ہم چین سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

پچھلی چند دہائیوں میں دُنیا کی سب سے اہم پیش رفت چین کی بے مثال ترقی ہے۔ یہ بحث آج کل زبان زدِ عام ہے کہ ہم چین کی غیر معمولی ترقی اور قلیل وقت میں کامیابی سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ چین نے پچھلی چار دہائیوں میں جس تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کی ہیں‘ وہ بلاشبہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ چین نے اَسّی کی دہائی کے اوائل میں اپنی ریاستی پالیسی اور معاشی نظام میں بڑی تبدیلیاں کی تھیں۔ چین کے نظام میں بڑی تبدیلیوں اور اصلاحات کا محور دراصل چین کا معاشی نظام تھا جو باقی دُنیا سے تقریباً الگ تھلگ تھا۔ چینی راہ نماؤں کو ادراک ہوا کہ دُنیا میں تنہا رہ کر معاشی ترقی کا خواب مشکل سے شرمندۂ تعبیر ہو گا لہٰذا چین کی سیاسی قیادت اور معاشی ماہرین نے سوچ بچار کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کیں کہ جن سے اُن کے لیے باقی دُنیا کے معاشی نظام میں ضم ہونے کی گنجائش پیدا ہو سکے۔ جب چین نے اصلاحات کا عمل شروع کیا تو اس کے معاشی اشاریے تیزی سے بہتر ہو نا شروع ہو گئے۔ معاشی اصلاحات کی بدولت چین نہ صرف بہت کم وقت میں دُنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر اُبھرا بلکہ‘ کچھ معاشی ماہرین کی رائے میں‘ کچھ زاویوں سے چین دنیا کی پہلی بڑی معیشت بن چکا ہے جس کا صرف باضابطہ اعلان ہونا باقی ہے۔
چین کی حیرت انگیز ترقی کا پہلا راز دور اندیشی ہے۔ چین کے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ممالک کے ساتھ تعلقات میں چین کی دانش مندی اور دور اندیشی نمایاں نظر آتی ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ چین کے سیاسی معاملات پر اختلافات ہیں اور کئی دہائیوں سے تعلقات میں مستقل سرد مہری ہے لیکن اس کے باوجود چین نے اُن ممالک کے ساتھ نہ صرف تجارتی‘ معاشی و اقتصادی تعلقات قائم کر رکھے ہیں بلکہ مسلسل اُن میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کے ساتھ چین کے سرحدی معاملات پر اختلافات ہیں اور اُن اختلافات کی وجہ سے متعدد بار دونوں ملکوں کی افواج کے مابین جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج آج بھی لداخ سیکٹر سمیت کئی مقامات پر آمنے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں کے مابین تجارت نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور بھی بہت سے ممالک ہیں جن کے ساتھ چین کی سیاسی مخاصمت ہے یا وہ چین کے ساتھ کئی معاملات پر اختلاف رکھتے ہیں‘ لیکن اُن کے ساتھ بھی چین بہت دُور اندیشی، دانش اور احتیاط سے ڈیل کرتا ہے۔ چین کے بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معیشت کو سب سے بڑی ترجیح سمجھتا ہے۔ چین کی اِس دُور اندیشی ہی میں چین کی منفعت پنہاں ہے۔
جس طرح چین نے انتہائی کم وقت میں اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کیا ہے‘ اُس سے نہ صرف وہ دُنیا میں ایک مثال بلکہ ایک کامیاب ماڈل بن کر بھی اُبھرا ہے۔ چین جدید دُنیا کی تاریخ کا شاید واحد ملک ہے جس نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ وہاں اب انتہائی غربت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور یہ صرف چار دہائیوں میں ممکن ہوا ہے کہ لوگ انتہائی غربت کے چنگل سے آزاد ہوئے۔ چین میں انتہائی غربت کے خاتمے کی وجہ سے دُنیا کی غربت 70 فیصد تک کم کرنے میں بھی مدد ملی۔ یوں چین نے نہ صرف 77 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا بلکہ عالمی سطح پر بھی تین چوتھائی غربت کا خاتمہ کرنے میں مدد کی؛ یعنی چین کی طرف سے اپنے ہاں غربت کو ختم کرنا‘ عالمی سطح پر بھی غربت کو کم کرنے کے مترادف تھا۔ غربت کے خلاف چین کی جنگ انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اِس جنگ میں کامیابی صرف تسلسل سے جاری رکھی جانے والی پالیسیوں کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ غربت کے خاتمے کے لیے چین نے وسیع تر معاشی اہداف طے کیے، لوگوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کیے، اوسط آمدن کو بڑھا نے میں انہیں مدد فراہم کی۔ چین نے ایک سکیم کے تحت پہلے پسماندہ ترین علاقوں کو ترقی دی اور پھر خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں پر توجہ مرکوز کی۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اس پالیسی کو ایک تسلسل کے ساتھ لاگو کیا اور جاری رکھا گیا۔ چین میں غربت کے خاتمے کیلئے زراعت کے شعبے نے نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ بڑی حد تک چین کی غربت کے خاتمے کی کوششوں کا مرکز زراعت، کسان اور دیہی علاقوں کی ترقی جیسے اقدامات تھے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایسے ملک میں ہوا جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ یعنی چین کو غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کا چیلنج بھی درپیش تھا۔
چین کی مثالی ترقی میں گورننس سسٹم کا بھی گہرا عمل دخل ہے اورگورننس سسٹم چین کی سب سے بڑ ی کمیونسٹ پارٹی کا مرہونِ منت ہے۔ چین میں اصلاحات اور عمومی ترقی پر کمیونسٹ پارٹی یکسو ہے۔ وہ مختلف اداروں میں ترقی و خوشحالی کے لیے سفارشات تیار کرنے میں مدد کرتی ہے اور اُن پر عمل درآمد کا لائحہ عمل بھی طے کرتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے کردار کو چین کا آئین تحفظ دیتا ہے اور اِس طرح یہ پارٹی چین میں سیاسی استحکام کی بھی ضامن ہے۔ چین کا گورننس ماڈل مؤثر کارکردگی پر انحصار کرتا ہے۔ نظام میں مسلسل اصلاحات کا عمل جاری رہتا ہے جس سے حکومتی مشینری کی استعداد بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ناقدین چین کے گورننس سسٹم اور اکلوتی کمیونسٹ پارٹی کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں کہ چین کا نظام دُنیا میں رائج دیگر نظاموں سے مختلف اور منفرد ہے لیکن بہت سے دانشور چین کی غیر معمولی ترقی میں کمیونسٹ پارٹی کے کردار کے بھی معترف ہیں۔ چین کی قیادت اور پارٹی کے زعما بھی اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ گورننس کے معاملے میں کسی قسم کی ناکامی درحقیقت پارٹی کی ناکامی تصور ہو گی اور گورننس کی ناکامی پارٹی کی ساکھ اور قانونی حیثیت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ چین کا گورننس سسٹم ایسا منفرد سسٹم ہے جو پارٹی اور ریاستی اداروں کے باہمی تعاون سے چلتا ہے جس کو عرفِ عام میں پارٹی گورنمنٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ چین میں سیاسی اور معاشی استحکام کی وجہ پالیسی کا تسلسل اور مؤثر گورننس سسٹم ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کے جو لوگ اِس نظام سے مستفید ہو رہے ہیں‘ اُن کا ریاست اور نظام پر اعتماد پختہ ہوا ہے۔
اگر ہم سیکھنا چاہیں تو چین کی غیر معمولی ترقی اور کامیابی میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے چین کی سیاسی قیادت نے چین کے وژن اور مقاصد طے کیے اور کیسے اُن مقاصد کے حصول کے لیے واضح حکمت عملی مرتب کی۔ ہم سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے چین کی قیادت نے بروقت فیصلے کر کے سبک رفتاری سے ترقی کے بڑے منصوبے مکمل کیے۔ ہم سیکھ سکتے ہیں کہ صرف چند دہائیوں میں ایک الگ تھلگ دکھائی دینے والے ملک کو کیسے چینی قیادت نے ایک ایسا ملک بنا دیا جس سے ساری دُنیا کے ممالک سیاسی، سفارتی، تجارتی اور ثقافتی روابط رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے چینی قیادت نے سنجیدگی سے بدعنوانی، آلودگی، آبادی اور نااہلی جیسے مسائل پر جنگی بنیادوں پر کام کیا۔ ہم چین سے صبر و استقامت سیکھ سکتے ہیں۔ ہم چین سے توازن سیکھ سکتے ہیں۔ ہم چین سے نظم و ضبط سیکھ سکتے ہیں۔ ہم چین سے اتحاد و یگانگت سیکھ سکتے ہیں۔ ہم چین سے محنت اور جانفشانی سیکھ سکتے ہیں۔ ہم چین سے یکسوئی سیکھ سکتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ ہم چین سے چینی دانش سیکھ سکتے ہیں‘ جس کے پیچھے ہزاروں سال کے تجربات اور عرق ریزی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں