پاکستان کے لئے انتہائی اہم 14 اگست کا دن آیا اور گزر گیا۔ 13 اور 14 ا گست کی درمیانی شب کو شروع ہونے والی آتش بازی سے لے کر دن بھر سبز رنگوں کے ملبوسات کی بہار میں یہ دن اس احساس اور یقین کے ساتھ منایا گیاکہ 14 اگست دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیو ں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے اور اس دن کی نسبت سے حاصل ہونے والی آزادی ایک عظیم نعمت ہے۔ 14 اگست دنیا کے ہر کونے میں مقیم پاکستانی قو می جذبے سے مناتے ہیں اور رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ شایدہماری نسل کو اس پہلو کا ادراک مشکل ہے کہ سانس لینا کیا ہوتا ہے اور آزاد فضا میں سانس لینے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ آزاد وطن کیا ہوتا ہے اور آزادی کتنی بیش بہا دولت ہے؟کسی بھی زندہ قوم کے لئے آزادی کا دن مثالی جذبے سے منانابہت اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اس ملک کے حصول کے لئے کی گئی جدوجہد اور اُن عوامل کا بھی جائزہ لیں جن کی وجہ سے الگ وطن کا حصول ناگزیر تھا اور اُن عزائم و مقاصد کو دہرائیں جو وطن کے حصول کی جدوجہد کا سبب تھے۔تہتر سالوں سے جشنِ آزادی منانے والے ہم لوگوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ہر بار 14 اگست کو سبز پرچم اُٹھانے سے قبل اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوں اور بتائیں کہ ہم نے اس وطن کے لئے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا کام کیا؟ ہم نے صرف حکومتوں پر تنقید کی یا اپنے تئیں بحیثیت ِفرد بھی اس ملک کو عظیم تر بنا نے میں کیا کردار ادا کیا؟ ہماری حیثیت اور اختیار بھلے ایک اینٹ لگانے تک ہی تھا تو کیا ہم نے وہ بطریقِ احسن کیا؟ کیا ہم نے اپنے حصے کا چراغ جلایا یا نہیں؟ میری نظر میں 14 اگست جشنِ آزادی کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا دن بھی ہے۔ یہ دن ہے کہ ہم اپنی اداؤں پر بھی غور کریں اور اپنے کردار کو وطن کے حصول کے عظیم مقصد کے آئینے میں دیکھیں ‘ خود کو ٹھیک کریں اور اپنی سمت درست کریں۔ صرف پرچم اُٹھانا کافی نہیں بلکہ پرچم کو بلند رکھنے کے لئے مسلسل جدوجہد ضروری ہے۔اور اسی خود احتسابی کے ضمن میں آزادی کا دن ہم سے ایک فرد کی حیثیت سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔
ہمارے عظیم راہ نما قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم جیسے زریں اُصولوں سے نوازا۔ اگر آپ کامیاب قوموں کی جدوجہد پر غور کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم جیسے راہ نما اُصول ہی قوموں کی کامیابیوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ اگر ہم اپنی قوم کو ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کے معیار پر پرکھیں گے تو کسی حد تک مایوسی ہوگی کہ ہم اپنے عظیم قائد کے زریں اصولوں کی پاسداری بھی نہ کر سکے۔ حالانکہ صرف ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کو ہم اپنی قومی اور اجتماعی زندگی میں رائج کر دیں تو کامیاب قوموں کی اگلی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
آزادی کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی کارکردگی کا بغور جائزہ لیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا تھا کہ تہتر بر س گزرنے کے بعد ہم کسی مقام پر کھڑے ہوں گے؟ اگر وہاں کھڑے ہیں تو مزید آگے کیسے بڑھنا ہے۔ اور اگر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں تو اُن عوامل کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے ہم قومی مقاصد حاصل نہ کرسکے اور ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہ ہو سکیں۔ کیا کبھی ہم نے کوئی اہداف طے کیے اور اگر طے کیے تو اُن کا حصول کیوں ممکن نہ ہوا؟ کیا ہمارے پاس ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا کو ئی میکانزم نہیں ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اگر ہماری منزل مشرق کی جانب ہے تو ہم مغرب کی طرف روانہ ہو نے والی ٹرین میں سوار ہوکر منزل سے دور ہو جائیں گے۔ہمیں اپنی سمت کا صحیح تعین کرنا ہوگا۔
آزادی کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے طرزِ حکومت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم نے جمہوریت کو ایک نظام کے طور پر اپنایا ہے تو کیا یہ ہماری قومی ترجیحات کا احاطہ کر تا ہو ا نظام ہے؟ کیا کبھی کسی علمی اور تحقیقی ادارے نے اس پہلو پر تحقیق کی کہ ہمارے معروضی حالات میں جمہوری نظام کیسے نمو پاسکتا ہے اور اگر اس میں کچھ خامیاں ہیں تو اُ ن کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا جمہوریت صرف الیکشن کا نام ہے یا کچھ اخلاقیات اور قدریں بھی اس نظام سے جڑی ہو سکتی ہیں؟ کیا ہم جمہوریت کے معیا ر کو بہتر کر سکتے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جمہوریت کی کا میابی میں فرد کا کتنا اہم کردار ہو سکتا ہے اور اس طرزِ حکومت میں فرد کہیں گم ہو چکا ہے ؟ یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ہر سطح پر جمہوری طرزِ حکومت کی کامیابی کے لئے مقصود ویلیو سسٹم وضع کیا جائے ۔ کسی بھی ویلیو سسٹم کی کامیابی کا دارومدار فرد پر اور پھر اداروں پر ہے کہ ادارے بھی فرد کی دانش ‘ لگن اور محنت پر انحصار کرتے ہیں۔
14 اگست کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم حقوق و فرائض کے ریاستی فلسفے کو پلے باندھیں۔ حقوق وفرائض کی جانکاری اور ادائیگی ایک متوازن کمیونٹی کا خاصہ ہے۔ بد قسمتی سے ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہوئے اپنے فرائض سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں۔ اگر ریاست کا فرد ہونے کے ناطے آپ کے کچھ حقوق ہیں تو ایسے ہی ریاست کی طرف آپ کے فرائض بھی ہیں۔ حقوق بلا شبہ آپ کی آزادی کو ظاہر کرتے ہیں جب کہ فرائض آپ کی ذمہ داریاں ہیں جو آپ کے حقوق جیسے ہی اہم ہیں۔ سڑک آ پ کا حق ہے لیکن سڑک کو صاف ستھرا رکھنا اور ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا آپ کی ذمہ داری...کیا ہی اچھا ہو کہ دن رات اپنے حقوق کا راگ الاپنے والے ہم لوگ اپنی ذمہ داریوں کا بھی خیال کریں ۔ حقوق کی تحریک یقینی طور پر ایک ضروری اقدام ہے لیکن کبھی کبھی فرائض کی تحریک بھی چلائیے کہ ریاست بھی تو آپ سے کچھ تقاضا کرتی ہے۔
14 اگست کا دن اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی ذات سے نکل کر سوچیں۔ ذات سے نکل کر سوچنا بہرطور ایک مشکل عمل ہے کیونکہ ایسا کرنے کے لئے آپ کو اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے تہتر سالوں میں انفرادی طور پر کامیاب پاکستانیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا لیکن ملکی سطح پراجتماعی کامیابی کا رجحا ن عام نہ ہو سکا اور بد قسمتی سے بہت سے کامیاب لوگ بھی اپنی ذات کے دائرے میں گھرے رہتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعیت کو فروغ دیا جائے۔ اجتماعی سوچ سے اجتماعی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے۔
14اگست ہمارے لئے ایک عظیم دن ہے ۔ آپ 14اگست کو جشن منائیں ۔ آزادی کی خوشیوں میں سرشار رہیں کہ آپ کو آزادی جیسی نعمت حاصل ہے اور آپ خوش قسمت ہیں کہ آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر کے لئے خو د کوخود احتسابی کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کریں اور ان چند سوالوں پر ضرور غور کریں۔ایسا کرنے سے ہم اپنی سمت درست کرنے اور درست رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ یاد رکھیے کہ کامیاب اور خوشحال پاکستان ہر پاکستانی کا خواب ہے اور ا س خواب کو ہر صورت شرمندہ تعبیر ہونا ہے۔