"DVP" (space) message & send to 7575

کرناٹک کے ناٹک کا اصلی راز

کرناٹک کی جیت پر کانگریسیوں کی خوشی فطری ہے،لیکن حقیقت میں کیا یہ کانگریس کی جیت ہے؟سچائی تویہ ہے کہ کرناٹک کے انتخابات میں نہ تو کانگریس جیتی ہے اور نہ ہی بی جے پی ہاری ہے۔اس چناؤ میں یدی یورپا ہی جیتے ہیں اور وہی ہارے ہیں۔یدی یورپا ہی اس الیکشن کے ہیرو اور ولن دونوں تھے۔ اچھا،آپ ہی بتائیں کہ کرناٹک کے انتخابی نتائج سے سب سے زیادہ خوش کون ہوگا؟کون ایسا رہنما ہے جس کی نجی خواہش سب سے زیادہ پوری ہوئی ہے؟ وہ ہے یدی یورپا۔یدی یورپا بی جے پی کو مزہ چکھانا چاہتے تھے سو‘ انہوں نے چکھادیا۔اسے 110سے40پر اتار دیا۔بی جے پی کو معلوم تھا کہ وہ دوبارہ برسراقتدار نہیں آسکے گی،لیکن اس کی اتنی بری حالت ہو جائے گی کہ وہ جنتادل(ایس) کے برابر ہو جائے گی ،یہ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچاتھا۔بی جے پی نے کرناٹک میں اپنی پوری طاقت آزما لی۔اپنے ہر چھوٹے بڑے رہنما کو داؤ پر لگادیا،لیکن اسے جنتادل(ایس ) سے کم ووٹ ملے۔یدی یورپا کی پارٹی کرناٹک جنتاپارٹی کوصرف 6سیٹیں ملیں۔ اگر یدی یورپا اور بی جے پی ساتھ ہوتے تو انہیں کُل 46 سیٹوں کے بجائے 97سیٹیں ملتیں کیونکہ 51سیٹوں پر یدی یورپا اور بی جے پی کے ووٹ مل کر کانگریسی امیدوار سے زیادہ تھے۔اگر بی جے پی کو 97سیٹیں ملتیںتو ظاہرہے کہ کانگریس کی 51سیٹیں کم ہو جاتیں۔اس کی اکثریت کھٹائی میں پڑ جاتی۔اسے حکومت بنانے کے لیے جنتادل (ایس ) کے رہنما ایس ڈی کمارا سوامی کی پناہ میں جاناپڑتا لیکن کانگریس کو یدی یورپا کا احسان مندہونا چاہیے کہ اس نے ایسی نوبت نہیں آنے دی۔بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے مجھ سے کہا کہ یدی یورپا ہماری پارٹی کا وبھیشن ثابت ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ یدی یورپا آپ کی پارٹی کے وبھیشن اور راون دونوں ہی تھے۔پہلے انہوں نے راون کا رول ادا کیاپھر وبھیشن کا۔مرکز اور ریاستوں کی سیاست میں کئی باغی رہنماہوئے ہیں، لیکن اب تک کے سارے ریکارڈ یدی یورپا نے توڑ دیے ہیں۔وہ سب سے بڑے ولن ثابت ہوئے ہیں۔یدی یورپا نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی ان سب آدرشوں اور اصولوں کو سبوتاژ کر دیاجس کا بی جے پی نقارہ بجاتی رہی ہے۔وراثت اور کنبہ پروری کی زہریلی بیل جتنی تیزی سے کرناٹک میں پھلی پھولی ،بہت کم ریاستوں میں ویسا دکھائی دیا۔بیلاری برادران اور یدی یورپا خاندان نے جو لوٹ کھسوٹ مچائی کیا اس کے بارے میں بی جے پی کے مرکزی رہنما انجان تھے؟سب کو سب کچھ پتہ تھا،لیکن شیر کے منہ میں ہاتھ کون ڈالے۔کرناٹک کے عوام بھی دانتوں تلے انگلی دبائے سب کچھ دیکھتے چلے آرہے تھے،وہ کیا کرسکتے تھے۔بی جے پی کے مرکزی رہنماضرور کچھ کرسکتے تھے۔لوہاگرم تھا‘اس وقت چوٹ کرتے تو عوام بھی واہ وا کرتے، لیکن ان کی نیندتب کھلی جب یدی یورپا کے کنبے کی سیاہ کاریوں کے ڈھول زور زور سے بجنے لگے۔جب وزیر اعلیٰ کے جیل جانے کی نوبت آگئی تب انہیں ہٹایاگیا اور تب بھی انہیں پارٹی کی کمان سونپ دی گئی اور ایک وزیراعلیٰ کٹھ پتلی کی طرح بٹھادیاگیا۔کرناٹک کے عوام کو بی جے پی نے یہ پیغام دے دیا کہ یدی یورپا ہی بی جے پی ہے اور بی جے پی ہی یدی یورپا ہے۔یہ انتخابی نتائج اسی پیغام کا نتیجہ ہیں۔یدی یورپا کی علیحدہ پارٹی بنانے سے کیا فرق پڑا؟بی جے پی کی بدعنوان شبیہ پتھر کی لکیر کی طرح عوام کے ذہن ودل پر نقش ہوگئی۔عوام نے بی جے پی اور یدی یورپا دونوں ہی کو سخت سبق دیا۔دونوں ہی ایک سکے کے دو پہلو تھے۔دونوں پٹ گئے۔ بی جے پی کے رہنما خواہ کہتے رہیں کہ وہ کرناٹک میں آپسی انتشار کی وجہ سے ہار گئے لیکن سچائی کا انہیں پتہ ہے۔وہ جانتے ہیں کہ ان کی شکست کی وجہ بدعنوانی ہے۔یہ وہی بدعنوانی ہے جومرکزی حکومت کے گلے میں سانپ کی طرح لپٹی ہوئی ہے۔کانگریس کی بدعنوانی پر حملہ کرتے وقت بی جے پی کے رہنما ؤں کی زبان لڑکھڑاتی کیوں رہتی تھی‘کیونکہ کرناٹک کی بدعنوانی ان کے سرپر چڑھ کر بولتی تھی۔تواب کرناٹک کے عوام کو دوش کیوں دیا جائے؟ کرناٹک کے عوام نے آس پاس کی بدعنوانی کو سزادی اور دہلی کی دوردراز بدعنوانی کو نظر انداز کر دیا۔دور کے بدعنوانی پر نزدیک کی بدعنوانی بھاری پڑگئی۔یہی اتراکھنڈ اور ہماچل میں بھی ہوا۔ان ریاستوں کے مقامی بی جے پی رہنماؤں کی بدعنوانی انہیں لے ڈوبی۔ کچھ کانگریسی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ کانگریس کی فکر کی جیت ہے اور 2014ء کے پارلیمانی الیکشن کا قبل از وقت اشارا ہے۔اگر سچ مچ وہ ایسا ہی سمجھ رہے ہیں توہمیںان کی عقل پر ترس کھانے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بدعنوانی کی جس آگ نے 2013ء میں کرناٹک کی بی جے پی کا بھرتہ بنادیا ہے وہی آگ 2014ء میں دہلی میں بھی جلے گی؟کیاوہ کانگریس کا کچومر نہیں نکال دے گی؟کرناٹک میں کانگریس کو اپنی جیت سے پھول کر کُپّا ہونے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن بی جے پی کی بھول سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔انہیں جی توڑ کوشش کرنی ہوگی کہ کہیں 2014ئکے عام انتخابات میں کانگریس کی ویسی ہی بری حالت نہ ہو جائے۔ کرناٹک کی ہار کاٹھیکرا نریندر مودی کے سرپھوڑناویسا ہی ہے جیسے اس کی جیت کا سہرا راہول یا سونیا کے سر باندھنا ہے۔ مودی کے تین زبردست عام جلسوں کے مقابلے کانگریسی صدر کے پھیکے جلسوں میںکھسیاہٹ پیدا ہونافطری ہے،لیکن کرناٹک کے انتخابات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دونوں قومی پارٹیوں کے پاس اپنا کوئی ایشو نہیں ہے جس کے دم پر وہ کروڑوں عوام کے دلوں میں کسی امیدکی لہر پیدا کرسکیں اور اس کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرسکیں۔دونوں پارٹیاں انہی ایشوز پر ایک دوسرے کے سردھنتی رہتی ہیں جو عوام نے ان کی جھولی میں ڈال دیے ہیں۔حکومتوں کی بدعنوانیوں سے عوام رنجیدہ ہیں اور اسی ایشو کو عوام نے روشن کر دیا ہے۔اسی ایشو کی بنیاد پر کرناٹک میں کانگریس کی سرکار بن چکی ہے اور یہی ایشوعوام کے دماغ پر سوار نہیں ہوتاتو کیا کانگریس کو 121سیٹیں مل سکتی تھیں۔ذاتوں،رہنماؤں اور علاقوں میں منقسم مقامی کانگریس کرناٹک کو کتنا نہال کرے گی،اوپر والاہی جانے، لیکن خدشہ یہی ہے کہ 2014ئمیں کانگریس کا جو متبادل کھڑا ہو گاوہ کہیں کرناٹک کے متبادل سے بھی کمزورنہ ثابت ہو۔ (کالم نگارسینئر بھارتی صحافی اور سیاسی مبصر ہیں۔ ادارے کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیںہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں