"DVP" (space) message & send to 7575

مشرف اور پاکستان

جنرل پرویز مشرف کے پاکستان لوٹنے کا جیسے ہی اعلان ہوا تھا، ہم نے کہا تھا کہ چوہا پنجرے کی طرف دوڑ رہا ہے۔گزشتہ تین ہفتوں نے اس مقولہ کو سچ ثابت کیا ہے۔اگر مشرف کل عدالت کے سامنے فوجی کمانڈوز جیسی چستی نہیں دکھاتے تو ان کے پنجرے کی عیدمن جاتی ۔پاکستانی جیل کے پنجرے میں سابق وزیر اعظم تو پھنسے ہیں، کبھی کوئی ڈکٹیٹر نہیں پھنسا ۔مشرف کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کیا گیاہے لیکن کسی ڈکٹیٹر کے گھمنڈکوچکناچورکرنے کے لئے یہ کیا کم ہے کہ انہیں چھوٹی موٹی عدالتوں میں مجرم کی طرح پیش ہونا پڑتا ہے۔سزا سنتے ہی جب وہ بھاگے تو لوگوں نے جم کر مزے لوٹے ۔دیکھو، وہ کون بھاگ رہا ہے؟ دیکھو، دیکھو، مشرف بھاگ رہا ہے۔اس طرح کے نعرے سن کر مشرف پر کیا گزری ہو گی، یہ و ہی بیان کر سکتے ہیں ۔ مشرف کی پارٹی ،آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی کنوینر ڈاکٹر امجد نے صفائی بھی کس ادا سے دی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عدالت میں راولپنڈی کی ’’بار ایسوسی ایشن ‘‘کے ڈھیروں وکیل بھیڑ لگائے ہوئے تھے۔ان وکلاء سے مشرف کوبچانا ضروری تھا۔کیوں ضروری تھا؟ کیونکہ وہ سپریم کورٹ کی بریگیڈ 111ہے ۔یہ بریگیڈ 111کیا ہے؟ یہ پاکستانی فوج کی وہی بریگیڈ ہے، جسے تختہ پلٹنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی پاکستان کی عدالت تختہ پلٹنے پر آمادہ ہے اور سارے وکلاء اس گروپ میں شامل ہیں۔یہ امجد نہیں، مشرف کی سوچ ہے۔ کچھ حد تک یہ سوچ ٹھیک ہے۔پاکستانی ریاست کا کچھ فطری مزاج ایسا ہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی ذرا سا اقتدار آ جاتا ہے، وہ دوسرے کے ہاتھ توڑنے کے لئے کمر کس لیتا ہے۔آج پاکستان کی عدالتوں کے حوصلے آسمانوں پر ہیں۔مشرف کے جانے کے بعد نہ صرف تمام برطرف جج بحال ہوئے بلکہ ججوں نے زرداری حکومت کو’ ناکوں چنے چبوا دیئے‘۔ایک وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، دوسرے کے گھٹنے ٹیکوا دیئے اور صدر آصف زرداری کے سینے پر چھرا تانے رہے ۔یعنی حکومت پر عدالت حاوی ہے،فوج پر بھی عدالت حاوی ہے،اگر حاوی نہیں ہوتی تو مشرف پاکستان چھوڑ کر بھاگتے کیوں؟ ججوں اور وکلاء کی تحریک نے فوجی آمر کے ہوش ٹھنڈے کردیئے تھے۔ عدالتوں کی طاقت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ اسامہ بن لادن کے قتل نے فوج کی شبیہ خراب کردی۔امریکہ کے ڈرون حملوں نے اس کا رعب داب ختم سا کر دیا۔اپنی ہی عوام کے خلاف غیر ملکیوں سے سانٹھ گانٹھ کرنا اور اپنی خود مختاری یا بالادستی کی ڈینگ مارنا، اس تضادنے آمروں کو عوام کی نظر میں بے وقعت بنا دیا ہے۔ایسے ماحول میں پاکستانی عدلیہ سب سے اوپر ہو گئی ہے۔اگر وہ تخت پر بیٹھے وزیر اعظم کو دھول چٹا سکتی ہے تو ایک بھاگے ہوئے جنرل کی اس کے سامنے کیا بساط ہے؟۔ اس وقت پاکستان کی عدلیہ تقریباً مطلق العنان ہے۔حکومت کے تینوں عناصر جب جب طاقتور ہو جاتے ہیں، وہ مطلق العنان ہو جاتے ہیں۔جب عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو بے حدمقبول تھے تو انہوں نے فوج کے کئی جنرلوں کو الٹا ٹانگ دیا،اپنے ساتھی رہنماؤں کو بری طرح ذلیل کیا اور پھر قصوری کے قتل کے الزام میں انہیں پھانسی ہوئی۔جب فوج طاقت میں آئی تو اس نے بھٹو صاحب کو ہی نہیں لٹکایا، پاکستانی سیاست کو اپنا ’جیبی رومال‘ بنا لیا۔مشرف نے بلوچ رہنما اکبر بگتی کاقتل کروا یا ، پختون اور بلوچ علاقوں میںبمباری کروائی، لال مسجد کو خون سے لال کر دیا اور پاکستانی عدالتوں کا سوپڑا ہی صاف کر دیا ۔سمجھا جاتا ہے کہ بے نظیر کا قتل بھی انہی کے اشارے پر ہوا ہے۔نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز کو ملک بدربھی انہوں نے ہی کروایا ۔اب عدلیہ کی باری ہے۔اس نے بھی کوئی کمی نہیں رکھی ہے۔پہلے تو اس نے مشرف کو ضمانت دے دی لیکن پھر ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی۔عدالت نے قائم مقام (نگران) حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ ان پر بغاوت کا مقدمہ کیوں نہیں چلاتی؟ اس حکومت نے کہا کہ اس کا اہم کام صرف انتخابات ٹھیک سے کروا دینا ہے تو عدالت نے خود ہی مشرف کو ملزم بنا دیا اور گرفتاری کا حکم دے دیا۔ مشرف نے چار جگہ سے پرچہ نامزدگی بھرے تھے ۔عدالت نے چاروں پرچے نامنظور کردیئے۔اب وہ کیا کریں گے؟ اگر وہ الیکشن لڑ بھی لیتے تو کیا کر لیتے؟ پانچ دس سیٹیں جیت کر وہ صرف اپنی تھوڑی بہت عزت بچا سکتے تھے۔ممبر پارلیمنٹ کے خصوصی اختیارات شاید انہیں کچھ حد تک بچاتے رہ سکتے تھے؟ لیکن اب تو انہیں وہ بھی نصیب نہیں ہے ۔اب اگر ان کی پارٹی امیدوار کھڑے کرے گی تو ان کو ووٹ کون دے گا؟ کیا پاکستان کے عوام کو پتہ نہیں ہے کہ بڑے شور وغل کے باوجود مشرف کے استقبال کے لئے کراچی ایئرپورٹ پر مشکل سے ڈیڑھ دو ہزار لوگ ہی آئے جبکہ کراچی مہاجروں (ہندوستان سے آئے مسلمانوں)کا شہر ہے۔مشرف کا جن پرتکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے۔نواز شریف پنجاب کے چہیتے ہیں۔ان کا تختہ پلٹ کرنے والے جنرل کو پنجاب میں کون پوچھے گا؟ بے نظیر کے قتل کا جس پر شک ہے، اسے سندھ کیوں سر پر بٹھائے گا؟ بگتی کے قتل سے سارے بلوچ بلبلائے بیٹھے ہیں، پختون اور سرحدی لوگ ڈرون حملوں کے لئے مشرف کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک فوج کی حمایت کا سوال ہے، جب تک جنرل لوگ اقتدار میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو گھوڑسوار کہتے ہیں،ان سے ڈرتے ہیں،انہیں سلام کرتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی وہ ریٹارئرڈ ہوتے ہیں، گھوڑے سے اترتے ہیں، عوام انہیں گھوڑے کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ ان کا اعتمادجڑ سے ہل جاتا ہے۔عوام کی بات جانے دیں، فوجی لوگ ہی ان کو نہیں پوچھتے۔فوجی وردی کو سلام کرتا ہے،وردی اتری نہیں کہ وہ عام آدمی بن جاتے ہیں۔اگر پاکستانی فوج مشرف کے ساتھ ہوتی تو کیا ججوں کی ہمت ہوتی، مشرف کو تنگ کرنے کی؟ فوجی کمانڈرجنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے دن ہی کہہ چکے تھے کہ وہ فوج کو اپنے دائرہ میں رکھنے کے حامی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ انہیں مشرف نے ہی مقرر کیا تھا۔ لیکن وہ ان پر خاص مہربانی نہیں تھی۔ انہیں اصولوں (میرٹ) کے مطابق مقرر ہونا ہی تھا۔مہربانی تو زرداری حکومت کی ہے کہ انہیں تین سال کی اضافی تقرری ملی۔وہ مشرف کی وجہ سے اپنا جلوا پھیکا کیوں کریں گے؟ اور ہم اگر فرض کریں کہ مشرف فوج میں مقبول ہیں (کارگل جنگ میں پاکستان کی ذلت و رسوائی کے باوجود) پھر بھی انتخابات میں فوج کیا کر لے گی؟ کیا وہ عوام کے سینے پر بندوق رکھ کر مشرف کی پارٹی کو ووٹ دلوائے گی؟ اس لئے مشرف کے لئے سب سے مناسب یہی ہوگا کہ وہ سب سے پہلے میاں نواز شریف سے معافی مانگیں اور پھر پاکستان کے عوام سے۔اس کے بعد اگر لوگ انہیں چین سے ٹکنے دیں تو پاکستان میں رہیں ،ورنہ وہ پھر لندن چلے جائیں ۔ان پر اتنے مقدمے چلائے جائیں گے کہ وہ برباد ہو جائیں گے۔کیا وہ اپنی جاہ طلبی کی ہوس کومحدودکردیں گے؟۔ مشرف کو تو اپنے بارے میں پھر سے سوچنا ہی ہوگا،پاکستان کے رہنماؤں اور ججوں کو بھی اس وقت ذرا دوراندیشی سے کام لینا ہوگا۔وہ چاہیں تو مشرف سے اپنا بدلہ لے سکتے ہیں۔ ان کے ایک ایک جرم کے لئے کئی کئی سزائیں دے سکتے ہیں۔انہیں پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں۔اس کے پیچھے ان کی یہ دلیل ہو سکتی ہے کہ اس ڈر کے مارے مستقبل میں کوئی ڈکٹیٹر پیدا نہیں ہوگا ۔سننے میں یہ ٹھیک لگتا ہے لیکن کوئی یہ بتائے کہ اگر کوئی ڈکٹیٹر گھٹ گھٹ کرمرے تو عوام پر زیادہ اثر ہوگا یا ایک جھٹکے سے پھانسی پر مرے تو؟ پھانسی کا جھٹکا عارضی ہوتا ہے جبکہ اب جو جھٹکے مشرف روز کھا رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے، ان کا اثر کہیں زیادہ وسیع اور گہرا ہوگا۔ اس کے علاوہ ریاست پاکستان کو یہ بھی سیکھناہوگا کہ اس کا کوئی بھی طبقہ انتہا پسند نہ بنے اورحدود میں رہے۔(آئی این ایس انڈیا) (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں