سیاسی ڈرامے اور روٹی کو ترستے عوام

11 جنوری‘ بدھ کی شام کو پنجاب اسمبلی کی صورتحال دیکھ کر یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ آج حکمران اتحاد تہیۂ طوفان کیے ہوئے ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی سرگوشیوں اور مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن کی چیخ و پکار سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آج درست یا غلط‘ کسی نہ کسی طرح چودھری پرویز الٰہی کی رسمِ تاج پوشی ادا کر دی جائے گی۔ سیاست کے بہت سے رسیا شب بھر ٹی وی سکرینوں کے سامنے ٹکٹکی باندھے براجمان رہے تاکہ دیکھ سکیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اپنا حال البتہ بقول اکبر الٰہ آبادی یہ ہے کہ:
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا ساری رات مشکل ہے
جیسے تیسے بھاگ دوڑ کرکے اور بقول ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی ہاتھ کی صفائی سے حکمران اتحاد نے رات گئے 186اراکین کی مطلوبہ تعداد شو کر دی۔ ہزار جتن سے پرویز الٰہی صاحب نے پنجاب اسمبلی کو مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں میں جانے سے بچالیا مگر 12جنوری کو عمران خان نے پرویز الٰہی کے ارمانوں کے سب آبگینوں کو چکنا چور کر دیا اور اُن سے پنجاب اسمبلی تحلیل کروانے کے پروانے پر دستخط کرا لیے۔
یہ تو پرویز الٰہی ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے کس دل سے دستخط کیے تھے۔ چودھری صاحب نے پنجاب میں بعض اچھے منصوبے شروع کر رکھے تھے‘ وہ انتخابات سے پہلے کے چھ‘ سات ماہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے تھے مگر عمران خان کی تمنائے بے تاب کے سامنے پرویز الٰہی کی کوئی پیش نہ چلی۔ خان صاحب عام انتخابات کا فوری انعقاد چاہتے ہیں جس کے لیے وہ ہر سطح پر‘ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ وہ 11جنوری کو پنجاب میں ہونے والی گنتی کو تسلیم نہیں کرتے جس کے خلاف وہ عدالت میں جائیں گے۔ کتنے دانش مند ہیں ہمارے سیاستدان کہ سیاسی و حکومتی امور کو منتخب ایوانوں میں طے کرنے اور اپنے مسائل خود حل کرنے کے بجائے عدالتوں سے ڈانٹ ڈپٹ سننے اور اپنی ناقص کارکردگی کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے وہاں آئے روز پیش ہوتے رہتے ہیں۔ 12جنوری کے روز ایک بار پھر صدرِ پاکستان عارف علوی نے نہایت درد مندی کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دی ہے۔
دوسری طرف آتی جاتی حکومتوں اور شب و روز بدلتے حکمرانوں کو دیکھ کر بیورو کریسی من مانی کرتی ہے یا کچھ بھی نہیں کرتی۔ ہمارے اناج گھر پنجاب میں آٹا 150روپے کلو تک بک رہا ہے۔ یہی حال کراچی اور پشاور میں ہے۔ ''سستے آٹے‘‘ کے لیے اس وقت تک کم از کم تین شہری دھکم پیل کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ گھنٹوں آٹے کے ٹرکوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے لوگوں کو تذلیلِ آدمیت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جمعرات کے روز پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے برہمی کے ساتھ کہا کہ عوام کو روٹی مل رہی ہے اور نہ حکومت کو اس کی کوئی فکر ہے۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے سنگ دلی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے جس کی بنا پر ان کے نہاں خانۂ دل میں رحم دلی اور شرمساری کا گزر ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا حالِ زار دیکھ کر دنیا کے حکمرانوں کا دل بھر آتا ہے اور اُن کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ تبھی تو انہوں نے متاثرینِ سیلاب کے لیے ہمیں دس ارب ڈالر کی امداد یا قرضہ دیا ہے۔
ادھر ہمارے سیاست دانوں نے تنقید برائے تنقید کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔ عام سیاست دانوں کے ہاں کھلا تضاد دیکھنے میں آتا ہے مگر جناب عمران خان کے ہاں تو کھلم کھلا تضاد ہے۔ جو بات وہ چند ماہ‘ چند ہفتے‘ چند روز یا چند منٹ پہلے کہتے ہیں اچانک اس کے بالکل برخلاف مؤقف اختیار کر لیتے ہیں‘ اس پر وہ کوئی حرفِ معذرت تک بھی نہیں کرتے۔ 2020ء میں انہوں نے دنیا سے اپیل کی تھی کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ہمارے لوگ خوراک کی قلت اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریات کے لیے بہت پریشان ہیں لہٰذا ہماری مدد کی جائے۔ اب جبکہ خود یو این او کے سیکرٹری جنرل یہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں سیلاب کی بنا پر ہونے والی تاریخی تباہی کو بچشم خود دیکھ آئے ہیں اور یہ کہ گلوبل وارمنگ کا مرکزی سبب ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ لہٰذا ان ممالک کو بطورِ خاص مدد کرنی چاہیے۔ وسیع تر عالمی کمیونٹی کی ہمارے دکھ درد میں شمولیت پر شکرگزار ہونے کے بجائے خان صاحب اس مدد کے لیے اپیل کرنے پر پاکستان کے وزیراعظم اور دیگر وزرا کو گداگروں کا ٹولہ قرار دے رہے ہیں۔ ایسے جملوں پر بزرگ سیاست دان چودھری شجاعت حسین نے نہایت عمدہ تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو ہر روز فقیر کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ وہ یہ گداگری پاکستان کے لیے کر رہے ہیں جس پر انہیں فخر ہونا چاہیے۔
ایک دوسرا سیاسی ڈرامہ کراچی میں جاری ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کراچی اور حیدر آباد کے عوام کو سکھ تو ایک نہیں دیا مگر دکھ ہزار دیے ہیں۔ گزشتہ دو تین سالوں سے انہیں اپنی شکست نوشتۂ دیوار کی صورت نظر آ رہی تھی۔ اسی لیے انہوں نے کبھی کسی عذر کے سہارے‘ کبھی کسی بہانے کے ذریعے کم از کم چھ مرتبہ کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات کو رکوایا اور ملتوی کروایا ہے۔الیکشن کمیشن نے 15 جنوری کو انتخابات کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی بحیثیت میئر کراچی متوقع کامیابی اور اپنی متوقع ناکامی دیکھ کر سابقہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے متحد ہو گئے ہیں۔ اب پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال اور ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے ''پرانی ایم کیو ایم‘‘ کے احیا کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جسے اہلِ کراچی ایک بھیانک خواب کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔ اس ڈرامائی اتحاد کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی اکھاڑے میں اترنے کا اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتی۔ پرانی ایم کیو ایم نے عندیہ دیا ہے کہ وہ 15 جنوری کو کراچی میں انتخابات نہیں ہونے دے گی۔ یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اُن کے مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں؛ تاہم حتمی فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام تیاری کریں‘ بلدیاتی الیکشن 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔
اہلِ کراچی ایم کیو ایم کے اعلانات کو بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 15جنوری کو جوش و خروش سے نکلیں گے۔ وہ ایک ایسے دیانت دار میئر کے ہاتھ میں کراچی کی باگ ڈور دینا چاہتے ہیں جو کھنڈر بنتے شہر کو رونقیں لوٹا سکے۔ ٹینکروں کے بجائے نلوں سے پانی مہیا کر سکے۔ کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کو صاف کرائے اور سٹریٹ کرائمز کا قلع قمع کر سکے۔جس طرح جناب عمران خان مقتدرہ اور عدالتوں کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں‘ اسی طرح ہم بھی سیاستدانوں کو خدا کا واسطہ دے کر اپیل کرتے ہیں کہ غریب عوام کے حالِ زار پر رحم کھائیں‘ سیاسی ٹمپریچر نیچے لائیں۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بھی پھلے پھولے گی اور غریب کو کم از کم دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی تو باعزت طور پر ملنے لگے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں