قوم کو تقسیم ہونے سے روکیے !

وطنِ عزیز میں کئی ماہ سے ایک ہیجان کی کیفیت ہے۔ عجب افراتفری کا سماں ہے۔یوں لگتا ہے کہ ساری قوم مختلف طبقات اور گروہوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ ملک میں جاری طاقت کی کشمکش کی بدولت سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہ درجہ حرارت صرف طاقت کے ایوانوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے دُور دراز کے تمام علاقوں،گلی کوچوں، قصبوں اور شہروں میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔ گلی گلی‘ قریہ قریہ ایک نہ ختم ہو نے والی لاحاصل بحث جاری ہے۔لوگ باہم دست و گریباں ہیں۔سوشل میڈیا پرمختلف سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کے درمیان ایک مخاصمت کی فضا برقرار ہے۔ ہر شخص دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جو مؤقف وہ اختیار کیے ہوئے ہے‘ وہ مدلل، جامع اور وزنی ہے اور مخالف فریق کی بات لفظوں کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہر کوئی چاہ رہا ہے کہ اُس بات مکمل سنی جائے اور اُس پر من و عن یقین بھی کیا جائے۔ شور و غوغاایسا کہ کان پڑی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ڈائیلاگ اور گفتگو کے تمام شائستہ طریقے متروک ہو تے جا رہے ہیں۔ غیر شائستہ گفتگو اب معمو ل اور گالی گلوچ ایک طریق بن چکی ہے۔
اِس ساری صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم‘ جو پہلے ہی مختلف طبقوں، گروہوں، فرقوں اور ذاتوں میں منقسم چلے آرہے تھے‘ مزید تقسیم کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ تقسیم کا عمل اب ایک ایسی نہج پر پہنچتا جا رہا ہے جو بلاشبہ ہماری کمزوری بن جائے گا اور جو ملک دشمن طاقتیں بہ آسانی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں گی۔ آج بھی اِ س کشیدہ ماحول پر ہمارے دشمن خوشی کے شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے اِس معاشرتی تقسیم کے ساتھ کچھ لوگوں کے مفادات وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد و یگانگت کا حصول مشکل اور منافرت کا پرچار آسان دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ ہماری اِس معاشرتی، سماجی اور اخلاقی تنزلی کے اسباب کیا ہیں؟ شائستگی سے منافرت کے اِس سفر کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو شاید ریاستی عدم توجہی ہے کہ ریاست نے قوم اور معاشرے کی طے شدہ اُصولوں کے تحت رہنمائی کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ ریاست اِس لیے بھی ذمہ دار ہوتی ہے کہ اسے اپنی عمل داری کے لیے ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوتا ہے اور اُس پر عمل درآمدکرانا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ بہت سے گروہی، سماجی، لسانی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے اور ایسے طبقات پنپنے دیے گئے جنہوں نے نفرت کی آگ پھیلانے میں کردار ادا کیا۔ جب بھی کوئی معاشرہ طبقات میں بٹ جاتا ہے تو وہاں چند لوگ اپنے مفادات حاصل کرنے کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں اور زیادہ تعداد میں لوگ محرومیوں کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ یوں مفاداتی طبقہ مختصر اور تعداد میں کم لیکن طاقت ور اور محروم طبقہ بڑا اور تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود محکوم اور کمزور رہ جاتا ہے۔ یوں ملک دو بڑے طبقات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک دولت اور طاقت کے بل بوتے پر خوشحال اور دوسرا بے سہارا اور محروم رہ جاتا ہے۔
دوسری اہم وجہ قوم کا اجتماعی شعور ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں علم کا فقدان ہے اور اِس وقت ملک میں بسنے والوں کی اکثریت علم کے حصول کے مواقع سے محروم ہے جس کا اثر بلا شبہ کسی بھی قوم کے اجتماعی شعور پر پڑتا ہے اور اجتماعی شعور کا اثر قوم کی اقدار پر بھی ہوتا ہے۔
دو دہائیاں پہلے الیکٹرانک میڈیا عام ہوا۔ اِس کا ایک مثبت پہلو تو آزادیٔ اظہارِ رائے تھا لیکن منفی پہلو یہ تھا کہ بعض چینلز نے دوسروں پر سبقت لے جانے کی دوڑ میںآزادی کی اخلاقیات طے نہیں کیں۔ پھر سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا اور سوشل میڈیا توہے ہی شتر ِ بے مہار۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا ادراک نہیں کر پاتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر اُس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس تیزی سے بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیسے کیا جائے اور اِ س معاشرتی تقسیم اور تنزلی کو کیسے روکا جائے۔ اتحاد ویگانگت اور ہم آہنگی اِ س تقسیم کو روکنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان کو کیسے ممکن بنایا جائے کہ لوگ اپنے اپنے نظریات کے ساتھ جڑے رہیں اور قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ملک میں بڑے گروہ‘ سیاسی جماعتیں ہیں اور بڑی تقسیم بھی اُن کے رویوں سے ہی پیدا ہورہی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین حکمت و تدبر کا مظاہرہ کریں۔ یہ سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ فہمی سے مسائل کو حل کریں اور اپنے پیروکاروں اور کارکنوں کی اخلاقی تربیت کریں۔ہر وقت کی لعن طعن اور گالی گلوچ ہیجان کا سبب بنتی ہے اِ س لیے اِس طرح کے رویے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ سب کو مل کر ایسا ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا جو انتشار کو پھیلنے سے روکے۔منافرت کا چلن ترک کرنا ہوگا۔
کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے میں سول سوسائٹی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے حصول کے لیے سول سوسائٹی ایک مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ معاشرے کے پڑھے لکھے اور متوازن رائے رکھنے والے لوگ آگے بڑھ کر اِس تقسیم کو روک سکتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی مدد سے مختلف پلیٹ فارمز تشکیل دیے جاسکتے ہیں جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو صاحبانِ رائے بھی ہوں‘ مختلف موضوعات پرفراخ دلی سے گفتگو کریں اور ہماری قومی یکجہتی کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر مباحث کریں۔ رفتہ رفتہ سول سوسائٹی کا دائرہ کا روسیع کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش پر نشریاتی ادارے اکثر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں اور اکثر اوقات رپورٹنگ میں کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کی طرف واضح جھکاؤ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کسی خاص گروہ کے مقاصد کی ترویج کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اِس کا حل یہ ہے کہ میڈیا ہائوسز کے ذمہ داران ایک ضابطۂ اخلاق طے کرکے ازخود اُس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ ایسے اُ مور جو ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کے لیے اہم ہیں‘ میری رائے میں ان پر صرف خبر دی جانی چاہیے‘ کوئی بیانیہ تعمیر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اِسی طرح ایک ذمہ دار اور کسی ضابطے کے تحت کام کرتا سوشل میڈیا بھی قومی یک جہتی کے فروغ میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں جب دشمن قوتیں ہماری یک جہتی اور ہم آہنگی کے درپے ہیں‘ قوم کو متحد رکھنا ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔ یہ کام حکومت یا کوئی ایک ادارہ نہیں کر سکتا۔ ہم سب کو اِس میں اپنا اپنا کردار ادا کر نا ہوگا۔ معاشرے کے تمام طبقات کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور ہمیں ہر صورت قوم کو تقسیم ہونے سے روکنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں