کراچی میں جماعت اسلامی کی فتح کا راز

گزشتہ کئی برس سے وطنِ عزیز کا سب سے بڑا شہر اور مرکزِ صنعت و تجارت کراچی کھنڈروں‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور جا بجا بہتے ہوئے گندے پانیوں کا شہر بن چکا ہے۔ سندھ حکومت سالہا سال سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے راستے میں سدِ سکندری بن کر کھڑی رہی۔ کبھی سیلابوں کا بہانہ‘ کبھی پولیس کی کم نفری کا عذر اور کبھی اداروں کی رپورٹوں کا سہارا لے کر بلدیاتی انتخابات کو رکوایا گیا۔ اب 15جنوری سے صرف چند روز پہلے پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ پس پردہ انڈر سٹینڈنگ کرکے انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیلِ نو کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش کی‘ اس حربے کو کراچی کے باشعور عوام‘ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور تحریک انصاف نے مل کر کامیاب نہ ہونے دیا اور 15 جنوری کو کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں کارکنوں کی اکا دکا جھڑپوں کے علاوہ پُرامن بلدیاتی انتخابات منعقد ہو گئے۔
اندرون و بیرون ملک تمام پاکستانیوں کی نظریں کراچی کے انتخاب پر لگی تھیں جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو ایک اعتبار سے وہ سب جماعتوں کے لیے حیران کن تھے۔ ایم کیو ایم برسوں سے سندھ کے شہری علاقوں میں اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھتی تھی‘ اس کے تینوں دھڑوں نے انتخابات سے محض تین چار روز قبل اپنی شکست کا جَّلی حروف میں لکھا ہوا نوشتۂ دیوار پڑھ کر مارے خوف کے آپس میں اتحاد کر لیا اور انتخابات رکوانے کے لیے طرح طرح کی دھمکیاں دیں اور پھر بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ایم کیو ایم انتخابی اکھاڑے سے اپنا مرغا واپس لے گئی مگر اذانِ سحر ہو کر رہی جس پر اہلِ کراچی نے لبیک کہا۔ یوں کراچی کے شہری علاقوں سے ایم کیو ایم کا صفایا ہو گیا۔ 15جنوری کے بلدیاتی انتخابات کے 36گھنٹوں کے بعد سندھ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پاس موجود پریزائیڈنگ افسران کی طرف سے دیے گئے کچھ نتائج سے مختلف تھے۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ 18جنوری کی شب کراچی میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑائی بھی ہوئی۔ بہرحال اس وقت تک اصلاح شدہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے پاس 235یونین کمیٹیوں میں سے 91‘ جماعت اسلامی کے پاس 89سیٹیں آئی ہیں جبکہ تحریک انصاف کو اہلِ کراچی نے صرف 40سیٹوں کا حق دار گردانا ہے۔
جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پریذائیڈنگ افسران کے نتائج کے مطابق کم از کم 5اور سیٹیں ملنی چاہئیں جس کے بعد جماعت کی نشستوں کی بلدیہ کراچی میں تعداد 94ہو جائے گی۔ بہرحال صورت حال جو بھی ہو‘ اس وقت یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کراچی کے اگلے میئر حافظ نعیم الرحمن ہی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی بھی جماعت کو شاخِ زیتون کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہی ہے اور پی ٹی آئی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار ہے؛ تاہم اہم ترین سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور میئر شپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کی عظیم کامیابی کا راز کیا ہے؟ جماعت اسلامی بجا طور پر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی دعوت اور سیاست دونوں رضائے الٰہی کے لیے ہیں؛ تاہم دعوتِ دین کے فروغ کے لیے جماعت اسلامی کی حکمت عملی میں ابہام نہیں‘ البتہ سیاسی حکمت عملی کے بارے میں جماعت اسلامی کے ہاں بہت کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ ہم بارہا جماعت اسلامی کو ایک ہمدرد کی حیثیت سے اس طرف متوجہ کر چکے ہیں کہ جماعت مسلم دنیا کی دیگر کامیاب اسلامی جماعتوں کی طرح اپنی دعوتی و سیاسی حکمت عملی الگ الگ بنائے۔
گزشتہ تین چار برس سے حافظ نعیم الرحمن نے کراچی شہر کے مسائل اجاگر کرنے اور ان کے ممکنہ حل کے لیے زبردست آواز بلند کی۔ انہوں نے اپنی ذیلی تنظیم الخدمت کے ساتھ مل کر بلاتفریق مذہب و قومیت اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ ایک دو برس قبل جب کورونا نے ہر انسان کو متاثر کیا تو حافظ صاحب کی رہنمائی میں جماعت اسلامی نے اقلیتی برادری میں اشیائے خورونوش اور دیگر امدادی سامان تقسیم کیا۔ مختلف قومی پس منظر رکھنے والے شہریوں کے لیے شناختی کارڈوں کا حصول انتہائی دشوار بنا دیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے اس زیادتی کے خلاف بھرپور مہم چلائی جس کے نتیجے میں وہ رکاوٹیں دور کر دی گئیں اور یوں شہریوں کے لیے کارڈوں کا اجرا ممکن ہو گیا۔ سابقہ دور میں کراچی کی بجلی تقسیم کار کمپنی کی نجکاری کر دی گئی تھی جو بجلی کے نرخوں اور لوڈشیڈنگ کے شیڈول وغیرہ کے بارے میں من مانی کرنے لگی۔ یہ ادارہ کسی درخواست کو سنتا تھا اور نہ ہی کسی احتجاج کو خاطر میں لاتا تھا مگر جب حافظ صاحب نے کراچی کی رائے عامہ ہموار کرکے ادارے کے ہیڈ کوارٹر کے باہر ہزاروں شہریوں سمیت کئی کئی بار دھرنا دیا تو یہ ادارہ اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ تسلیم کرتا ہے کہ شہریوں کو بجلی کی تقسیم کار کمپنی سے ریلیف دلانے کے لیے صرف جماعت اسلامی نے سر توڑ کوشش کی۔ جماعت اسلامی نے بلدیاتی اداروں کے بروقت انتخابات اور ان اداروں کو مکمل طور پر عالمی مقامی حکومتوں کی طرز پر مکمل بااختیار بنانے کے حق میں زبردست آواز اٹھائی۔ حافظ صاحب کی قیادت میں جماعت نے ایک ماہ تک سندھ صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنا دیا۔ حافظ صاحب کئی بار اعلیٰ عدالتوں میں گئے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات بھی کیے؛ تاہم پیپلز پارٹی نے ابھی تک طے شدہ نکات پر عمل نہیں کیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے خدمتِ عوام اور اپنی انتخابی مہم کے لیے سوشل میڈیا کا زبردست استعمال کیا۔ جماعت کے سوشل میڈیا پر خواتین نے بھی حافظ صاحب کی کامیابی کیلئے بھرپور حصہ لیا۔ کئی اداکاروں نے بھی میڈیا مہم میں حافظ صاحب کی شہر قائد میں رونقیں اور امن و امان واپس لانے کیلئے کوششوں کوبہت سراہا۔ غرضیکہ حافظ صاحب نے عوامی ایشوز اجاگر کرنے اور عوام کی ہمنوائی کی بنیاد پر ایک نئے انداز میں انتخابی مہم چلائی۔ یہی حافظ صاحب کی عظیم کامیابی کا راز ہے۔
سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی پنجاب کی گیارہ میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور گیارہ ڈسٹرکٹ کونسلز اور دیگرصوبوں کے اہم شہروں میں کراچی کی تقلید میں جدید عوامی انتخابی مہم چلائے گی یا پرانی روش پر ہی گامزن رہے گی۔ تقریباً تین کروڑ آبادی کا شہر متفرق و متعدد مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ تاہم حافظ صاحب اگر میئر بنتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے شہر کے اہم ترین مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ امن و امان کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 8مہینوں میں کراچی کے گلی کوچوں میں 350نوجوان ڈاکوئوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اس عرصے میں 32ہزار موٹرسائیکلیں چھینی گئی ہیں‘ ظالمانہ کارروائیوں کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے‘ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی نلوں کے ذریعے فراہمی اور ٹینکر مافیا سے نجات ہے۔ تیسرا مسئلہ گلی کوچوں میں ہی نہیں‘ ماڈرن آبادیوں کی شاہراہوں پر گندگی کے لگے ڈھیروں کی فوری صفائی اور مستقل بنیادوں پر ویسٹ مینجمنٹ کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں سنگا پور کے زیر سمندر گندگی کے سٹور بنانے کے طریق کار کو اپنایا جا سکتا ہے۔
کراچی کی شاید ہی کوئی سڑک سلامت ہو‘ گڑھوں اور کھنڈروں سے شہریوں کو نجات دلانا بھی ضروری ہے‘ ان کے علاوہ ٹرانسپورٹ‘ ٹریفک‘ تعلیم‘ علاج معالجہ وغیرہ‘ سب کام چوپٹ ہیں۔ ان کی اصلاح بھی ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ کراچی کا میئر دیانتداری سے کمرِ ہمت باندھ لے گا تو اہلِ کراچی اس کارِخیر کے لیے دل کھول کر مدد کریں گے اور اوورسیز اہلِ کراچی تو پہلے ہی ہر طرح کے تعاون کا یقین دلا چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں