عزت

''میجر صاحب بہت نفیس، عزت دار اور زندہ دل آدمی تھے لیکن صرف ایک واقعے نے نہ صرف اُن کی زندہ دِلی بلکہ زندگی تک چھین لی‘‘۔ ایک شائستہ اور نفیس آدمی کی درد بھری کہانی سناتے ہوئے میری دوست کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ٹپک پڑے۔ اس نے بتایا ''میجر صاحب ہمارے ساتھ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کیا کرتے تھے۔ جب وہ فوج سے سبکدوش ہوئے تو اُنہوں نے راولپنڈی میں بڑے شوق اور محبت سے ایک تین منزلہ گھر تعمیر کیا۔ اُن کی بیٹی شادی کے بعد دبئی مقیم ہو گئی اور بیٹا انگلینڈ کا ہو کر رہ گیا۔ دھیمے مزاج کے میجر صاحب کی اپنی بیگم سے نہ بن پائی اور وہ انہیں چھوڑ کر کراچی منتقل ہو چکی تھیں۔ میجر صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام میں سکون کو تلاش کیا اور خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا۔ وہ اپنے تین منزلہ مکان میں خود سب سے اُوپر والی منزل میں رہائش پذیر تھے، باقی کی دو منزلیں انہوں نے کرائے پر دے رکھی تھیں۔ وہ صبح صبح کام پر آ جاتے اور رات گئے واپس گھر جاتے تھے۔ پورے دفتر میں اُن کی وجہ سے رونق لگی رہتی تھی۔ وہ اپنے حلقۂ احباب میں ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ دفتر میں کام کرنے والے تمام لوگ ان کی شرافت اور نفاست کے بے حد قائل تھے۔ سب کچھ نارمل چل رہا تھا کہ ایک دن رات گئے خبر ملی کہ میجر صاحب کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی ہے۔ وجہ معلوم کی تو علم ہوا کہ اُن پر کسی لڑکی کو حبسِ بے جا میں رکھنے کا الزام ہے۔ یہ خبر دفتر میں ہر ایک پر بجلی بن کر ٹوٹی۔ سب کو دھچکا لگا کہ میجر صاحب جیسا نفیس آدمی کیا ایسا کر سکتا ہے؟ دو دن عجب پریشانی اور گومگو کی کیفیت میں گزرے اور تیسرے دن جب یہ ثابت ہوا کہ میجر صاحب کا اِس کیس سے دُور دُور کا کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا اور اُن کے کچھ کرایہ دار اِس جرم میں ملوث تھے تو میجر صاحب کو چھوڑ دیا گیا اور وہ گھر لوٹ آئے۔ لیکن انہوں نے جو دو دن حوالات میں گزارے تھے‘ وہ وقت ان جیسے عزت دار شخص کی ساری زندگی پر بھاری تھا۔ میجر صاحب بھلے تفتیش میں بے گناہ قرار پائے لیکن اُن کو لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنی نظروں سے ہی گر گئے ہیں۔ اس واقعے کے تین دِن بعد جب وہ دفتر آئے تو اُن کی آواز کی روایتی کھنک ختم ہو چکی تھی، چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا، شخصیت کا دبدبہ کم ہو چکا تھا اور اُن کی زندہ دِلی کی جگہ اُن کی دُکھ بھری خاموشی لے چکی تھی۔ اس ایک واقعے نے ایک عزت دار اور نفیس شخص پر ایسا اثر ڈالا کہ وہ زندہ لاش بن کر رہ گیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میجر صاحب نے دفتر آنا چھوڑ دیا اور پھر کچھ دنوں بعد ہمیں خبر ملی کہ وہ اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے ہیں‘‘۔
ایک عزت دار شخص کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں خفت سے گزرنا پڑا۔ ایک شریف آدمی کو دو دِن تک ایسے ہتک آمیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا جن کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔ اِس ملک کے نظام نے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی محض شک کی بنیا د پر انہیں حراست میں لیا اور دو دِن تک ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا اور پھر الزام غلط ہونے پر اُنہیں گھر واپس بھیج دیا۔ نظام کو شاید اندازہ نہیں کہ اس واقعے سے ان پر کیا بیتی، وہ سماجی اور معاشرتی طور پر جن لوگوں میں اُٹھتے بیٹھتے تھے‘ اُن سے نظریں نہیں ملا سکتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کا حوصلہ پیدا نہ کر سکے اور اِسی خفت و پشیمانی کے عالم میں وہ دُنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے، حیرت کی بات ہے کہ ملک کے طول و عرض میں روزانہ کی بنیاد پر اِس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کی کسی بھی سطح پر مذمت اب ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ بحیثیت قوم ہم ایسے واقعات پر خاموش رہتے ہیں، اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کراتے یا پھر اِن واقعات کو نیا طرزِ زندگی سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری حساسیت ایسے واقعات پر لگ بھگ ختم ہو چکی ہے۔ کسی معزز شخص کو رات کے اندھیرے میں اُٹھا کر اُس کے بچوں کے سامنے ہتھکڑی لگائی جاتی ہے‘ کسی بزرگ شہری کو اُس کے بیوی بچوں کے سامنے زد و کوب کیا جاتا ہے‘ لوگوں پر حراست کے دوران تشدد ہوتا ہے اور اُن کو داد رسی کے لیے کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں آتا۔ اگر کوئی پلیٹ فارم ہے بھی تو وہ نہایت غیر مؤثر ہوتا ہے۔ کسی کو گرفتار کرکے اُس کے چہرے پر کالا کپڑا ڈال کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ تحقیر آمیز رویہ ہے کہ کسی بھی اِنسان کی سرِعام پگڑی اُچھالی جائے یا اُس کی ساکھ کو داغدار کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِنسانی تذلیل کی ایک نئی رسم کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جہاں صاحبِ اختیار لوگ بے بس و لاچار لوگوں کو قاعدے اور قانون کے برعکس ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی حیلے سے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ کہنے کو تو کچھ عرصے بعد بے گناہ لوگ ''باعزت‘‘ بر ی کر دیے جاتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہو پاتا کہ یہ لوگ جیل سے تو رہا ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ضمیر کی عدالت میں سالوں کھڑے اپنی بے بسی کا ماتم کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہر شخص کے لیے ہتھکڑی زیور اور جیل دوسرا گھر نہیں ہوتا بلکہ اُن کو اپنی طرف اُٹھی ہوئی غلط اُنگلی بھی پریشانی اور سخت اذیت سے دوچار کرتی ہے۔
لوگو ں سے روا رکھے گئے اِس سلوک کا تعلق نظامِ انصاف سے بھی ہے۔ عدل کے نظام نے ہر شخص کی عزت و توقیر کا خیال کرنا ہوتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ عدالت نے کسی شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا تو پتا چلا کہ مذکورہ شخص تو کئی سال پہلے ہی جیل میں اِنصاف کا انتظار کرتے کرتے تھک ہارکر اپنے خدا کے سامنے پیش ہو چکا ہے۔ کسی ایسے شخص کی آزادی کو سلب کرنے کا ذمہ دار کون ہو گا؟ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اِنصاف کے حصول کے لیے درکار وسائل سے محروم ہیں اور اُن کے پاس اچھا وکیل کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ عدل کے حصول کا طریقۂ کار بھی بہت پیچیدہ ہے۔ یہ پیچیدگی اس حد تک طوالت اختیار کر چکی ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے کسی سے بدلہ چکانا ہے تو اُس کو کورٹ‘ کچہری کے چکر میں اُلجھا دو۔ تھانے‘ کورٹ‘ کچہری کا عمومی تصور یہ ہے کہ اگر آپ کو انصاف چاہیے یا آپ کسی ناانصافی کا شکار ہو گئے ہیں تو ان جگہوں سے رجوع کریں‘ یہ آپ کے ساتھ کی گئی زیادتی کا ازالہ کریں گے۔ ذرا سوچئے‘ کیا ہمارا نظامِ عدل اور اس کے ذیلی ادارے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟
مذکورہ واقعات دو تلخ پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ریاست اپنے شہریوں کے لیے انصاف مہیا نہیں کر پائی اور عزت و وقار‘ جو ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے‘ کو یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے واقعات کو معاشرتی سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ بھی ایسے معاملات پر عمومی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میرے خیال میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ریاست انسانی تذلیل کے رویوں کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے اور تمام بااختیار لوگوں کو اس ضمن میں قانون کی عمل داری کا پابند کرے۔ آئیے! مل کر ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں ہر شخص عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزار سکے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ میجر صاحب کی طرح‘ ایسی ناانصافی اور تذلیل اور کس کس کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں