دماغوں کی ہجرت

انسان کیوں ہجرت کرتے ہیں؟ اور کیا پرندے بھی انسانوں کی طرح ہجرت کرتے ہیں؟ اگر پرندوں کی ہجرت کے موضوع پر سرسری تحقیق بھی کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسانوں اور پرندوں کی ہجرت کی وجوہات قریب قریب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ پرندوں کی زندگیوں پر کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انسانوں کی طرح پرندوں کی ہجرت کے پیچھے بھی معیشت ہوتی ہے اور پرندوں کے لیے بڑا مسئلہ بھی وسا ئل کی کمی ہوتا ہے۔ پرندے بھی کسی ایک مقام پر وسائل کی کمی ہو جانے سے کسی دوسر ے مقام کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور ایسے مقام کو اپنے مسکن کے طور پر چنتے ہیں جہاں خوراک وافر ہو اور گھونسلا بنانے کے لیے مناسب جگہ موجود ہو۔ گویا پرندے بھی انسانوں کی طرح سوچتے ہیں۔ جیسے کسی شاعر نے خوب کہا:
پرندہ خشک جھیلوں سے یہی اب کہہ گیا آخر
مجھے مجبور ہجرت پر میرے حالات کرتے ہیں
ہجرت یا نقل مکانی پرندوں کی دنیا میں ہو یا انسانوں کی دنیا میں‘ دونوں ہی صورتوں میں ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کبھی بھی دیس کو خیر آباد کہنا آسان نہیں ہوتا اور ہجرت یا نقل مکانی کسی کے لیے کسی بھی عمر میں ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ وطن ہر ایک کے لیے اس کی شناخت ہوتا ہے۔ شہر اور گاؤں سے آپ کی دلی اور جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے۔ گلی کوچوں میں آپ کھیل کود کر جوان ہوتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں اور تعبیروں کے تعاقب میں بھاگتے پھرتے ہیں۔ مٹی‘ جس کے ساتھ آپ سالوں تک جڑے رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان سب عوامل کا اثر آپ کی شخصیت میں دکھائی دینے لگتا ہے اور یوں آپ کی زندگی میں کسی مثبت حوالے سے آنیوالے واقعات‘ مقامات اور لوگ آپ کی زندگی میں اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ برسوں کی وابستگی چھوڑ کر اگر کوئی شخص ہجرت کا فیصلہ کرتا ہے تو یقینی طور وہ کسی بڑے سماجی اور معاشرتی دباؤ کے زیر اثر ہی کر سکتا ہے۔ اپنے ملک میں اپنی زمین‘ اپنا گھر‘ اپنے عزیز و اقارب اور اپنا کاروبار چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا اور معاشی سطح پر ایک نئی جدوجہد شروع کرنا بہرطور ایک مشکل کام ہوتا ہے۔
کسی ملک میں سیاسی افراتفری‘ معاشی عدم استحکام‘ گورننس کا فقدان اور روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے تو وہاں کے لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کریں گے جہاں انہیں بہتر معاشی مواقع میسر ہوں اور وہ پُرامن زندگی گزار سکیں۔ دنیا بھر میں پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں دوسرے ملکوں کو ہجرت کرتے ہیں کہ بہتر سے بہتر کی تلاش کرۂ ارض پر موجود ہر ایک انسان کا حق ہے لیکن اگر یہ خیال نوجوان نسل کی سوچ میں گھر کر جائے کہ ان کا مستقبل اپنے ملک سے وابستہ نہیں‘ ان کے ملک میں روزگار کی مساوی تقسیم نہیں اور اہلیت و کارکردگی کے بجائے اقربا پروری کا چلن عام ہے‘ ملک میں عمومی حالات ایسے ہیں جس میں ان کی ترقی و خوشحالی کے امکانات زیادہ روشن نہیں‘ ان کے ملک میں سماجی انصاف نہیں اور ان کے پاس کسی دوسرے ملک کو ہجرت کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تو وہاںکی نوجوان نسل میں نقل مکانی کے رحجان کو فروغ ملے گا۔ بہت تعداد میں لوگ بہتر معاش اور بہتر طرزِ زندگی کے لیے ہجرت اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص نہ صرف بہتر تعلیم‘ مساوی روزگار کے مواقع اور ایک خوشگوار اور محفوظ زندگی چاہتا ہے بلکہ ہر کوئی اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے بارے میں بھی متفکر ہوتا ہے اور ہر ذی شعور اور ذمہ دار شخص کو اپنی آنے والی نسل کے لیے بہتر حالات کا خواہاں بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان سے متعلق بیورو آف امیگریشن کے حالیہ اعداد و شمار بہت تشویش ناک ہیں۔ بیورو کے مطابق 2022ء میں ملک چھوڑ کر جانے والے نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہے جو 2019ء کے مقابلے میں تین گنا ہے اور یہ تعداد پچھلے چند سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بہتر مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی بڑی تعداد پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ لوگوں کی ہے۔ بیورو کے مطابق 92ہزار ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور جدید علوم کی ڈگریوں کے حامل افرادنے ہجرت کی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہے جو نسبتاً خوشحال صوبے سمجھے جاتے ہیں۔ امیگریشن کے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے لوگوں کی رائے کے مطابق ہجرت میں اس بے ہنگم اضافے کی وجہ لوگوں کی ملک میں رائج فرسودہ نظام سے نااُمیدی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری‘ افراطِ زر میں بے تحاشا اضافہ اور مسلسل بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال بھی نوجوان نسل میں مایوسی کا سبب ہے ۔ مخدوش سیاسی حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت کی وجہ سے نوجوان نسل میں مستقبل کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں اور ان کی نظر میں اس کا مناسب حل یہ ہے کہ استطاعت اور استعداد کے مطابق کسی بھی ایسے ملک میں سکونت اختیار کر لی جائے جہاں خوشحالی ہو یا نقل مکانی کرنا آسان ہو۔ کچھ لوگوں کی رائے میں اس ہجرت کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ اور پہلو بھی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ تارکینِ وطن ملک کی ترقی اور خوشحالی میں ایک اہم کردار ہے۔ اس وقت تقریباً 90لاکھ کے قریب تارکینِ وطن ہیں جو مختلف ممالک میں کامیاب اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور یہ ان لوگوں کی محنت و مشقت کا نتیجہ ہے کہ وہ رقوم بھجواتے ہیں اور ترسیلات کی مد میں پاکستان دنیا میں چوتھے درجے پر ہے۔ 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں نے 33بلین ڈالرز کے قریب رقوم پاکستان بھجوائیں۔ یوں ماضی میں کسی وقت نقل مکانی کرنے والے لوگ اب نہ صرف خود خوشحال ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگرچہ ہجرت کے دونوں پہلو بہت اہم ہیں لیکن میری رائے میں ملک کے اعلیٰ دماغوں کا نقل مکانی کرنا اور ہجر ت اختیا ر کرنا ملک کے لیے اچھا شگون نہیں اور خاص طور وہ اس خیال سے جا رہے ہوں کہ یہ ملک اُن کے خوابوں کی تعبیر سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ ملک چھوڑ کر جانیوالے افراد کسی نہ کسی حوالے سے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہ بڑھتا ہوا رجحان اس بات کا غماز ہے کہ نوجوان نسل بالخصوص جو پڑھے لکھے ہیں‘ موجودہ حالات سے قطعی طور پر خوش نہیں اور نقل مکانی کے لیے تگ ودو میں مصروف ہیں۔ یہ بڑھتا ہوا رحجان اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں معاشی وسائل بدستور سکڑتے جا رہے ہیں اور فیصلہ ساز حلقوں میں ان امور پر ہرگز توجہ نہیں۔ ملک کی 75سالہ تاریخ میں دیکھنے میں آیا کہ بہت سے عالی دماغ لوگوں نے ماضی میں ملک کو خیرآباد کہا اور کسی دوسرے ملک میں جا آباد ہوئے جہاں اُنہوں نے اپنی ذہانت اور محنت کے بل پر جھنڈے گاڑے‘ ان ملکوں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور دُنیا کی سطح پر نام کمایا۔ اگر مواقع مہیا ہوتے تو یہ لوگ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی بڑا کام کر سکتے تھے۔ اسی لیے ہمیں بڑے دماغوں کی ملک سے ہجرت کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور میری رائے ہے جس سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں کہ اگر تعمیر کی سکت‘ اہلیت اور استعداد ہو تو سب سے پہلے اپنا گھر تعمیر کیا جانا چاہیے۔ اگر تعمیر کی سکت‘ اہلیت اور استعداد رکھنے والے لوگ ہجرت کریں گے تو خشک جھیلیں‘ بنجر زمینیں اور ویران بستیاں رہ جائیں گی جو ہر گز ہمارا خواب نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں