ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس اور پاکستان کی خارجہ پالیسی

کسی بھی ریاست کے نظام میں خارجہ پالیسی کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مؤثر خارجہ پالیسی دیگر ملکوں سے دوستانہ اور پائیدار تعلقات قائم کرنے میں مدد دیتی اور ریاستوں کے باہمی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کے لیے کامیاب سفارت کاری بھی بہت اہم ہے۔ سفارت کاری ایک مسلسل مشق ہے اور سفارت کارگفتگو اور مذاکرات کی مہارت سے اپنے ملک کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ دُنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں روایت ہے کہ جب بھی کوئی شخص طویل مدت تک سفارت کاری سے منسلک رہتا ہے تو وہ اپنے تجربات اورتجزیات کو کتابی شکل میں قلمبند کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سبکدوش ہونے والے سفارت کاریا کسی بھی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس لیے کتاب لکھتے ہیں تاکہ وہ آنے والی نسلوں کو اپنے سالہاسال کے تجربات کی بدولت حاصل ہونے والی دانش منتقل کر سکیں۔ پاکستان میں چونکہ کتاب پڑھنے والے اب خال خال ملتے ہیں‘ لہٰذا ظاہر ہے کہ کتاب لکھنے والوں کا تناسب بھی پڑھنے والوں کی طرح کم ہے۔ اِس کے باوجود خارجہ اُمور پرگزشتہ چند سالوں میں کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا جس سے لکھنے والے کا‘ جو واقعات کا ایک کردار رہ چکا ہوتا ہے‘ مختلف واقعات سے متعلق نقطہ نظر معلوم کیا جا سکتا ہے۔
خارجہ پالیسی اور سفارت کا ری کے حوالے سے حال ہی میں سابق سفارتکار اعزاز احمد چودھری کی کتاب ''ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘‘ چھپی ہے۔ اعزاز چودھری کی وزارتِ خارجہ کے لیے سینتیس سالہ خدمات ہیں۔ وہ ایک ذہین، باریک بین، واقعات کے تاریخی پس منظرکا ادراک رکھنے والے، ملک کی نظریاتی اسا س سے آگاہ اور کامیاب سفارت کار مانے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ بھی رہے اورایسے وقت میں وزارت ِ خارجہ میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے جب نائن الیون کے بعد پاکستان بہت مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ اُن کے تجزیے میں اُن کے براہ ِراست مشاہدے کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی کتاب نہ صرف ایک سفارت کار کا سفر ہے بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے پسِ پردہ واقعات کا پر تو بھی ہے جو خارجہ اُمور کے بہت سے پہلو ؤں کو اُجاگر کرتی ہے۔
''ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘‘ میں اسّی کی دہائی سے لے کر اب تک ہونے والے لگ بھگ تمام بڑے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب نہ صرف اعزاز چودھری کی پیشہ ورانہ زندگی کا سفر ہے بلکہ یہ پاکستان کی ڈپلومیسی کا سفر بھی ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کے بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات، علاقائی صورتحال، مسلم اُمہ، پاکستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات، معیشت اور قومی سلامتی جیسے موضوعات کو مختلف زاویوں سے اپنی بحث کا حصہ بنایا ہے۔ اگرچہ کتاب میں شامل سارے مضامین خاصے اہم ہیں؛ تاہم میں دو اہم پہلوؤں کا ذکر کرنا چاہوں گا، اول: پاک بھارت تعلقات اور دوم: پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز۔
پاک بھارت تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم چیلنج رہے ہیں۔ مصنف نے پاک بھارت تعلقات کی سرد مہری اور امن کی کوششوں کا مفصل ذکر کیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نوے کی دہائی میں کی جانے والی کوششوں کا مصنف خود بھی حصہ رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں دو ایٹمی ریاستوں کے مابین تعلقا ت کو معمول پرلانا علاقائی امن کے لیے ازحد ضروری ہے۔ وہ 2004ء میں‘ پرویز مشرف کے دور میں کی جانے والی مختلف کوششوں کے بھی چشم دید گواہ ہیں جب باہمی تعلقات کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور ہوا اور بعد میں چار نکاتی فارمولا بھی زیرِ بحث رہا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین امن اور دوستانہ تعلقات کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں‘ وہ بوجوہ بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔
اگر پاکستان کو درپیش خارجہ پالیسی چیلنجز کے حوالے سے بات کریں تو اس حوالے سے مصنف نے کئی اہم نکات اُٹھائے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر مقتدرہ کی مداخلت اور کسی حد تک غیر ملکی دباؤ کا اثر ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی پر وزارتِ خارجہ کی عملداری تو اپنی جگہ درست لیکن خارجہ پالیسی میں ملکی سلامتی کے تمام اداروں کی رائے اور تجاویز کو شامل کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے اور یہ مشق صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دُنیا کے زیادہ تر ممالک میں کی جاتی ہے کہ خارجہ پالیسی میں دیگر اہم اداروں کی رائے بھی شامل ہو۔ دوسرا چیلنج جس کا پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے‘ وہ پاک بھارت تعلقات کو معمول کی سطح پر رکھنا ہے۔ اِس وقت بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک تعطل کی کیفیت ہے جو خطے کے امن کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔ شاید پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں پاکستان کو کچھ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو آج کے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول کے لیے سازگار ہوں اور جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین مسائل کے دیرپا حل کی طرف پیش رفت ہوسکے۔ تیسراچیلنج ہے پاکستان کا ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طور پر تشخص قائم کرنا ہے۔ یہ تاثر کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت غلط ہاتھوں میں جا سکتے ہیں‘ ایک بے بنیاد مفروضہ اور پروپیگنڈا ہے جس کو پاکستان مخالف طاقتیں ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
چوتھا اہم چیلنج پاکستان کا دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا اتحادی بننا اور اس کے بعد کے حالات ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے سے پاکستان کونہ صرف اربوں ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا بلکہ پاکستان کے اسی ہزار سے زائد شہری اور سکیورٹی فورسز اہلکار بھی اس جنگ میں شہید ہوئے جبکہ دونوں ملکوں کے مابین بد اعتمادی کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی جو آج تک دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کا سبب بنی ہوئی ہے۔
پانچواں چیلنج جو اِ س وقت بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے‘ وہ افغانستان کے اندر بدامنی اور عدم استحکام ہے۔ چھٹا اہم مسئلہ چین اور امریکا کی سرد جنگ کا معاملہ ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور اگر یہ سرد جنگ 'گرم جنگ‘ کا روپ دھار لیتی ہے تو پاکستان کے لیے توازن قائم کرنا مشکل ہوگا اور اُس صورت میں پاکستان کے لیے مسائل زیادہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ساتواں بہت اہم مسئلہ مسلم دُنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہیں۔ گو پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی مسلم دُنیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھے لیکن سوائے چند مسلم ممالک کے‘ ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اِ س کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔
خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ سازی کے مراحل بہت پیچیدہ ہو تے ہیں۔ آ پ کو بین الاقوامی اور علاقائی حالات کو مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے اور اپنے ملک کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی مسائل اور مجبوریوں کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے کیونکہ بہر طور آپ کے ملک کے مفاد کا تحفظ آپ کی کامیاب سفارت کاری پر منحصر ہے۔ تیزی سے بدلتے ہو ئے عالمی اور علاقائی سیاسی حالات تقا ضا کرتے ہیں کہ سوچ بچار کا عمل بھی اُسی سرعت اور سنجیدگی سے ہو۔ اِس دُنیا میں جہاں لمحہ بہ لمحہ تنازعات اپنی ہیئت بدلتے ہیں‘ طاقت ور ملکوں کے مفادات بھی تیزی سے بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی ترقی پذیر ملک کے لیے اپنے مفادات کا تحفظ انتہائی اہم اور قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ دُنیا میں بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے استحصال میں پنہاں ہوتا ہے۔
اعزاز احمد چودھری کی ''ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستند تجزیہ ہے جو نہ صرف سفارت کاری کے میدان میں اُترنے والے نئے کھلاڑیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیے بھی یہ ایک اہم دستاویز ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں