پاکستان اور افغانستان‘ باہمی عدم اعتماد کا شکار کیوں؟

پاکستان اور افغانستان کے مابین 1640 میل لمبی سرحد کا اشتراک ہے اور افغانستان پاکستان کا ایک اہم ہمسایہ ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مابین ثقافتی اور مذہبی روابط کے علاوہ دہائیوں سے تجارتی تعلقات کا بھی رشتہ ہے۔اشتراک کا یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے تک جاتا ہے۔ صدیوں سے جنگجو، تاجر اور سیاح برصغیر میں افغانستان کے راستے ہی داخل ہوئے اور یہیں سے پنجاب، سندھ اور دہلی و سومنات تک پہنچے۔ قیامِ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات اُتار چڑھائو کا شکار رہے۔ عوامی سطح پر تو دوستی کا تعلق نظر آیا لیکن حکومتی سطح پر گزشتہ ستر برسوں میں ہر چند سالوں بعد کچھ ایسا ہو جاتا کہ تعلقات تنائو کا شکار ہو جاتے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ پاک افغان تعلقات کے باب میں دو اہم ادوار ہیں۔ سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب رہے اور پاکستان ہر موقع پر افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ پاکستان نے ہی افغانستان کی روسی جارحیت سے نمٹنے میں بھرپور مدد فراہم کی۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان نے نہ صرف طالبان گروپ کی حمایت کی بلکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ممالک میں سے ایک پاکستان ہی تھا۔ 2001ء میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان کو بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں افغانستان کے ساتھ نئے سرے اور نئے زاویے سے تعلقات اُستوار کرنا پڑے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان نے افغانستان کی ہر ممکن مدد کی اور تعلقات کو معمول پر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ تاثر اُبھرا کہ پاکستان افغان طالبان کی قیادت میں اثر و رسوخ رکھتا ہے بلکہ امریکہ سمیت بہت سے ممالک نے پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی حکومت کے قیام سے یہ اُمید اجاگر ہوئی کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن دونو ں ملکوں کے مابین بہت سی غلط فہمیاں اور منفی رجحانات پنپتے رہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کئی سیاسی اور اقتصادی عوامل حائل ہیں۔ برسوں سے سرحدی تنازعات، دہشت گردی، تجارت، سمگلنگ، لسانی تنازعات، حکومتی سطح پر باہمی رابطوں کا فقدان اور سب سے بڑھ کر خطے میں بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پیچیدگی اور تنائو کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بننے والے بڑے مسائل میں سے ایک مہاجرین کا معاملہ ہے۔ افغانستان میں مختلف داخلی و بیرونی جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان گزشتہ تین‘ ساڑھے تین دہائیوں سے 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔ افغان مہاجرین کے لیے ممکنہ حد تک کی جانے والی میزبانی کے باوجود یہ مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازع کا شکار ہے۔ اگست 2021ء کے بعد‘ جب کابل میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سفر کرنے والے افغانوں کو دی جانے والی سہولتوں کے باوجود افغان اور بھارتی میڈیا پاک افغان سرحد کے کراسنگ پوائنٹس پر افغانوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک کے واقعات کی رپورٹنگ کرکے دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق بھارتی اور افغان میڈیا کے دعوے بے بنیاد ہیں اور وہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اِس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق روزانہ تقریباً 13 ہزار افراد‘ جن میں مریض، تاجر، سیاح اور ٹرانسپورٹرز شامل ہیں‘ پاک افغان سرحد کراس کرتے ہیں۔ ماہانہ یہ تعداد تقریباً 3 لاکھ 85 ہزار تک چلی جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ سینکڑوں تجارتی قافلے بھی روزانہ سرحد عبور کرتے ہیں۔ ان کراسنگ پوائنٹس میں چمن، غلام خان، انگور اڈا، خرلاچی اور طورخم شامل ہیں۔ پاکستان محدود معاشی وسائل اور مالیاتی مسائل کے باوجود افغانوں کو تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اور کسی بھی دوسرے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ روزانہ سرحد پار نہیں کرتے جس تعداد میں لوگ افغانستان سے پاکستان کی جانب سفر کرتے ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر 100 سے زائد کائونٹرز بنا رکھے ہیں تاکہ سرحد عبور کرنے والے لوگوں کو کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان سو میں سے 79 کائونٹرز طورخم اور چمن بارڈر پر ہیں جہاں لوگوں کی آمد و رفت باقی کراسنگ پوائنٹس سے زیادہ ہے۔ انسانی بنیادوں پر سینکڑوں مریضوں، صحافیوں، خواتین اور تاجروں کو نامکمل دستاویزات کے باوجود ہر روز سرحد پار کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پاکستان افغان باشندوں کو اپنی روزی کمانے، اپنے عزیز و اقارب سے ملنے، طبی ایمرجنسی سے نمٹنے، تعلیم حاصل کرنے اور بغیر کسی دستاویز کے پاکستان میں اپنے قیام کی تجدید اور توسیع کی اجازت بھی دے رہا ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان عوام کی سہولت کے لیے ایک دستاویزی نظام بھی متعارف کرایا گیا ہے اور یہ ایسی سہولت ہے جو اس وقت پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک اپنے پڑوسی ملکوں کو فراہم نہیں کر رہا۔ اگر بھارتی و افغان میڈیا کے پروپیگنڈے کا تجزیہ کریں تو ان کی بنیاد وہ چند ہزار افراد ہوتے ہیں جن کو بوجوہ پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ یہی لوگ عالمی سطح پر پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یقینا سرحدی اُمور کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور حکومت پاکستان اِس ضمن میں کام کر بھی رہی ہے جن میں انفراسٹرکچر کی تعمیر، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، سکیورٹی کا بہتر انتظام، ٹرانسپورٹرز کے لیے سروس ایریاز، فوری کلیئرنس کے لیے فنکشنل پوائنٹس، سڑکوں کی تعمیر، بینک کائونٹرز، پینے کا صاف پانی، انٹرنیٹ اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اِن سارے اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے بھی افغان حکومت کا تعاون درکار ہے۔
پاکستان اور افغانستان‘ دونوں کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ وہ ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمسایے بدلے نہیں جا سکتے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات تاریخی طور پر پیچیدہ رہے ہیں اور اِن پیچیدہ تعلقات کی وجوہات سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی سے متعلق رہی ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کو مفادِ عامہ میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ تعلقات کی بہتری کے لیے سہ جہتی منصوبے پر کام کیا جا سکتا ہے۔ باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے منظم سفارتی اشتراک بہت اہم ہے‘ جو مسائل کے حل کے لیے مددگار بھلے نہ ہو مگر آپس میں اعتماد کی فضا کو فروغ دینے کے لیے بہت اہم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین اقتصادی تعاون باہمی تعلقات کے فروغ کا بنیادی پہلو ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک باہمی تجارت کو بڑھانے، سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مشترکہ سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے اور یہ تعاون کا ایک انتہائی اہم پلیٹ فارم ہو سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں ممالک سفارتی اشتراک ، اقتصادیات اور سکیورٹی کے لیے الگ الگ ورکنگ گروپس تشکیل دیں جو دونوں ملکوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی اپنی سفارشات پیش کریں۔ ہمسایے تو بدلے نہیں جا سکتے لیکن مائنڈ سیٹ ضرور بدلے جا سکتے ہیں‘ مسائل کو دیکھنے کا زاویہ بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں