھا اور ایک خاص رعنائی و شانِ دلربائی کے ساتھ جب اپنے میراج طیارے میں ٹیک آف کرتا تو ایئر بیس پر اسے رخصت کرنے والے مسرّت و حیرت سے اپنے دانتوں میں انگلیاں دبا لیا کرتے تھے۔ چند لمحوں میں اس کا طیارہ آسمان کی بلندیوں میں گم ہو جاتا۔
عاصم جہاں کہیں ہوتا وہ اکثر پرواز پر روانہ ہونے سے پہلے اپنی ماں کو ضرور فون کرتا۔ جواباً اس کی ماں ڈھیروں دعائیں دیتی اور یہ دعا دینا تو کبھی نہ بھولتی‘ میرے رب!اپنے شاہین کی خود حفاظت کرنا۔ونگ کمانڈر محمد عاصم پراچہ پاکستان ایئرفورس کا قابلِ فخر ہوا باز تھا۔ اسے میراج تربیتی سکواڈرن کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کے شاہینوں کی تربیت کا بنیادی نقطہ وہی ہے‘ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
7 جنوری کو اسی عاصم شہید کی بیٹی کی رخصتی کی تقریب تھی۔ جب عاصم شہید ہوا تو اس کی تین مسکراتی ہوئی ننھی کلیاں مرجھا گئی تھیں۔ شہید کی خوش خصال بیگم کو کم عمری میں اس جان لیوا صدمے سے گزرنا پڑا۔ شہید کے والدین اور دیگر عزیز و اقارب بھی بہت غمزدہ تھے۔ اُن سب پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا مگر سب نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شہید کے رتبے کو ہمیشہ مدِّنظر رکھا اور ضبط کے بندھن نہ ٹوٹنے دیے۔
یہ شہید پائلٹ کی بڑی بیٹی کی تقریبِ رخصتی تھی۔ اسلام آباد کے پی اے ایف میس میں یہ ایک نہایت خوبصورت اور پروقار تقریب تھی۔ دلہا دلہن چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھے۔ تمام لبوں پر مسکراہٹیں‘ دعائیں اور مبارکبادیں تھیں مگر دلوں میں غم و اندوہ کے طوفان موجزن تھے۔ اس مبارک موقعے پر پاکستان ایئرفورس کے کئی ریٹائرڈ اور حاضر سروس اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ تقریب کے دوران قدم قدم پر بچی کے باپ کی کمی ہر کسی کو محسوس ہو رہی تھی۔ ہمارے ایمان کے مطابق شہدا مر کر بھی زندہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے پاس زندۂ و جاوید ہوتے ہیں۔ عاصم شہید بھی یقینا خلد میں بیٹھا نم آلود آنکھوں کے ساتھ مسکرا رہا ہو گا۔ یہی ابدی اور سرمدی زندگی ہی تو شہادت کا ثمر اور صلہ ہے۔
صلۂ شہید کیا ہے‘ تب و تاب جاودانہ
جس روز میں اسلام آباد پہنچا تھا‘ اسی روز وزیراعظم میاں شہباز شریف آئی ایس آئی کے شہید ہونے والے ڈائریکٹر نوید صادق کے گھر پہنچ گئے اور انہوں نے اُن کی اہلیہ‘ بیٹی اور بیٹے سے ملاقات کی اور اہلِ خانہ سے اظہارِ ہمدردی کیا اور شہید کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے نوید صادق کو ہلالِ شجاعت اور انسپکٹر ناصر عباس کو ستارۂ شجاعت دینے کا اعلان کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مقدس سرزمین اور ہم وطنوں کے تحفظ کے لیے قربانیاں دینے والے فوج‘ فضائیہ‘ بحریہ‘ پولیس یا کسی بھی اور سکیورٹی فورس سے تعلق رکھنے والے افسران ہوں یا جوان سب کے سب لائقِ صد تعظیم و تحسین ہیں۔ اُن کے ادارے اور عوام انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
یقینا یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ شہدا کے ادارے اُن کے بیوی بچوں اور دیگر لواحقین کا خیال رکھتے ہیں۔ اُن کی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل خرچ کرتے ہیں۔ مگر قوم کو شہدا کی عظیم قربانی کا کماحقہ ادراک نہیں۔ بچوں کی دنیاوی و تعلیمی ضروریات بظاہر پوری ہو جاتی ہیں۔ عاصم شہید کی بیگم اور خاندان کے بہت سے بزرگوں نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ بچیوں کی تعلیم و تربیت کے فریضے کو بطریقِ احسن انجام دیا۔ تاہم شہید کی بچیوں کے لیے والد کی عدم موجودگی کا جذباتی خلا کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ شہدا کے اہلِ خاندان کی بے پناہ جذباتی قربانی کی بھی ہمیں دل سے قدر کرنی چاہیے اور اُن کے لیے ہدیۂ دعا کے تسلسل میں تعطل نہیں آنے دینا چاہیے۔
بیٹی کو بادیدۂ تر رخصت کرنا ہماری شادی بیاہ کی روایات میں شامل ہے۔ عاصم شہید کی بیٹی کے وقتِ رخصت مجھ سمیت تقریباً ہر آنکھ نم دیدہ تھی۔ شہید کی بیگم‘ بیٹیوں‘ والدہ‘ بہنوں اور دیگر کئی قرابت داروں کے ضبط کے بند تھوڑی دیر کے لیے شدّت سے ٹوٹے مگر پھر رتبۂ شہید کا خیال کر کے خوشی کے اس موقع پر سب نے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ
جو 'اُن کے‘ دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں
اس موقع پر باریش چہروں اور سیاہ شیروانیوں میں ملبوس عاصم شہید کے والد ایئرکموڈور (ر) محمد صابر پراچہ اور اس کے فادر ان لاء گروپ کیپٹن (ر) سجاد احمد غم کے پہاڑ تلے دبنے کے باوجود مثالی صبر و ضبط کا پیکر دکھائی دے رہے تھے۔ میری دعا ہے کہ ربِّ ذوالجلال پاکستان کے ہر شہید کے بچوں کی خود حفاظت فرمائے اور اُن کی بیٹیوں کے مستقبل کو خوشحال اور خوش بخت بنائے۔ آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں