مکالمہ برائے پاکستان

وطنِ عزیز میں اس وقت ایک ہیجان کی کیفیت برپا ہے اور بظاہر کہیں سے کسی دُور اندیشی اور دانش مندی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ سب سٹیک ہولڈرز کے آپشنز محدود ہو تے جا رہے ہیں اور سب انتہائی تیزی سے بند گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ملک میں پھیلی سیاسی افراتفری اور ہیجان براہِ راست ملک کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہو ئے ہے اور بلا شبہ ملک کے معاشی حالات اِس بے یقینی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام اِس معاشی بدحالی کا براہِ راست نشانہ بن رہے ہیں اور اُن کی مشکلات میں روز بر وز اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات پر ملک کے طول و عرض میں خاموشی اور لاتعلقی کا تاثر ملتا ہے۔ ہر کوئی اپنے موقف پر قائم ہے۔ ہر سٹیک ہولڈر سمجھتا ہے کہ اُس کی طرزِ فکر، سوچ کا انداز اور زاویۂ نگاہ ہی درست ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری اس ہیجانی کیفیت کے دوران کچھ بھی ایسا نہیں ہو سکا جسے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کہا جا سکے‘ تاحال کوئی ایسی قابلِ عمل اور صائب تجویز سامنے نہیں آئی جس پر تمام فریق متفق ہو سکیں۔ کوئی ایسا پلیٹ فارم تک سامنے نہیں آیا جو ہمارے مسائل کا مستقل بنیادوں پر کوئی حل تجویز کر سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ جیسا اِدارہ بھی قریب قریب غیر مؤثر ہو کر رہ گیا ہے۔ ملک میں افراتفری کا راج اور عدم استحکام کا پھیلائو ہے کہ تسلسل سے ہمارے معاشرتی و سماجی نظام کی جڑیں کھوکھلی کیے جا رہا ہے۔
پاکستان کی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ملکی معیشت تیزی سے دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہی ہے۔ کچھ آزاد رائے رکھنے والے معاشی ماہرین تو یہ تک سمجھتے ہیں کہ معیشت اگر دیوالیہ پن کے قریب نہیں ہے تو بھی کریڈٹ ڈیفالٹ کا خطرہ 90 فیصد سے زائد ہو جانے پر سنگین مشکلات کا شکار ہے۔ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کریڈٹ ڈیفالٹ کو خطرہ نہیں سمجھتے اوراُن کا خیال ہے کہ دیوالیہ پن کی خبریں درست نہیں ہیں اور یہ سب کچھ محض سیاسی بیان بازی کی حد تک ہے۔ اُن کے خیال میں پاکستان نہ صرف دیوالیہ پن کی طرف نہیں جا رہا بلکہ اِس کے برعکس پاکستان کی معیشت استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وزیر خزانہ کی رائے اپنی جگہ لیکن پاکستان میں کاروبار ی حضرات ان کے موقف سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ اُن کے خیال میں پاکستان تیزی سے ایسا ملک بنتا جا رہا ہے جہاں پر کاروبار کرنے کا ماحول بدستور تنزل کا شکار ہو رہا ہے جو ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اِس طرح کی غیر یقینی صورتِ حال میں کوئی بھی شخص یا ادارہ یہاں کاروبار کرنے یا سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
اِس وقت پاکستان کو بہت سی معاشی مشکلات درپیش ہیں جن میں شرحِ سود میں حالیہ اضافہ، بے ہنگم مہنگائی، صنعتی پیداوار میں کمی، ٹیکس آمدن میں کمی، معاشی ترقی میں کمی اور اشیائے ضرورت کا عام لوگوں کی پہنچ سے دُور ہو جانا ایسے مسائل ہیں جو ملک کے مجموعی معاشی و سماجی حالات کی خرابی کی نشان دہی کرتے ہیں اور ان کا تدارک اشد ضروری ہے۔ کچھ معاشی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ معیشت سے متعلق اعداد و شمار میں سیاسی مقاصد کے لیے بھی ردوبدل کیا جاتا ہے جس کا شاید کچھ وقت کے لیے توسیاسی فائدہ ہو تا ہو مگر یہ طریقہ معاشی معاملات کے دیرپا حل کے لیے سراسر نقصان کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کا حقائق پر مبنی ایک جائزہ لینا از حد ضروری ہے اور معاشی اشاریوں میں مصنوعی ردوبدل کر کے ایک خاص سیاسی بیانیہ بنانے کے بجائے معاشی منصوبہ بندی کے لیے حقیقی اعداد و شمار کو پیمانہ بنا کر پائیدار معاشی حکمتِ عملی طے کرنا چاہیے۔
میری رائے میں پاکستان میں موجودہ سماجی معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ یا اگر 73 ء کے آئین کی رو سے دیکھا جائے تو گزشتہ پچاس سالوں سے رائج نظام مسلسل نا کامیوں سے دوچار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کا نظام عوام سے اپنی طاقت تو کشید کرتا ہے لیکن عوامی اُمنگوں کا ترجمان نہیں ہے۔ یہ نظام عوام کو طاقت کا سرچشمہ تو گردانتا ہے مگراِس نظام میں عوام سب سے زیادہ نظر انداز کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ جو نظام عوامی مفاد کا محافظ ہونا چاہیے وہ عوام کے لیے منفعت کا باعث ہر گز دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی صورتِ حال میں اِس نظام کا ایک عمیق جائزہ لینے اور معروضی حالات کے تحت اس میں مناسب تغیر و تبدل کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی خاص طبقے کے مفادات کے تحفظ کے برعکس سیاست، گورننس یا سماجی مسائل پر بحث عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے۔ دُنیا کا ہر نظام اِنسانوں یعنی جمہور کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر مدار کرتا ہے۔ اِ س لیے وقت کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات کی روشنی میں مناسب تبدیلیاں کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان میں نظام کے سٹیک ہولڈرز میں سرد مہری اور عدم دلچسپی کا رجحان غالب ہے۔ یہ صورتِ حال بدستور پیچیدہ ہو رہی ہے جس سے مزید نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اِس نظام کے سٹیک ہولڈرز کون ہیں؟ عوام یا جمہور‘ سیاستدان یا سیاسی اشرافیہ‘ حکومتی اہلکار یا بیورو کریسی‘ ملک کے اہم ادارے‘ یونیورسٹیز‘ تھنک ٹینکس‘ دانشور اور سول سوسائٹی؛ یہ سب اِس نظام کے سٹیک ہولڈرز ہیں اور کوئی بھی سٹیک ہولڈر خود کو ان مسائل سے جدا نہیں کر سکتا۔ سب کو دیگر سٹیک ہولڈرز کے کردار کا تعین کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہو گی اور سب کو مل کر نظام کی بہتری کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
یہ ایک مناسب تجویز ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز خود اپنے حلقوں میں الگ الگ پلیٹ فارم یا فورم تشکیل دیں اور یہ فورمز ملک کو درپیش مسائل پر سنجیدہ مباحث کا آغاز کریں اور اپنی اپنی سفارشات مرتب کریں جو نہ صرف اُن کے اپنے کردار سے متعلق ہوں بلکہ عمومی بھی ہوں۔ مرکز کی سطح پر قائم کیے جانے والے فورم میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مناسب نمائندگی ہو۔ سٹیک ہولڈرز کی سفارشات کے نتیجے میں ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جو ملک و ریاست اور معاشرے کو درپیش بڑے مسائل کا احاطہ کرے۔ قابلِ عمل تجاویز کا سب سے اہم اور اولین فوکس ملک میں دیر پا سیاسی استحکام، معاشی پالیسیوںکا تسلسل اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو۔ میری رائے میں یہ انتہائی مناسب وقت ہے کہ ہم ''ڈائیلاگ فار پاکستان‘‘ یا ''مکالمہ برائے پاکستان‘‘ کا آغاز کریں۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے حلقوں سے چند غیر متنازع، معتبر، اچھی شہرت کے حامل اور کامیاب لوگوں کو اپنی نمائند گی کے لیے متحرک کریں۔ ہمارے مسائل غیر روایتی نوعیت کے ہیں اوراُن کا حل بھی غیر روایتی ہوگا۔ ہمیں اِس غیر فعالیت کی حالت اور جمود سے نکلنا ہوگا اور تمام مکاتبِ فکر کو مل کر سوچنا ہو گا کہ ہم اِ س دلدل سے کیسے نکلیں۔ میثاقِ جمہوریت ایک اچھا آئیڈیا تھا اور میثاقِ معیشت بھی ایک اچھی تجویز ہے کہ آپ کو کچھ قومی مسائل پر گروہی مفادات سے اُوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے۔ دُنیا بھر میں سیاست، سماجی انصاف، گورننس اور اصلاحات کے ضمن میں قابلِ تقلید مثالیں موجود ہیں اور دُنیا کی کامیاب مثالوں کو اپنے حالات کے مطابق ڈھال کر اپنایا جا سکتاہے۔ اگر یہ ہوسکے تو یقینا درست سمت میں ایک قدم ہوگا اور قوموں کی زندگی میں درست سمت کا تعین ہی سب سے اہم ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں