محافظ

میں نے تین دہائیاں خاکی وردی میں اِس فخر سے گزار دیں کہ میں تیسری ''پیڑھی‘‘ میں خاکی وردی پہنتا تھا۔ میرے دادا مرحوم نے پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں خدمات سر انجام دیں۔ میرے والد مرحوم پاک فوج کا حصہ بنے، 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور غازی کی عزت و تکریم سے سرفراز ہوئے۔ تیسری پیڑھی میں مجھے بھی ''خاکی‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میرے والد خواہش رکھتے تھے کہ میں بھی اپنے دادا کی طرح پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کروں لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ میں پوٹھوہار کے جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں‘ وہاں فوج میں خدمت کو ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ یہ میرا سوچا سمجھا خیال ہے کہ فوج کی نوکری‘ نوکری نہیں ہوتی‘ اسے ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ فوج ایک ہمہ جہت زندگی اور طرزِ حیات کا نام ہے جہاں وطنیت، عزت و ناموس، اتحاد و یگانگت اور قربانی جیسے احساسات اور جذبات نمو پاتے ہیں۔ خاکی وردی اور وطن کی مٹی کا آپس میں ایک بہت گہرا تعلق ہے۔ ''خاکی‘‘ کا استعارہ وطن کی مٹی سے کشید ہوتا ہے اور وطن سے محبت مٹی کی محبت سے مشروط ہوتی ہے۔
میں جب فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد ہیڈ مرالہ سیالکوٹ تعینات ہوا تو میری عمر محض 21 برس تھی۔ نئی نئی افسری تھی۔ نیا نیا جوش اور ولولہ تھا۔ میں اپنی بٹالین کے شب و روز میں ایڈجسٹ ہو رہا تھا جہاں ہر کوئی ایک خاص ضابطے کے تحت زندگی گزارتا تھا۔ ایک دن مجھے حکم دیا گیا کہ میں سیالکوٹ کے ایک سرحدی علاقے میں‘ جہاں ہماری بٹالین کی ایک کمپنی دفاع پر مامور تھی‘ کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالوں۔ یہ سرحدی علاقہ ملک کے بہت اہم اور حساس علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں کافی دیہات آباد ہیں مگر میلوں تک پاکستانی سرحد تین اطراف سے بھارتی علاقے میں گھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر وقت اِس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ دشمن عقب سے وار کرکے موجود سپاہ اور دیہات کو باقی پاکستانی علاقے سے الگ کر سکتا ہے۔ اس سرحدی علاقے میں جانے سے پہلے کشتی کے ذریعے دریا کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ میں جب دریا کے اِس کنارے پر پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ دریا عبور کرنے کے لیے انتظار میں کھڑے تھے اور ایک بڑی کشتی دریا پار کرنے کے لیے موجود تھی۔ یہ کشتی سرحدی دیہات کو سیالکوٹ سے ملانے کا واحد ذریعہ تھی۔ دن کے آغاز پر ہی ملاح اپنا کام شروع کر دیتے تھے اور دن ڈھلتے دریا کے کنارے ویران ہو جاتے تھے۔ شام کو کشتی بان قریب کی آبادی میں موجود اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔ میں جب کشتی میں سوار ہوا تو ا نتظار کرنے والے دیگر لوگ بھی کشتی میں سوار ہونے لگے۔ میں دریا کے اُس پار اُترا تو وہاں بھی بہت سے لوگ جمع تھے جنہوں نے دریا پار کر کے اِس طرف آنا تھا۔ میں جب کشتی سے اُتر رہاتھا تو ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہاں کمپنی کے نئے کمانڈر کے طور پر آئے ہیں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اتنے میں قریب کھڑی ایک بزرگ خاتون نے اچانک میرا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیا اور مجھے کہا: بیٹا تم ہمارے محافظ ہو‘ اللہ تمہاری حفاظت کرے‘‘۔ میں نے زیرِ لب آمین کہا اور تیزی سے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی میں سوار ہو کر کمپنی ہیڈ کوارٹرز کی طرف چل دیا۔ اُس رات مجھے سرشاری میں نیند نہیں آئی اور میں نے مہینوں اس مسرور کن احساس کے ساتھ گزارے کہ میرے ہم وطن مجھے حقیقی معنوں میں اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور مجھ جیسے 21 سالہ نوجوان پر اُنہیں یقین ہے کہ جب مشکل وقت آئے گا اور دشمن حملہ کرے گا یا گولی چلے گی تو یہ خاکی وردی والا نوجوان ایک محافظ کے طور پر ان کے لیے ڈھال بنے گا اور سب سے پہلے اپنا سینہ پیش کرے گا۔
چند سال کے بعد میرا ٹرانسفر شمالی علاقہ جات میں ہو گیا۔ جس سیکٹر میں میرا ٹرانسفر ہوا‘ وہ سیکٹر سیاچن سے ملحق تھا۔ نوے کی دہائی میں سیاچن کا محاذ بہت اہم دفاعی محاذ ہوا کرتا تھا۔ خوبصورت اور بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کے درمیان ہمارا ہیڈ کوارٹرز واقع تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نوجوان افسر اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر مامور اپنے وطن کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک دن ہیڈکوارٹرز میں پیغام ملا کہ بھارتی فوج نے ہمارے ایک سیکٹر میں اندھا دُھند توپ خانے کا فائر کھول دیا ہے۔ یہ بہت اچانک اور ایک بڑا حملہ تھا۔ جس سیکٹر میں یہ حملہ شروع ہوا تھا‘ اُس سیکٹر میں پہلے کبھی اِس پیمانے پر توپ خانے کا فائر نہیں ہوا تھا۔ دوسرا‘ اِس سیکٹر میں مقامی آبادی بھی زیادہ تھی اور اس بات کا خدشہ تھا کہ سویلین آبادی فائرنگ کی زد میں آئے گی اور کثیر تعداد میں جانی نقصان ہو گا۔
فائرنگ شروع ہونے کی اطلاعات کے ساتھ ہی ہیڈ کوارٹرز سے پیغام آیا کہ سیکٹر کے تمام دیہات فوری طور پر خالی کرائے جائیں تاکہ سویلین آبادی کو کسی بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔ میں نے یہ اِحکامات فوراً متعلقہ سیکٹر کمانڈر تک پہنچائے اور سویلین آبادی کا فوری طور پر انخلا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد میں اور ہماری بٹالین کے سیکنڈ اِن کمانڈ میجر جاوید اشرف‘ جو بعد میں بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے‘ سیکٹر کی طرف روانہ ہو گئے۔ ابھی ہم سیکٹر سے تھوڑا سا پیچھے ہی تھے تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ جمع ہیں اور محفوظ مقامات پر جانے کے لیے اپنا ضروری سامان لیے گاڑیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ گولا باری ابھی تک جاری تھی۔ بھیڑ کی وجہ سے ہماری گاڑی بھی رک گئی تھی۔ میں گاڑی سے نیچے اُترا تو دیکھا ایک نہایت ضعیف اور لاغر آدمی سامنے کھڑی ایک گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں آگے بڑھا اور اُن کو سہارا دیا تاکہ وہ گاڑی میں سوار ہو جائیں۔ جب میں پیچھے ہٹنے لگا تو اُس ضعیف شخص نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ''آگے فائرنگ ہو رہی ہے، آپ بھی محفوظ مقام کی طرف چلیں‘‘۔ میں نے کہا: ہم محفوظ مقام کی طرف نہیں جائیں گے، محفوظ مقام کی طرف آپ جائیں گے۔ یہ سن کر اس ضعیف شخص نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور کہا ''اللہ پاک محافظوں کی مدد کرے‘‘۔ پھر چند لمحوں بعد جب یہ سب لوگ محفوظ مقام کی طرف جا رہے تھے تو میں اور میجر جاوید اشرف 'غیر محفوظ مقام‘ کی طرف رواں دواں تھے۔
میرے تیس سال سے زائد ''خاکی سفر‘‘ کے یہ دو واقعات اور دو ضعیف اور بزرگ ہم وطنوں کے ہاتھوں کا لمس مجھے آج بھی فخر سے سر شار رکھتے ہیں کہ وہ مجھے اپنا محافظ سمجھتے تھے۔ یہ وطن کی حفاظت کا سفر مٹی سے محبت کا سفر تھا‘ جو جوانی کی گرمجوشی سے شروع ہوا اور اُدھیڑ عمری کے اطمینان و آشتی تک جاری ہے۔ یہ ایک محافظ کا عزت و محبت کا سفر تھا جو ہم وطنوں کی دعائوں کے سائے میں طے ہوا۔ یہ محبت تھی جو محافظ کو تھر کے صحرا سے لے کر شمالی وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں تک‘ ہر جگہ میسر تھی۔ یہ محبت ہی تھی جو محافظ پر پنجاب و سندھ کے چٹیل میدانوں سے لے کر گلگت بلتستان کے برف زاروں میں سایہ فگن رہی۔ مگر کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ محافظ اور ہم وطن کے درمیان محبت کا یہ گہرا رشتہ‘ جو کئی دہایئوں میں پروان چڑھا‘ اِس قدر نفرت اور بدگمانی کے سیاہ بادلوں کی زد میں آ جائے گا۔ نفرت اور بدگمانی اِس نہج تک بھی پہنچ سکتی ہے‘ یہ کسی کی سوچ کے نہاں خانوں میں بھی نہ تھا۔ سنو! مٹی کی محبت میں بسنے والے آشفتہ سرو‘ سنو! کچھ دیر کے لیے اپنی انائوں پہ پائوں رکھ دو! آگے بڑھو! اور اپنے اندر بیٹھے تحمل و بردباری، عقل و دانش اور دور اندیشی کے نمائندے سے مشاورت کرو! تسلی سے مشاورت کرو گے تو محبتوں کے احیا کا راستہ ضرور نکلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں