میں نے چار پانچ سال پہلے ہندی روزنامے ’’بھاسکر‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا ’’راہول جیسا کوئی اور نہیں‘‘ لیکن اس دوران میری ساری امیدوں پر دھیرے دھیرے پانی پھرتا گیا۔ اُتر پردیش اور بہار کے انتخابات نے کانگریس کے اس ابھرتے ہوئے ستارے کی روشنی کو ماند کردیا اور شدید عوامی تحریکوں اور نربھیا سانحہ کے وقت راہول کی خاموشی نے سارے ملک کو ششدر کردیا۔ لیکن اب راہول کی طرف سے کچھ ایسی باتیں اچانک سامنے آئی ہیں کہ اگر وہ ان کو پورا بھی کرکے دکھا دیں تو میں ہی نہیں، سارا ملک ماننے لگے گا کہ واقعی راہول جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ راہول نے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے۔ ان کی اس بات پر ملک بھروسہ کرسکتا ہے کیونکہ گزشتہ ماہ ہی انہوں نے جے پور میں کہا تھا کہ اقتدار تو زہر ہے، زہر کا جام ہے، ان کی دادی اور باپ نے وہ پیالہ پیا ہے۔ اس جام میں انہیں بھوت دکھائی دیئے، یہ فطری ہے‘ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ وہ کانگریس کے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر کیوں بنے؟ کیا وہ اقتدار کا جام نہیں ہے؟یہ تو اہم منصب ہے۔ آج حکومت پر پارٹی بھاری ہے جیسا کہ کمیونسٹ دور میں ہوا کرتا تھا۔ وزیراعظم پر پارٹی، صدر اور وزراء پر جنرل سیکرٹری بھاری ہیں۔ کسی بھی جمہوریت کے لیے پارٹی آمریت سے بھی زیادہ خطرناک خاندانی آمریت ہوتی ہے۔ راہول کو سارا ملک واقعی بڑا لیڈر ماننا شروع کردیتا اگر وہ پارٹی کا کوئی بھی عہدہ نہ لیتے ۔ پارٹی میں عہدے استحقاق وقابلیت کی بنیاد پر نہیں، پاسداری کی بنیاد پر بانٹے جاتے ہیں۔ عہدہ نہ لے کر وہ یہ ثابت کرتے کہ وہ کسی کی مہربانی کے سہارے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پر ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ چار پانچ سال پہلے جیسے وہ گائوں گائوں گھومتے تھے، غریبوں کے گھروں میں کھاتے اور سوتے تھے اور اپنی آنکھوں سے ملک کی صورت حال دیکھنا چاہتے تھے تو لوگوں کو لگا تھا کہ یہ نوجوان ہندوستانی سیاست کو ایک نئی سمت دینے کے لیے نکل پڑا ہے۔ دہائیوں سے بندھی بندھائی سیاست کرنے والی تمام جماعتوں کے اہم رہنمائوں کے پسینے چھوٹنے لگے تھے لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ لوگوں کو سمجھ میں آگیا کہ کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ کھانے کے کچھ دانت جے پور میں نظر آئے۔ جوں ہی راہول نے اپنی ماں کی دعا لی اور جنرل سیکرٹری سے اٹھ کر نائب صدر کی سیڑھی چڑھی، درباریوں نے ملک کو متوجہ کرادیا، وزیراعظم کے نعرے لگنے لگے‘ لیکن راہول کہتے ہیں کہ مجھے تو وزیراعظم بننا ہی نہیں ہے۔ اب یہ درباری کیا کریں گے؟ سچاوفادار درباری وہی ہوتا ہے جو بادشاہ کی ہربات میں ہاں ملالے۔ وہ اب مزید خوش ہوں گے۔ اب کچھ کی کوشش ہوگی کہ ہم راہول کے منموہن کیسے بنیں ؟ کیا راہول خود سونیا گاندھی بن سکیں گے؟ سونیا کا سونیا بننا ان کی مجبوری تھی لیکن راہول تو گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ راجیو ، اندرا اور نہروجی سے بھی آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ گاندھی یعنی کیا ؟ فیروز گاندھی یا راجیو گاندھی نہیں، مہاتما گاندھی۔ انہوں نے خود کہا ہے کہ ان کے ماڈل مہاتما گاندھی ہیں۔ وہ واقعی چلے تھے اسی راستے پر لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ اب اس سے چھوٹا ’’ماڈل‘‘ (وزیراعظم کا ) بھی انہیں بے کار لگنے لگا ہے۔ اگر وہ گاندھی کو اپنا مثالی لیڈر مانتے ہیں تو کانگریس کے نائب صدر کے عہدے سے اور ممبر پارلیمنٹ کے عہدے سے بھی کیوں چپکے رہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ سال بھر بعد ان عہدوں کی کوئی قیمت ہی نہ رہ جائے‘ لیکن راہول اگر گاندھی بن سکیں اور گاندھی کے راستے پر تھوڑا سا بھی چل سکیں تو یہ ملک انہیں کئی وزرائے اعظم سے بھی زیادہ یاد کرے گا اور ان کا ثنا خواں رہے گا۔ ویسے بھی وزیراعظم کا عہدہ ابھی اس قابل کہاں رہ گیا ہے کہ کوئی سچا عوامی لیڈر اسے پانے کی خواہش رکھے؟ راہول نے بے توجہی ظاہر کی، یہ ٹھیک ہی کیا۔ لیکن انہوں نے ایسا سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر کیا یا میڈیا کے سامنے ان کی زبان پھسل گئی؟ شاید زبان ہی پھسل گئی۔ ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ وہ شادی اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کے بال بچے ہوں گے تو وہ بھی خاندانی سیاست کرنے لگیں گے۔ وہ بھی اپنے لیے اقتدار حاصل کرنے لگیں گے۔ شادی ہونے پر بچے ہوں ہی، یہ ضروری نہیں ہے اور جن کے بچے ہوئے ہیں، وہ سب لیڈر بدعنوان ہی رہے ہوں، ایسا بھی نہیں ہے۔ خود گاندھی جی کے چاربچے تھے ۔ جن سیاستدانوں کے بچے نہیں ہیں یا جن کی شادی نہیں ہوئی ہے، ان کا رویہ مثالی ہے، ایسا بھی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں متعدد غیرشادی شدہ اور بے اولاد لیڈروں نے بدعنوانی کی تاریخی مثال قائم کی ہے۔ اگر راہول گھر کے جھنجھٹ سے اس لیے بچنا چاہتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو کون ان کا استقبال نہیں کرے گا لیکن اگر اس نظریہ کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے تو ان کی اس گتھی کو سگمنڈ فرائڈ جیسا کوئی فلسفی ہی سلجھا سکتا ہے۔ راہول کانگریس کے اقتدار کے ڈھانچے کو بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی کے پالیسی ساز دس بیس نہیں، پانچ سو لوگ ہوں یعنی داخلی جمہوریت آئے۔ یہ قابل تعریف خیال ہے۔ یہ خیال اگر شرمندہ تعبیر ہوجائے تو ہندوستان کی تمام پارٹیاں بہتر ہوجائیں۔ تقریباً تمام پارٹیاں کانگریس کی نقل کرتی ہیں۔ علاقائی پارٹیاں تو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن ہی گئی ہیں، کُل ہندپارٹیاں بھی مٹھی بھر لیڈروں کی مٹھیوں میں قید ہیں۔ اگر ہماری جماعتوں میں داخلی جمہوریت قائم ہو جائے تو اصل میں ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا اور مستند جمہوری ملک کہلائے گا۔ ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت ان لوگوں میں نہیں ہوتی جو اپنے سرپرتاج اور کندھے پر تلوار رکھنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس طرح کے انقلابی کام وہی کرتے ہیں جو سرپرکفن باندھ کر نکلتے ہیں اور تلوار کی دھار پر چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں‘ جیسا کبھی گاندھی نے کیا تھا۔ جمود کے قلعہ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظام میں تبدیلی کی بین بجاناآسان ہے لیکن نظام کی تبدیلی ناممکن ہے بشرطیکہ کہ کوئی راہول کبھی گاندھی بن کر دکھائے۔ (آئی این ایس انڈیا) (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)