ایک پرانی بحث پھر شروع ہوگئی ہے۔ انگریزی سے ملک کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟ میرا خیال ہے کہ انگریزی سے فائدہ کم ہوا اور نقصان زیادہ! کسی بھی نئی زبان کے سیکھنے سے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ زبان غیر ملکی ہو تو اور زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی کاروبار، سفارتکاری، علمِ سائنس اور رابطہ کی نئی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ ہندوستان کے3-4 فیصد لوگ کام چلاؤ انگریزی جانتے ہیں۔ اس کا انہیں فائدہ ضرور ملا ہے۔ ملازمتوں میں ان کا بول بالا ہے۔ کاروبار میں ان کا تسلط ہے۔ سماج میں ان کا دبدبہ ہے۔ وہ ہندوستان کے پالیسی ڈویلپر ہیں۔ ہماری قسمت ان سے وابستہ ہے۔ 125 کروڑ کے اس ملک کو یہی 4-5کروڑ لوگ چلا رہے ہیں۔ انگریزی داں لوگ اکثر شہروں میں رہتے ہیں،3-4ہزار کیلوری کی مزیدار اور قوت بخش غذا لیتے ہیں، صاف ستھرے شفاف لباس اور زیوروں سے لدے پھندے رہتے ہیں۔ انہیں طبی، تفریح اور سیر سپاٹے کی تمام سہولتیں میسر رہتی ہیں۔ ان کے بچے انگریزی میڈیم کے مہنگے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ تو کیا یہ ہندوستان کا نقصان ہے؟ اس سوال کا جواب یہ سوال ہے کہ گلاس کتنا بھرا ہوا ہے؟ ایک گلاس میں 125گرام پانی آ سکتا ہے۔ اگر اس میں صرف پانچ گرام پانی بھرا ہو تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ وہ بھرا ہے یا خالی ہے؟ 125کروڑ کے ملک میں صرف 4-5 کروڑ لوگوں کے پاس ساری سہولتیں، ساری خوشحالی، سارے حقوق، ساری طاقتیں جمع ہو جائیں تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ سارے ملک کا فائدہ ہے؟ نہیں، یہ اس چھوٹے سے ہوشیار طبقے ’بھدرلوک‘ کا فائدہ ہے، جس نے انگریزی کا جادو ٹونا چلا کر ہندوستان میں اپنے مفاد کا طلسم کھڑا کر لیا ہے۔ انگریزی کو تعلیم اور روزگار میں لازمی بنا کر اس نے ملک کے کروڑوں دیہی، غریب، پسماندہ طبقات، دلتوں، قبائلیوں اور خواتین کو خوشحالی اور عزت سے محروم کر دیا ہے۔ گاندھی کے خواب کو چورچور کردیا ہے۔ آزادی کے اصولوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں انگریزی سیکھنے یا استعمال کرنے کا مخالف ہوں۔ کسی غیر ملکی زبان کو سیکھنے کی مخالفت کوئی بے وقوف ہی کر سکتا ہے، لیکن ملک کے لوگ اپنی زبان سیکھیں یا نہ سیکھیں، ان زبانوں کے ذریعہ ان کو روزگار یا کام کاج ملے یا نہ ملے، لیکن قاعدہ یہ ہو کہ انہیں انگریزی سیکھنی ہی ہوگی، ورنہ وہ تعلیم یافتہ نہیں مانے جائیں گے اور انہیں اونچے درجے کا کام کاج یا روزگار نہیں ملے گا۔ اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ بڑی بے وقوفی نہیں ہے؟ اس بے وقوفانہ پالیسی کی آج کوئی بھی پارٹی یا لیڈر ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کرنے والا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے لیڈروں کو یہ سمجھ ہی نہیں ہے کہ کسی جدید، خوشحال اور طاقتور ملک کی تعمیر میں قومی زبان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اس سمجھ کے فقدان کی وجہ سے ہی آزادی کے 65 سال بعد بھی ہماری تعلیم‘ نوکر شاہی‘ راج کاج‘ میڈیا‘ عدلیہ‘ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی انگریزی کا بول بالا ہے۔ انگریزی کے اس تسلط نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ہندوستان میں جہالت، ناانصافی، عدم مساوات، بے بسی اور ظلم کی کئی وجوہ میں سے ایک انتہائی خطرناک وجہ انگریزی بھی ہے۔ یہ انتہائی خطرناک اس لیے ہے کہ یہ پوشیدہ ہے۔ یہ دہشت گردوں کے بم گولوں کی طرح تہلکہ نہیں مچاتی۔ یہ میٹھے زہر کی طرح بھارت کی رگوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر ہم اب بھی ہوشیار نہ ہوئے تو 21 ویں صدی کے ہندوستان کو یہ کھوکھلا کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ انگریزی کے تسلط کی وجہ سے آزاد ہندوستان کو سب سے پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ وہ دنیا کی کئی عظیم زبانوں سے کٹ گیا۔ اس نے فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، چینی، جاپانی، روسی، سواہیلی جیسی زبانیں اپنے بچوں کو نہیں پڑھائیں۔ دنیا کے سارے علم و سائنس کا ٹھیکہ انگریزی کو دے دیا اور اس کا پچھ لگّوبن گیا۔ اس کی دنیا سکڑ گئی۔ کیا کوئی سکڑا ہوا ہینگر سپر پاور بن سکتا ہے؟ اب تک جتنے ملک سپر پاور بنے ہیں، اپنی زبان کے دروازے سے بنے ہیں اور انہوں نے ایک نہیں، غیر ملکی زبانوں کی کئی کھڑکیاں کھول رکھی ہیں۔ دوسرا بڑا نقصان انگریزی نے یہ کیا کہ اس نے بھارت کی عظیم زبانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ بھارت کے خودغرض ’بھدرلوک‘ نے اسے قومی رابطہ زبان قرار دے دیا۔ یہ ہندوستان کے بنیادی ثقافتی اتحاد پر شدید حملہ ہے۔ تیسرا نقصان یہ کہ انگریزی کی وجہ سے ہندوستان میں آج تک، ناخواندگی کی سلطنت پھیلی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ بچے انگریزی میں فیل ہوتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ ماتھاپچی اسی میں کرتے ہیں۔ ہر سال 22 کروڑ بچے پرائمری پاٹھ شالاؤں میں پڑھتے ہیں، لیکن 40 لاکھ سے بھی کم گریجویٹ بنتے ہیں۔ کیوں؟ بنیادی وجہ انگریزی کی لازمیت ہے۔ جن ممالک میں صد فیصد خواندگی ہے، جرمنی، فرانس، جاپان، انگلینڈ، ایران وغیرہ، ان میں تعلیم قومی زبان میں ہوتی ہے۔ اگر بھارت میں انگریزی تھوپی نہ جاتی تو آج پورا بھارت خواندہ ہی نہیں، تعلیم یافتہ بھی ہوتا۔ چوتھا، انگریزی کی وجہ سے ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک بھارت اور دوسرا انڈیا۔ انگریزی داں انڈیا کا شہری ایک ہزار روپے روز پر گزارا کر رہا ہے اور بھارت کا شہری صرف 27 اور 33 روپے روز پر۔ اگر انگریزی کی لازمیت ہٹے تو غریبوں اور دیہاتیوں کے بچوں کو بھی مساوی مواقع مل سکیں گے۔ وہ کسی سے بھی پیچھے کیوں رہیں گے؟ پانچواں، ہندوستانی جمہوریت اس لیے غیر جوابدہ بن گئی ہے کہ اس کے قانون‘ اس کی پالیسیاں‘ اس کا نفاذ‘ سب کچھ انگریزی میں ہوتا ہے۔ عام آدمی کی اس تک پہنچ ہی نہیں ہوتی۔ عوام کے چنے ہوئے ممبر پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی ایوانوں میں انگریزی بولتے ہیں۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ آزادی کے چھ ماہ بعد بھی جو ایسا کرے گا، اسے میں گرفتار کروا دوں گا۔ چھٹا، علم اور سائنس کے میدان میں ہندوستان نقل کرنے والا(نقلچی) بنا ہوا ہے۔ یہاں بنیادی تحقیق کرنے کی بجائے طالب علم انگریزی کا رٹا لگانے میں اپنی طاقت کو ضائع کرتا ہے۔ مغرب کی نقل کرکے ہم نے ترقی تو ضرور کی ہے، لیکن ان ممالک کی طرح ہم بھی قومی زبان میں کام کرتے تو شاید ان سے آگے نکل جاتے۔ ساتواں، ہماری عدالتوں میںایک کروڑ سے بھی زائد مقدمات برسوں سے کیوں لٹکے ہوئے ہیں؟ لوگوں کو انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ اصل وجہ انگریزی ہی ہے۔ قانون انگریزی میں، بحث انگریزی میں اور فیصلہ بھی انگریزی میں۔ سب کچھ آدمی کے سر پر سے نکل جاتا ہے۔ اگر آزاد بھارت انگریزی کی اجارہ داری کو تحلیل کرتا اور کئی غیر ملکی زبانوں کو عزت دیتا تو آج اس کا کاروبار کم سے کم دس گنا ہوتا۔ مقامی زبانوں کو مناسب مقام ملتا تو ہم حقیقتاً جدید، طاقتور، خوشحال، مساوات پر مبنی، سچی جمہوری اور بیدار قوم بنتے۔ جتنا نقصان اب تک ہوا، اس سے کم ہوتا۔ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)