"DVP" (space) message & send to 7575

پاکستان میں نئی صبح

پاکستان آج کل اپنی تاریخ کے بڑے اہم وقت سے گزر رہا ہے۔ کسی منتخب حکومت نے پہلی بار پانچ سال پورے کیے ہیں، ورنہ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور بینظیر بھٹو جیسے مقبول لیڈروں کی حکومتیں بھی جلد ہی ختم ہوگئیں۔ آصف زرداری حکومت کا پانچ سال تک چلتے چلے جانا پاکستانی جمہوریت کیلئے تو فخر کی بات ہے ہی، سارے جنوبی ایشیا کے لیے بھی خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان کے بعد جو اس علاقے کا سب سے بڑا ملک ہے، وہ جمہوریت کی راہ پر چل پڑا ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ 11مئی کو ہونے والے انتخابات تک پاکستان میں عبوری یا نگران حکومتیں بنا دی گئی ہیں۔ تمام صوبوں میں نئے وزرائے اعلیٰ اور وفاق میں نئے وزیراعظم کی تقرری جتنی آسانی سے ہوگئی، اس پر یقین نہیں آتا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں صوبوں اور مرکز میں تقریباً تمام اہم جماعتوں کو اپنی حکومت بنانے یا حکومتی اتحادمیں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ گویا جمہوریت کا مزہ تمام قابلِ ذکر جماعتوں نے چکھا، کسی پارٹی کے دل میں اقتدار حاصل کرنے کی حسرت ادھوری نہیں رہ گئی اور یہ تمنا بھی نہیں رہی کہ فوج کی ملی بھگت سے اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ آصف زرداری کی حکومت پانچ سال چلتی رہی لیکن وہ بنی تھی بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے۔ اگر بے نظیر بھٹو کا اچانک قتل نہ ہوتا تو زرداری کو گدی پر کون بیٹھنے دیتا …یعنی زرداری لیڈر نہیں، متبادل لیڈر ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ان کو داد دینی پڑے گی کہ وہ اپنی مخلوط حکومت کو پانچ سال تک دھکیل کر لے گئے۔ اس نقطہ نظر سے ہم ان کو نرسمہارائو، اٹل بہاری و اجپائی اور منموہن سنگھ کے برابر رکھ سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مقبول اور طاقتور لیڈر نہیں ہیں لیکن انہوں نے آئین میں ترمیم کی اور صدر کے کئی اختیارات میں کمی کی اوروزیراعظم کی طاقت بڑھائی۔ صوبوں کی مخالف حکومتوں کو برداشت کیا اور انہیں معطل نہیں کیا(پنجاب کی مسلم لیگی حکومت کو معطل کیا لیکن عدالت نے اسے بحال کر دیا۔ ادارہ)۔ مرکز کے مقابلے میں صوبوں کو مزید اختیارات دیئے اور احتیاط سے کام لیتے رہے۔ کسی لال مسجد پر حملہ نہیں کیا، کسی اکبر خان بگٹی کو قتل نہیں کیا، کسی جج کو برطرف نہیں کیا بلکہ جنرل مشرف کی طرف سے برطرف کئے گئے ججوں کو بحال کر دیا۔ زرداری کے وزرائے اعظم کو بھی ججوں کے اختیارات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ دہشت گردی، مہنگائی اور بدعنوانی کا بول بالا تو رہا لیکن ہندوستان کی طرح پاکستان میں کوئی بڑا عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ زرداری حکومت کی کئی بار حد سے زیادہ کِر کِری ہوئی لیکن کچھ وجہ ہے کہ اسے نہ تو فوج نگل پائی اور نہ ہی عدلیہ۔ مشرف کے جانے کے بعد فوج کا حوصلہ پست سا ہوگیا اور اس نے ہر حال میں اپنے ہی دائرہ میں رہنا ٹھیک سمجھا۔ لال مسجد، بگٹی سانحہ، کراچی کے فوجی اڈے پر دہشت گردوں کا حملہ اور امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے فوج کی ساکھ پہلے ہی خراب ہوگئی تھی اور جنرل کیانی کے ہوتے ہوئے اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے پاکستانی فوج کی کارکردگی کو عام لوگوں نے موضوع بنا لیا ۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی ہی نہیں، میاں نوازشریف کی مسلم لیگ بھی فوج کو حمایت دینے پر تیار نہ تھی۔ کمزور حکومت، کمزور فوج اور سبق سیکھی ہوئی عدلیہ، ان تینوں وجوہات سے پاکستانی جمہوریت مسلسل پانچ سال تک سانس لیتی رہی۔ پاکستان کی یہ کمزوری ہی پاکستان کی مضبوطی بن گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ 11 مئی کے عام انتخابات میں کیا ہوگا؟ جنرل مشرف بھی اب میدان میں آگئے ہیں، عمران خان نے بڑی بڑی ریلیاں کرکے اپنی آمد کا بگل پہلے سے بجایا ہوا ہے۔ طاہر القادری کی طرف سے اٹھایا گیا طوفان چاہے اب پرسکون ہوگیا ہو لیکن اگر انہوں نے انتخابات میں خم ٹھونک دیا تو کچھ رہنمائوں کے پسینے چھوٹے بغیر نہیں رہیں گے۔ جہاں تک جنرل مشرف کا سوال ہے، وہ آج کل پیدل ہیں، گھڑ سوار نہیں ، کیا وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں؟ کراچی میں ان کا جو پھیکا استقبال کیا گیا، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جو لیڈر مہاجروں کے شہر میں اپنے حامی جمع نہیں کر پایا، وہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کیا کر لے گا؟ چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ ہوئی جھڑپ میں پاکستان کے عوام نے چیف جسٹس کا ساتھ دیا تھا اور اب وہ اپنی کرسی پر براجمان ہیں ۔مشرف کو ان کی عدالت میں برابر پیش ہوتے رہنا پڑے گا۔ ابھی ضمانت پر کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ مشرف کب سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں، کچھ پتہ نہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کی تلوار ان کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ اب وہ کراچی کے ایک ہوٹل میں رہ رہے ہیں۔ وہ کھلے عام اجلاس کیسے کریں گے اور ان کو ووٹ کون دے گا، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اصلی ٹکر تو میاں نواز کی مسلم لیگ، زرداری کی پیپلزپارٹی اور عمران خان کی تحریک انصاف میں ہونی ہے۔ سابق سروے کی بنیاد پر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کی پوزیشن سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ میری رائے میں وہ لیڈروں کے لیڈر ہیں۔ ان سے زیادہ تجربہ کار لیڈر پاکستان میں کوئی اور نہیں ہے۔ اگر بے نظیر کا قتل نہ ہوتا تو شاید گزشتہ انتخابات میں بھی میاں صاحب سب سے آگے رہتے۔ بلاول سے ان کو خطرہ ہوسکتا تھا کیونکہ وہ ایک تازہ اور معصوم چہرہ ہے لیکن اب ان کے دبئی چلے جانے سے ان کا راستہ بالکل صاف ہوگیا ہے۔ عمران کے اجلاس گزشتہ انتخابات میں بھی اچھے خاصے ہوتے تھے لیکن اس بار وہ اگر ووٹ میں تبدیل نہیں ہوں گے تو اصل مقابلہ صرف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں رہ جائے گا۔ ان دونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت ملنا مشکل ہے۔ انہیں مخلوط حکومت ہی چلانی پڑے گی۔ ہندوستان مخالف نظریہ اس بار بھی بڑا ایجنڈا نہیں ہوگا لیکن افغانستان سے امریکی انخلا کے پس منظر میں عسکریت پسند عناصر اہم ہوں گے اور ان کو کوئی بھی پارٹی نظرانداز نہیں کرسکے گی۔ پاکستان کی فوج انہیں تربیت دے سکتی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمران کے پیچھے بھی وہ ہیں ،لیکن ووٹ تو فوج کے ہاتھ میں نہیں ہے اور پھر ایک سابق جج نگران وزیراعظم ہیں اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نجم سیٹھی جیسے بولڈ صحافی وزیراعلیٰ ہیں تو مان کر چلنا چاہیے کہ اس بار کے پاکستانی انتخابات کافی صاف ستھرے ہوں گے۔ کوئی حکومت چاہے زوردار نہ بنے لیکن اس کو بنانے کا عمل زوردار اور صاف ستھرا ہوگا۔(آئی این ایس انڈیا) (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں اُنہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا اُن سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں