ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فارریجنل کوآپریشن (سارک) کو وجود میں آئے 28 سال ہوگئے لیکن ابھی تک اس تنظیم کے آٹھ ممالک کے درمیان نہ تو آزاد تجارت شروع ہوئی، نہ آزادانہ سفر اور نہ ہی آزاد نقل و حمل کی سہولتیں حاصل ہوسکی ہیں۔ ایسے میں مشترکہ پارلیمنٹ، مشترکہ مارکیٹ، مشترکہ کرنسی اور جوائنٹ فیڈریشن کی بات کون کہے؟ سات ممالک نے مل کر ’سارک‘ کی بنیاد رکھی تھی… ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ۔ ان سات ممالک میں اب تک صرف ایک نیا رکن افغانستان شامل ہوا ہے۔ اسی خطے کے دو ممالک ایران اور برما(میانمار) ابھی اس تنظیم میں شامل ہونا باقی ہیں۔ علاوہ ازیں وسط ایشیا کے پانچ ممالک ازبکستان‘ قازقستان‘ کرغیزستان‘ تازکستان اور ترکمانستان کو اس تنظیم سے منسلک کرنے کی ابھی کوئی کوشش تک نہیں ہوئی۔ اگر یہ سب ممالک بھی سارک میں شامل ہوجائیں تو اس کے ممبران کی تعداد پندرہ ہو جائے گی۔ یہ تمام ممالک ہزاروں برس تک ’’آریانہ‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ ان پندرہ ممالک کی تنظیم کیسی ہوگی؟ جنوبی اور وسط ایشیا کے ان ممالک کی طاقت، ممکنہ طور پر دنیا کی کسی بھی علاقائی تنظیم سے زیادہ ہوگی۔ ان ممالک کی آبادی تقریبا ڈیڑھ ارب ہوگی اور ان کا رقبہ یورپی یونین سے کئی گنا بڑا ہو گا۔ ان ممالک میں تیل، گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی کے بڑے ذخیرے ہیں۔ اکیلے افغانستان میں اتنا خام لوہا ہے کہ پورے جنوبی ایشیا کی ضرورت ڈیڑھ دو صدیوں تک پوری کر سکتا ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی پن بجلی جنوبی ایشیا کے ہر گھر کو روشن کر سکتی ہے۔ اس خطے کے ممالک کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اس کے اناج، پھل،پھول اور مویشیوں سے ایک ایک شخص کو غذا کے لیے عمدہ اشیا مل سکتی ہیں۔ اگر ان ممالک میں آزادانہ اقتصادی اور ثقافتی تبادلوں کا ماحول بن جائے تو میری پختہ رائے ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں اس خطے کی غربت دور ہو سکتی ہے اور اگلے دس برسوں میں ایشیا کا یہ خطہ یورپ سے بھی زیادہ خوشحال اور محفوظ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ پینسٹھ برسوں میں یہ ممالک کیا کرتے رہے؟ علاقائی اتحاد کا کام آگے کیوں نہیں بڑھا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے لیڈروں کی ذہنی غلامی ہے۔ وہ اپنے دل و دماغ کو انگریز حکام کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ وسط ایشیا کے پانچوں ممالک روس کے شکنجے میں تھے۔ ہندوستان اور پاکستان جیسے بڑے ممالک کے رہنما اپنے پڑوس کے ’چھوٹے موٹے‘ ممالک کے بجائے دنیا کی سپرپاورز کے ساتھ رشتے استوار کرنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے دنیا کی دوستی کے چکر میں پڑوسیوں کو نظرانداز کیا۔ ایشیا کے پڑوسی ممالک کو جوڑنے کے بجائے وہ غیر وابستہ تحریک کی ہوائی باتوں میں الجھے رہے۔ اب ’سارک‘ بن تو گئی لیکن یہ ہے کہ سست رفتاری سے کیوں چل رہی ہے؟ کیا اس کی رفتار تیز نہیں ہو سکتی؟ کیا ہمارے لیڈروں کو عالمی سیاست کی گھنٹیوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ حکومتوں اور لیڈروں کی اپنی حد ہوتی ہے۔ ان پر صرف الزام عائد کردینا مناسب نہیں ہوتا۔ وہ حکومت چلانے والے لیڈر ہوتے ہیں، سماج کے نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایشیائی ممالک میں آج بھی حکومتوں کے مقابلے سماج کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ سارک ایک سرکاری تنظیم ہے۔ آٹھ ممالک کے صدور یا وزرائے اعظم ہر سال اکٹھے ہو کر ایک رسمی کانفرنس کرتے ہیں، تقریر کرتے ہیں، قرارداد منظور کرتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔ کٹھمنڈومیں واقع سیکرٹریٹ اس گاڑی کو کھینچتا رہتا ہے۔ گاڑی کچھ آگے ضرور بڑھتی ہے، لیکن اس کے پیچھے عوام کا دھکا نہیں ہوتا۔ عوامی دباؤ کا فقدان ہی سارک کے ڈھیلے پن کا اصل سبب ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران میں نے وہاں کے نئے اور پرانے وزرائے اعظم اور حزب اختلاف کے رہنماؤں سے بات چیت کی تو میرے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوگیا کہ صرف سارک سے کام چلنے والا نہیں۔ ہمیں عوامی سارک کھڑا کرنا ہوگا۔ ایسی تنظیم جو پندرہ پڑوسی ممالک کے کروڑوں لوگوں کے درمیان براہ راست رابطہ کا پل بنے۔ سال میں کم از کم ایک بار تمام پندرہ ممالک کے ہزاروں شہری کسی ایک ملک میں جمع ہوں، ایک دوسرے کے گھروں میں رہیں، باہمی تعلق قائم کریں اور کانفرنسوں میں ان سب مسائل پر بحث کریں، جن سے علاقائی ٹریفک، نقل و حمل، کاروبار، سرمایہ کاری، روزگار، تعلیم وغیرہ کے مشترکہ دروازے کھلیں۔ ہزاروں شہریوں میں یہ براہ راست رابطہ‘ عوامی سارک کے ایک نئے نظریہ اور نئی کائنات کو وسعت دے گا۔ اب سے تقریباً دس سال پہلے جب عوامی سارک کے اس تصور کو میں نے ڈھاکہ کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیا تو بنگلہ دیش کے کئی اخباروں نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے اس کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکہ میں قائم کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ پاکستان اور بھوٹان میں نئی حکومتیں آ گئی ہیں۔ نیپال اور مالدیپ میں بھی کچھ ہی ہفتوں میں نیا نظام آنے والا ہے۔ سال بھر میں ہندوستان، افغانستان اور برما میں اقتدارتبدیل ہوگا۔ وسط ایشیا کے ممالک میں فی الحال بہت اتھل پتھل نہیں ہے۔ عوامی سارک کا پہلا کام تو یہی ہوگا کہ جن سات ممالک کی حکومتیں سارک میں نہیں ہیں، ان کے عوام کو اس سے منسلک کریں۔ جب ان پندرہ ممالک کے ہزاروں خصوصی شہری کسی مطالبہ کی حمایت کریں گے تو ڈھلمل حکومتوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ کبھی کبھی لیڈر حضرات ’نادانستہ طور‘ پر یا پھر مغرور ہو کر اپنے پڑوسی ممالک کے مناسب مطالبات کی بھی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں عوامی دباؤ انہیں صحیح پٹری پر لے آئے گا۔ اگر یہ پندرہ ممالک بین الاقوامی معاملات پر تقریبا ًایک جیسی رائے رکھنے لگیں گے تو سپر پاورز کے سازشی معاہدات اپنے آپ پھیکے پڑجائیں گے۔ ان ممالک کو آپس میں لڑاکر اپنے مفادات پورے کرنے کی پرانی پالیسی بیکار ہو جائے گی۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہوگی کہ عوام سے عوام کی قربت کے سبب جنگ کے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے۔ اربوں روپے کا خرچ ہر سال بچے گا۔ اس پیسے کا استعمال غربت دور کرنے میں صرف ہوگا۔ ایشیا یا ہندوستان کے ان پندرہ پڑوسی ممالک کی تہذیب و ثقافت میں جتنا گہرا اور قدیم اتحاد ہے، اتنا یورپی یونین کے ممالک میں نہیں ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے اس بنیادی ثقافتی اتحاد کی مالا میں اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے موتیوں کو کس طرح پروسکتے ہیں۔ عوامی سارک کا یہ تصور رام منوہر لوہیا کے ہند‘پاک فیڈریشن اور گرو گولوالکرکے اکھنڈ بھارت سے بھی کہیں زیادہ وسیع اور جدید ہے۔ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)