اصلاحات ناگزیر ہیں

موجودہ سیاسی منظر نامہ اِس بات کا غماز ہے کہ وطن عزیز ایک بار پھر اِنتخابات کی بڑی مشق کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے بڑے صوبے میں رُونما ہو نے والے سیاسی واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت اِنتخابات کے جلد اِنعقاد کے لیے کوشاں ہے اور اُس کے لیے تمام آپشنز کو بروئے کار لانے کا عزم رکھتی ہے۔ اگر ملک میں عام انتخابات نہ ہو پائے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آئین اور قانون کی روشنی میں بہرطور اِنتخابات ہو سکیں گے۔ اِنتخابات کا عمل جمہوریت کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہوتا ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں ہیں کہ انتخابات اہم ہیں لیکن مؤثر اور دیرپا اصلاحات کے نفاذ کے بغیر انتخابات محض ایک بے معنی مشق کی حد تک محدود رہیں گے اور سیاسی تنائو اور کشیدگی میں بھی کمی نہ آ سکے گی۔ جامع اصلاحات کے بغیر اِنتخابات کے بعد ہم دوبارہ نقطۂ آغاز کے آس پاس بھٹکتے نظر آئیں گے اور یوں انتخابات اور جمہوریت صرف اقتدار کی منتقلی یا حصول کا نام ہو گا‘ جس سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا اور سب کچھ ویسے ہی چلتا رہے گا جیسے برسوں سے چل رہا ہے۔
میری رائے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو چار اصلاحات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک مستند اور مؤثر نظام وضع کرنے کے لیے ضرروی ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ انتخابی اصلاحات ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں تمام سیاسی قوتیں اور تمام سٹیک ہولڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اہم ہیں۔ انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری نظام میں کسی مثبت تبدیلی کا تصور ممکن نہیں چونکہ ماضی میں احتساب اور جوابدہی کا مؤثر نظام تشکیل نہ پا سکا‘ اِس لیے ایک ہی طرح کے لوگ نظام کا حصہ بن کر واپس آتے رہے اور اسی وجہ سے اب یہ نظام ایسا ہو چکا ہے کہ اس میں عام لوگوں یا ورکنگ کلاس کی نمائندگی کم ہوتے ہوتے‘ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پاکستان کے اِنتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ایوانوں میں آنے والی اشرافیہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے کیونکہ اگر الیکشن میں ٹرن آؤٹ 50 فیصد نہیں ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی اکثریت اِس انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنی۔ آئین کا آرٹیکل 38 دولت اور طاقت کے کچھ ہاتھوں میں ارتکاز کی نفی کرتا ہے جبکہ ہمارا انتخابی عمل اِس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں متناسب نمائندگی بہتر حل ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے اور پارلیمنٹ بھی نمائندہ پارلیمنٹ تصور ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے مختلف سیاسی زعما کو تحفظات ہیں کہ الیکشن کمیشن میں اختیارات اور احتساب کے ضمن میں توازن ہونا چاہیے اور اِ س میں الیکشن کمیشن کی غیرجانبدارانہ حیثیت مسلمہ ہونی چاہیے۔
انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کو سٹیک ہولڈرز کو انتخابی اصلاحات کے علاوہ دیگر تین اصلاحات پر بھی جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم اور شاید سب سے بنیادی اصلاحات نظامِ عدل سے متعلق ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر آئینی، معاشرتی اور سماجی مسائل کا حل ایک مضبوط عدلیہ کے قیام میں پنہاں ہے۔ عام آدمی کے روز مرہ کے مسائل کا ازالہ بھی اِسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان کی عدلیہ مضبوط ہو۔ کسی بھی معاشرے میں ناانصافی اُس معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان کے نظامِ عدل کے بارے میں یہ اچھا تاثر نہیں ہے کہ یہاں کے نظامِ انصاف میں اہلِ زر اور صاحبانِ حیثیت کے لیے ایک قانون ہے اور غریبوں اور ناداروں کے لیے دوسرا قانون۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ عدل کا نظام ایسا ہو جہاں امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے اور تمام لوگوں کو بلاتفریق انصاف میسر آئے۔ پاکستان میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہاں پر نظامِ عدل کی اصلاحات کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ چونکہ سارا ملک نظامِ عدل کا سٹیک ہولڈر ہے اِس لیے سب کو مل کر عدل کے ایسے نظام کے قیام کے لیے کام کرنا چاہیے جو تمام طبقات کے لیے یکساں ہوں۔ ہمیں ایسا نظام چاہیے جو جدید خطوط پر استوار ہو، مؤثر ہو اور ضرورت پڑنے پر ہر ایک کو آسانی سے میسر ہو۔ اِس کے لیے نہ صرف بہت سے آئینی اور قانونی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی بلکہ عدلیہ کی استعدادِ کار بڑھانے کی ضرورت بھی ہو گی۔ اِس وقت سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کسی بھی کمرشل کیس کے حل کے لیے 1070 دن (لگ بھگ تین سال) درکار ہیں جو ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھا شگون نہیں ہے۔ نظام عدل کا کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جس ملک میں لوگ دہائیوں تک انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہوں وہاں لوگوں کو سرمایہ کاری اور کاروبار پر مائل کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
اصلاحات میں دوسری ترجیح تعلیم ہونی چاہیے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام اول تو تمام طبقات کی ضروریات کا احاطہ نہیں کرتا، دوم‘ تعلیمی نظام کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم، انتہا پسندی اور تشدد جیسے رجحانات کو فروغ ملا ہے۔ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام کئی طرز اور اقسام کے نصابوں میں بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مروجہ تعلیمی نظام علم عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ مستقبل میں بڑی پریشان کن صورت حال یہ ہو گی کہ آبادی کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو گا اور ہمارے پاس وسائل نہیں ہوں گے کہ ہم اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔ اِس وقت بھی آئینی طور پر سولہ سال کی عمر تک ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے لیکن لاکھوں بلکہ کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں اور ہر سال بچوں کی سکول چھوڑنے کی شرح بھی پریشان کن ہے۔ تعلیم ہی ملک کا مستقبل ہے‘ اِس لیے تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اس حوالے سے تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ذریعے اِس کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے‘ سولہ سال تک کے بچوں کی لازمی تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ نظامِ تعلیم ایسا ہو جو معاشرے کو مذہبی، مسلکی، معاشرتی، سماجی اور لسانی طور پر تقسیم نہ کرے۔ اگر پاکستان نے دُنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو جدیدعلوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس اور بزنس کے جدید رحجانات پر فوکس کرنا پڑے گا۔ اگر ہمیں دُنیا کے ساتھ چلنا ہے تو بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ سطح کی تحقیق تک کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔
طبی نظام میں اصلاحات تیسری بڑی ترجیح ہے کیونکہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو صحت کو بنیادی انسانی حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان صحت کے حوالے سے بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں انفراسٹرکچر و وسائل کی کمی اور استعداد کے فقدان جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے پاکستان اِس وقت معاشی مشکلات سے بھی نبرد آزما ہے اِس لیے صحت کے حوالے سے اہداف کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت شدید مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود صحت کے حوالے سے جامع اصلاحات کرنا ہوں گی اور اِن اصلاحات کے نتیجے میں صحت کی سہولتیں ہر ضلع اور ہر تحصیل کی سطح تک منتقل کی جائیں تاکہ طبی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔ یقینا اِس وقت ہمارا ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے اور ان سب مسائل کو حل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن اگر اِن اصلاحات کے لیے منظم کوششیں کی جائیں تو آنے والے چند سالوں میں مسائل کے حل میں اِنقلابی پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں