گزشتہ پانچ برس پاکستان میں جمہوری حکومت قائم رہی جو تاریخی واقعہ ہے۔ اب چند دنوں بعد ہونے والے انتخابات کیا پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی پر گامزن رکھیں گے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہوگیا ہے کہ پانچ برس پہلے اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف بھی میدان میں آگئے ہیں۔ اگرچہ وہ انتخابات سے باہر ہوگئے ہیں لیکن سیاست سے باہر نہیں ہوئے۔ ان کی حمایت میں کئی ریٹائرڈ فوجیوں کے بیان آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر ان کی پارٹی نے الیکشن لڑا اور وہ بری طرح شکست سے دوچار بھی ہوگئی تو بھی پاکستان کی سیاست کو وہ متاثر کیے بنا نہیں رہے گی۔مشرف کے پاکستان میں رہنے سے فوج بھی سیاست میں کچھ زیادہ دلچسپی لے گی ۔ یہ دلچسپی اُس صورت میں اور بڑھ جائے گی جب نواز شریف اور عمران خان جیسے رہنما نمایاں ترین پوزیشن حاصل کریں گے۔ ان دونوں لیڈروں کے مقابلے میں آصف علی زرداری کافی نرم اور لچک رکھنے والے لیڈر ہیں۔ وہ بے نظیر کے گھوڑے پر سوار تھے اور اپنی حد سے واقف تھے‘ اس لیے وہ فوج اور عدالت سے بار بار سمجھوتے کرتے رہے۔ انہوں نے امریکہ میں اپنے سفیر اور وزیر اعظم کو قربانی کا بکرا بن جانے دیا مگر نہ تو فوج کو دھمکی دی اور نہ ہی عدالتوں کو خوفزدہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر میاں نواز شریف یا عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو کیا وہ فوج اور عدالتوں کی کڑوی گولیاں نگل لیں گے؟ مانا کہ دونوں میں سے کسی کو بھی واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ وہ مخلوط حکومت بنالیں گے۔ ایسی حکومت اکثر کمزور ہو جاتی ہے‘ لیکن ان کی حکومت جتنی کمزور ہوگی‘ تصادم ہونے پر یہ اتنی ہی مضبوطی دکھائے گی۔ ایسی حالت میں سیاسی تصادم کو ٹالنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر عدلیہ‘ مقننہ اور فوج میں کوئی مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ تصادم کے ماحول میں غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ ہندوستانی خوف کا بھوت کھڑا کر کے اپنا کھیل شروع کر دیں گی۔ اگر حکومت کا تختہ نہ الٹا گیا تو بھی وہ مفلوج رہے گی۔ لہٰذا جو بھی نئی حکومت بنے گی وہ آصف زرداری حکومت کے مقابلے میں بہت بہتر نہیں ہوگی ۔ پھر بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت اگر کسی طرح پانچ سال چلتی رہی تو پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوںگی۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے 2006ء میں لندن میں جو مشترکہ میثاقِ جمہوریت جاری کیا تھا‘ اسے نافذ کرنے کا ماحول بنے گا۔ بہرحال‘ مئی میں منتخب ہونے والی نئی حکومت کو تلوار کی دھار پر چلنا ہوگا ۔ اہم سوال یہ ہے کہ آزادی کے 65برس بعد بھی کیا پاکستان اسی گرداب میںپھنسا رہے گا؟ کیا پاکستان کے عوام کو کبھی حقیقی آزادی کا مزا چکھنے کا موقع ملے گا؟ آخر پاکستان میں ایسا کیا ہے کہ وہ اب تک اندھی سرنگ میں بھٹک رہا ہے ؟ اگر ہم ان وجوہات کی نشاندہی کر سکیں جن کے باعث پاکستان کی یہ حالت ہوگئی ہے تو اس سے باہر نکلنے کا راستہ بھی نکالا جاسکتا ہے ۔ اوّل بات تو یہ ہے کہ انتظامیہ کے تمام اداروں میں فوج کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ شاید اس لیے کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے خوفزدہ ہے‘ اسے یہ خوف ستا رہا ہے کہ ہندوستان اسے ختم کردے گا۔ اس خوف کو بنگلہ دیش کے قیام نے مزید تقویت دی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہندوستان نے کبھی پاکستان کو ختم کرنے کی بات خواب میں بھی سوچی؟ ہندوستان کے کسی ذمہ دار لیڈر نے ایسی بات کبھی جنگ کے دوران بھی نہیں کہی۔ ہاں کچھ لوگ ’ اکھنڈ بھارت ‘ کی بات آزادی کے کچھ سال بعد تک ضرور کرتے رہے لیکن ہندوستان کے عوام نے اس پر کبھی توجہ نہیں دی ۔ ’ اکھنڈ بھارت ‘ کا نعرہ لگانے والے جب پہلی مرتبہ (1977ء میں) برسر اقتدار آئے تو انہو ںنے ہی سب سے پہلے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی پہل کی ۔ آج کے ہندوستان میں کوئی ایسا سرپھرا تلاش تک نہیں کیا جاسکتا جو یہ کہے کہ پاکستان پر حملہ کیا جائے؛ بلکہ ہندوستان میں اب رائے عامہ یہ بن گئی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ویسے ہی ہونے چاہئیں جیسے دو اچھے ہمسائے ملکوں کے ہوتے ہیں۔ منفی جذبہ تب ابھرتا ہے جب ہندوستان میں کبھی دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں اور ان کا تعلق پاکستان سے ثابت ہوتا ہے۔ ہندوستان میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان حملوں کے پس پشت پاکستان کے بعض ادارے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کی وجہ بھی وہی ہندوستان کا خوف ہے۔ پاکستان جب تک اس خوف سے آزاد نہیں ہوگا وہ اطمینان سے نہیں رہے گا۔ اسی عدم اطمینان کا ہی نتیجہ ہے کہ اس کی نظر جارح بن گئی ہے۔ پاکستان کے خوشحال ریاست بننے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے دماغ سے ہندوستانی خوف کو نکالے حالانکہ یہ آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سے زیادہ اور بڑی پہل ہندوستان کو کرنا ہوگی۔ ہندوستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان ہی ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے ۔ اگر پاکستان سے ہندوستان کے تعلقات اچھے ہو جائیں تو ہندوستان کے لیے افغانستان ، ایران اور ترکی ہی نہیں وسطی ایشیا کے پانچوں ’ آستانوں‘ کے دروازے بھی کھل جائیں گے ۔ یہ خطہ جسے میں قدیم آریانہ کہتا ہوں دنیا کا سب سے خوشحال اور طاقتور علاقہ ہے۔ پاکستان سے ہو کر ان ملکوں کو جانے والا برّی راستہ ہندوستان کے لیے خوشحالی اور طاقت کے نئے راستے تو کھولے گا ہی وہ پاکستان کا نقشہ بھی بدل دے گا۔ وہ پاکستان کو اس پورے خطے میں مرکزی کردار کا حامل بنا دے گا۔ وسطی ایشیا کے اس بڑے تالے کی چابی پاکستان کے ہاتھوںمیں ہوگی ۔ پاکستان کے لوگوں کو خوشحال بننے کے اتنے زیادہ مواقع ملیں گے کہ انہیں آپس میں لڑنے جھگڑنے اور دہشت گردی پھیلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ اگر افغانستان سے امریکی واپس ہوگئے اور یہ تجویز کامیاب نہ ہوئی تو دونوں ملکوں میں لا قانونیت کے پھیلنے کا خدشتہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ عمران خان کی تحریک انصاف نے وسط ایشیا جانے والے راستوں کو کھولنے کا ارادہ اپنے انتخابی منشورمیں کیا ہے۔ اگر یہ ارادہ حقیقی رخ اختیار کر لے تو پاکستان کو کسی بھی ملک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوںگے تو فوجی اخراجات خودبخود کم ہوں گے۔ خوشحالی بڑھے گی تو لوگوں کے ہاتھ میں زیادہ پیسے آئیں گے، بے روزگاری اور مہنگائی کم ہوگی ۔ کوئی بھی پاکستان کو ’ایک ناکام ریاست‘ نہیں کہہ سکے گا ۔ پاکستانی فوج بھی تناؤ سے آزاد سے ہوتی چلی جائے گی ۔ اس کے دماغ سے ہندوستانی خوف کا بخار اترتے ہی پاکستان میں جمہوریت فروغ پانے لگے گی۔ پورے آریانہ خطے کے تقریباً سوا درجن ممالک تب کیوں نہیں چاہیں گے کہ وہ ’یورپی یونین‘ سے بھی بہتر علاقائی تنظیم قائم کرکے دکھائیں۔ پاکستان اگر صحیح سمت اختیار کر لے تو آئندہ ایک دہائی میں وہ عالمی سیاست کا نقشہ پلٹنے میں کلیدی رول ادا کرسکتا ہے ۔ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)