انمول رفاقتوں کا سفر

تیس سال ہوتے ہیں ۔ مارچ 1991ء کی ایک روشن صبح ہے ۔اتنی مدت گزر چکی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ مارچ کا وہ خوبصورت دن ہماری یادوں میںابھی ابھی طلوع ہوا ہے۔ایک اہم دن جو ہماری زندگیوں میں بڑی تبدیلی کا سبب ہوااور آنے والے وقت کے لیے ایک سنگِ میل ثابت بن گیا۔ایک ایسا دن جب ہم کٹھن تربیت کی بھٹی سے نکل کر پیشہ ورانہ زندگی کے نئے چیلنجز کو قبول کرنے کو تیار ہو چکے تھے۔ 523 نوجوان جنٹلمین کیڈٹس پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے پریڈ گراؤنڈ سے ملحقہ میدان میں اُس تقریب میں شرکت کے لیے تیار کھڑے تھے جسے مسلح افواج کی اصطلاح میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کہا جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں پریڈ کی ابتدا ہونے والی تھی۔یہ دن تمام کیڈٹس کا اکیڈمی میں بحیثیت کیڈٹ آخری دن تھا ۔ ایک سرشاری اورگرم جوشی کی کیفیت تھی کیونکہ سب جانتے تھے کہ آج کی انتہائی منظم پریڈ ملٹری اکیڈمی میں اُن کے آخری دن کا آخری شو تھا ‘جسے وہ ہر قیمت میں کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ میدان میں موجود تمام کیڈٹس کے چہروں پر خوشی اور فخر کی سرخی بھی نمایاں تھی۔ سب تربیت کے انتہائی کٹھن مراحل طے کر کے اس دن تک پہنچے تھے اور جانتے تھے کہ اس وکٹری سٹینڈ پر کھڑا ہونے کے لیے کیسے کڑے امتحانوں سے اُن کا گزر ہوا اور کیسے اُن کی کامیابی میں مسلسل جدوجہد شامل تھی ۔ اکیڈمی کے ماہ وسال ایک یادگار وقت تھااور یہاں گزارے شب و روز کا ایک ایک لمحہ نہ صرف حسین یادوں کی صورت اُن کے لاشعور میں نقش ہو چکا تھا بلکہ اُن کی آنے والی زندگیوں پر مسلسل پرچھائی کیے رہا۔
تمام کیڈٹس خوش گپیوں میں مشغول تھے کہ پریڈ صوبیدار میجر کی بھاری بھر کم آواز گونجی اور پریڈ میں حصہ لینے والے تمام کیڈٹس متوجہ ہو ئے اور بلا کی پھرتی سے اپنی اپنی جگہ پریڈ میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو گئے۔ کچھ دیر بعد پریڈ کا آغاز ہوا۔ اکیڈمی کے بینڈ نے 'اے مرد ِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت ِ شہادت ہے آیا‘ کی دُھن چھیڑ دی اور سینہ تانے تمام کیڈٹس پریڈ گراؤنڈ میں داخل ہو گئے۔پریڈ گراؤنڈ میں پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس کے عزیزو اقارب بھی کثیر تعداد میں موجود تھے اوروہ خوشی سے سرشار اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ سب کے لیے کامیابی اور مسرت کا دن تھا۔ پریڈ کا آخری مرحلہ بہت مسرور کُن اور دل گداز تھا۔ پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس رابرٹ برنز کی خوبصورت نظم کی دل موہ لینے والی دھن پر آہستہ آہستہ ایک خاص ترتیب سے سیڑھیاں چڑھتے جا رہے تھے ۔ خوشی اور اُداسی کا امتزاج کہ یہ لمحہ کامیابی کی خوشی کے ساتھ ساتھ اکیڈمی سے الوداع ہونے کا لمحہ بھی تھا۔سیڑھیاں طے کرنے کی علامتی اہمیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جنٹلمین کیڈٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے تمام مراحل کامیابی سے طے کر کے افسر بننے کا اہل ہے۔ دو سال قبل جب یہ نوجوان بے یقینی کے عالم میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے تھے تو تربیت کے کٹھن مراحل اُن کا انتظار کر رہے تھے‘ مگر ایک باوقار اور روشن مستقبل کی نوید بھی سنائی دے رہی تھی۔ اُن کے لیے آج اُن کے خوابوں کی تعبیر کا دن تھا۔
دو سال کی تربیت کے بعد پاس آؤٹ ہونے والا یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کا 83 لانگ کورس تھا۔ پانچ سو تئیس نوجوان دو سالوں میں آٹھ اور تین کے ہندسوں میں یوں پرو دیے گئے تھے کہ سال ہا سال تک تراسی کا ہندسہ ہی سب کی منفرد شناخت قرار پایا بلکہ آج تک 83 ہی خاکی دنیا میں سب کی پہچان ہے۔ افواج کے پس منظر سے نا آشنا اور فوجی طرزِ زندگی سے ناواقف لوگ 'کورس‘ اور 'کورس میٹ‘ کی اصطلاح سے نابلد ہوتے ہیں۔ 'کورس میٹ ‘ ایک خوبصورت رشتہ ہوتا ہے جہاں لوگ ہندسوں سے جڑ کر تعلق میں بندھ جاتے ہیں‘ ایسے ہی جیسے ہم سب83 کے ہندسے سے جڑے ہوئے تعلق دار ہیں اور تیس سال سے اس انمول رشتے کی آبیاری کر رہے ہیں۔
'کورس میٹس‘ کی منفرد دنیا ہوتی ہے‘ جہاںپرانے دوست اکٹھے ہوتے ہیں ۔ یادوں کی پٹاری کھلتی ہے اورلڑکپن کی اکثر حماقتوں کا ذکر ہوتا ہے اور پھر قہقہوں کی یلغار ہو جاتی ہے۔کورس میٹس کی گفتگو میں استعمال ہونے والے مخصوص الفاظ ‘ اشارے اور جملے صرف کورس میٹس ہی سمجھتے ہیں۔ کورس میٹس کی دنیاایسی دنیا ہوتی ہے جہاں ' تُو‘ ، 'تم‘ اور' اوئے ‘ محبت اور اُنسیت کا جبکہ آپ اور جناب روکھے پن اور بیگانگی کے استعارے سمجھے جاتے ہیں۔
پاسنگ آؤٹ کے بعد تمام لوگ پیشہ ورانہ زندگی کی دوڑ میں جت گئے۔ علم و ہنر کے حصول کا بے انت سلسلہ تھا جو فوجی زندگی میں ساتھ ساتھ جاری رہا ۔ کچھ لوگ ا س گمان میں ہوتے ہیں کہ فوج میں آگئے ہیں تو صرف بندوق چلانی ہو گی‘ پڑھائی لکھائی کا یہاں کیا لینا دینا‘ لیکن بہت جلد اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ فوج میں لکھنے پڑھنے سے متعلق اُن کا گمان زیادہ درست نہیں تھا۔ افواج کے افسروں کے لیے تربیت کا ایک خاص نظام ہوتا ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ دورانِ سروس جاری رہتا ہے۔ جوں جوں فوجی افسر ترقی کی منازل طے کرتے ہیں ایسے ہی اُن کی تربیت کا معیا ر بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔
فوجی زندگی میراتھن کی طرح ہوتی ہے جہاں پختہ عزم‘ استقامت اور مستقل مزاجی کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔اس لمبی دوڑ میںکچھ لوگ جلد ہی تھک جاتے ہیں ‘ کچھ تھوڑی دورتک چل کر کہیں رک جاتے ہیں ‘ کچھ درمیان میں پڑاؤ کر لیتے ہیں اور چند اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔چونکہ فوج میں پیشہ ورانہ اور سماجی زندگی ایک خاص ضابطے کے ساتھ گزاری جاتی ہے اس لیے فوجی کی زندگی میں ضابطے اور ترتیب کا عمل دخل ضرور رہتا ہے۔ میری رائے میں مخصوص تربیت اور روشن روایات کی وجہ سے فوج میں گزرا وقت 'نوکری ‘ نہیں ہوتا بلکہ ایک طرزِ زندگی ہوتا ہے جو ہر فوجی کی زندگی سے جھلکتا ہے۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر تمام کیڈٹس وطن پر جان قربان کرنے کا حلف اُٹھاتے ہیںلیکن وطنِ عزیز کی طرف سے ہر ایک سے جان کی قربانی طلب نہیں کی جاتی کہ یہ عزت و تکریم صرف مخصوص لوگوں کا نصیب ہوتی ہے۔ 83لانگ کورس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ امر باعث ِ فخر و تو قیر ہے کہ ہمارے19 جانباز کورس میٹس نے وطن کی پکار پر لبیک کہا اور وطن کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وطن پر جان نثار کرنے والوں میں شہاب ‘ عامر عباس‘ اکرام الحق‘ جواد خان‘ توقیر حیدر‘ اظہر اقبال ‘ شیراز‘ آفاق احمد‘ محمد آصف ‘ پرویز‘ سید ندیم علی‘ وقار سعید‘ سعد خٹک ‘ خلیل خٹک ‘ زاہد‘ جمیل ‘ شاہد بٹ اورنوید شامل ہیں۔ بلا شبہ یہ19 شہید 83 لانگ کورس کا فخر ہیں۔ آج بھی کورس کی تمام سماجی تقریبات میں شہدا اور چند دوسرے دوست جو ہمیں داغ ِ مفارقت دے گئے اُن کے لواحقین کی پُر وقار شرکت کو یقینی بناکر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم اُن کو ہر گز نہیں بھولے بلکہ وہ ہم سب کی یادوں میں پل پل موجود ہیں۔
تیس سال ہوتے ہیں ۔ایک طویل مدت گزر چکی ہے...بہار اور خزاں کے جھمیلوں...غم اور خوشی کے بکھیڑوں سے گزرتی زندگی میں مارچ کی اُس روشن صبح کو شروع ہونے والا سفر جاری ہے۔ انمول رفاقتوں کا سفر آج بھی جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں