ایسا لگتا ہے کہ کہ وطن ِ عزیز کے طول و ارض میں‘ سڑکوں پر‘ چوراہوں پر‘ گاؤں گاؤں‘ قصبہ قصبہ‘ شہر شہر ایک تماشا برپا ہے اور ہم سب تماش بینوں کا رُوپ دھارے ہوئے ہیں۔ ہمارے لااُبالی پن‘ خود غرضی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے لئے اب مجبوریاں‘ سانحے‘ المیے اور حادثے بھی تماشا ہیں اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ ناانصافی اور بربریت پر مبنی واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جو میرے اِس موقف کی تائید میں پیش کی جاسکتی ہے لیکن حال ہی میں گوجرانوالہ میں ایک واقعہ پیش آیا ہے جو میرے اس خیال کو تقویت دے گیا کی ہم واقعی تماش بین قوم ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک سرکاری دفتر میں ایک خواجہ سرا راشن کی اُمید لیے پہنچا۔ یہ بھی ایک تماشا ہے کہ ہر شخص آٹے اور راشن کی قطار میں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ اور کیا یہ تماشا نہیں کہ پچھتر سال تک زرعی ملک کے طور پر متعارف کرائے جانے والے ملک کے لوگ آٹے کی قطار میں آگے کھڑا ہونے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں جب خواجہ سرا سرکاری دفتر پہنچا تو وہاں موجود اہلکاروں نے اُسے کہا کہ راشن تو ملے گا لیکن اُس کیلئے اُسے پہلے رقص کرنا پڑے گا۔ یعنی پہلے تماشا ہوگا اور پھر راشن ملے گا۔ پھر اگلے اڑتالیس گھنٹوں تک سوشل میڈیا پر واقعے کی تصاویر کے ساتھ بے حسی کے اس رویے کا مذمتی تذکرہ ہوتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ شاید اس طرز کے تماشے کی عمر اتنی ہی مختصر ہوتی ہے پھر کوئی دوسرا تماشا میسر ہو گیا ہوگا۔
اگر آپ گزشتہ چند سال میں پیش آنے والے کچھ ایسے دل سوز واقعات کا جائز ہ لیں تو بحیثیت قوم آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ حالیہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے واقعات میں سیالکوٹ کی سپورٹس فیکٹری میں کام کرنے والا سری لنکن شہری کا بے دردی سے کیا گیاقتل ہے۔ اُس کا قصور اتنا تھا کہ وہ فیکٹری میں کام کرنے والے لوگوں کو اپنا کام ایمانداری اور محنت سے کرنے کی تلقین کرتا تھا جو فیکٹری میں کام کرنے والے اکثرلوگوں کو ناگوار گزرتا تھا۔اُس غیر ملکی شہری کے اس رویے پر لوگوں نے اُسے سزا دینے کا فیصلہ کیا اور ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے مل کر اس کو بے دردی سے ڈنڈوں اور چھریوں سے مارا اور اس پر جب تسکین نہ ہوئی تو اُس کی لاش کو آگ لگا دی۔بے حسی اور شرم کا مقام یہ تھا کہ تماش بین جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ اس سے قبل سیالکوٹ میں ہی دو بھائیوں کو ایسے ہی بپھرے ہوئے ہجوم نے بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ دونوں بھائیوں پر پہلے چوری کا الزام لگایا‘ پھر اُنہیں گاڑی کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا گیااورایسا بھیانک تشدد کیا کہ اُن کی موت واقع ہو گئی۔ اس پر بھی جب تشفی نہ ہوئی تو اُن کی لاشوں کو اُلٹا لٹکا کر بے حرمتی کی گئی۔ اس بار تماش بین عوام کے ساتھ ساتھ پولیس کے لوگ بھی شامل تھے۔ لوگ تو تماشا دیکھ ہی رہے‘ محافظ بھی تماشا دیکھتے رہے۔ اسی طرح گزشتہ سال کے آغاز میں مری میں شدید برفباری ہوئی۔ ملک بھر سے کثیر تعداد میں عوام نے برف باری سے لطف اندوز ہونے کیلئے مری کا رخ کیا۔ رات کو شدید برف باری کی وجہ سے لوگ مری کے مختلف راستوں میںمحصور ہو کر رہ گئے۔ لوگوں کی مجبوریوں کو بھانپتے ہوئے مری کے مختلف ہوٹلوں اور ریسٹ ہاؤسز نے کرایوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا۔یوں ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ پچاس ہزار روپے اور ایک انڈے کی قیمت پانچ سو روپے تک پہنچا دی گئی۔بے حسی کی انتہا کہ برف میں پھنسی گاڑی کو نکالنے کا معاوضا بھی منہ مانگا گیا۔ لوگوں کو چارو ناچار اپنی فیملیز اور بچوں کے ہمراہ رات سڑک پر اپنی گاڑیوں میں گزارنی پڑی۔ شدید سردی کے باعث اور ہوٹل مالکان کی بے حسی کی وجہ سے ایک رات میں بائیس افراد‘ جن میں بچے اورعورتیں بھی شامل تھے‘ لقمہ اجل بن گئے۔ بے بسی کی تصویر بنے معصوم بچے سسک سسک کر مرتے رہے اور تماش بین ہوٹل مالکان اور انتظامیہ بے حسی کی مثال بنے رہے۔بے حسوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان لوگوں کا تو قدرت کی طرف سے موت کا وقت آگیا ہے لیکن اس بے بسی کے عالم میں وہ اور اُن کے چاہنے والے بھی ہوسکتے تھے۔
میں نے ملک ِ عزیز میں پیش آنے والے چند واقعات کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ واقعات ابھی تک لوگوں کی یادداشت میں تازہ ہیں اور ابھی تک ان واقعات کی خفت اور شرمساری ہمارا پیچھا کرتی ہے۔اب تو معاشرتی سطح پر پیش آنے والے ایسے واقعات کا ایک خاکہ اور ترتیب بھی وجود میں آ چکی ہے۔ پہلے ایک واقعہ رونما ہوتا ہے جس میں عمومی طور پر ملک کے محروم طبقات کے لوگ ظلم اور بربریت کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب یہ واقعہ ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگوں کے پاس آتا ہے اُس واقعے کو رپورٹ کر کے اُس کے بخیے اُدھیڑ ے جاتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے کہانی کو ہر طرح کا رخ دینے کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔یوں سوشل میڈیا کیلئے ایک نئی‘ اُچھوتی اور چلنے والی سٹوری تیا ر ہو جاتی ہے۔ پھر واقعہ کی سنسنی خیزی کے تناسب سے چوبیس‘ اڑتالیس اور بہتر گھنٹوں تک واقعے کے ہر جائز اور ناجائز‘ صحیح اور غلط پہلو وں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد طویل خاموشی چھا جاتی ہے یا کہانی بے جان ہو جانے کی صورت میں نئی کہانی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔پھر ایسے واقعات ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں اورچند سالوں میں ایسے واقعات عمومی یادداشت کا حصہ بھی نہیں رہتے۔ عوام الناس بھی اکثر ایسے واقعات کے قانونی پہلوؤں اور منطقی انجام سے بے خبر رہتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات کی فائلیں وقت کی گرد سے اٹ جاتی ہیں اور واقعے کے مظلوم اس کو آزمائش اور قدرت کی رضا گردان کر سمجھوتا کر لیتے ہیں۔
تماشا اور تماش بین وہ حقیقت ہے جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے واقعات کسی بھی معاشرے کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ بھی تاثر دیتے ہیں کہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا ظلم اور بربریت کے خلاف کیا ردِعمل ہے۔اگر ایسے واقعات کے محرکات کا عمیق جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات پر معاشرتی بے حسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ تماشا کلچر کیسے بدلے گا؟ میری رائے ہے کہ یہ تماشا کلچر گھر سے بدلنا چاہیے کہ گھر معاشرے کی پہلی تربیت گاہ ہوتا ہے۔ یہ تماشا کلچر سکول اور یونیورسٹی کی حقیقی علمی مداخلت سے بدلے گا کہ تعلیم احسا س اور شعور کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ تماشا کلچر سماج کی بنیادوں کا از سرِ نو جائزہ لینے سے بدلے گاکہ سماج انصاف پر مبنی معاشرت سے طاقت اور اخلاقیات کشید کرتا ہے۔ یہ تماشا کلچر ریاست کی فعالیت اور قانون کی عملداری سے بدلے گاکہ معاشرے کی سمت طے کرنے کی اصولی اور حتمی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔میری رائے میں معاشرتی سطح پر کوئی بنیادی کر دار ہے تو وہ فعال سول سوسائٹی‘ ذمہ دار صحافت اور مؤثر ریاست کا ہے۔ اس لیے ان کو اپنے اغراض و مقاصد اور کردار کا از سرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ ہم سب کو بھی معاشرے میں ظلم و ناانصافی کے خاتمے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ یہ کسی خاص طبقے کا نہیں بلکہ اِس مملکتِ خداداد میں بسنے والے ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم تماش بین نہیں بلکہ سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اہم سٹیک ہولڈر!